واقعہ یہ ہے کہ مدّتوں سے پاکستان کی کوئی کشمیری پالیسی نہیں۔ ایسا درد ناک موضوع ہے کہ آدمی سوچے تو زخم ہرے ہوتے ہیں۔ اظہار کی تاب نہیں رہتی۔
بے حسی کی چادر بہت دبیز ہے، چادر کیا دیوار ہے صاحب، کشمیر کے معاملے میں جو ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دانشوروںکے دلوں اور دماغوں پر مسلط ہے۔ چناروں میں آگ سلگ اٹھے اور وادی ہنگاموں سے بھر جائے تو ہڑبڑا کر لوگ اٹھتے ہیں۔ کچھ دن بیانات کی گرم بازاری، ٹی وی مذاکروں اور کالموں کی یورش، پھر وہی خاموشی۔ زندگی درد اور احساس سے ہوتی ہے، درد نہ ہو تو آدمی مٹی کے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔
دل گیا رونقِ حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
فرمایا: دل پتھر ہو جاتے ہیں بلکہ پتھروں سے زیادہ سخت۔ پتھروں میں تو ایسے ہیں‘ جن سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں۔ ''سیفما‘‘ کا ایک وفد برسوں پہلے سری نگر گیا تھا۔ یہ تو خیر مبالغہ تھا کہ رقص و سرود کی محفلیں وہاں برپا ہوئیں، مگر بھارتی بلاوے پر کشمیر وہ گئے ہی کیوں؟ لوک گیتوں کی اِس محفل میں کیوں شامل ہوئے‘ جو مسرت اور تپاک کی مظہر تھی۔ قاتل بھارتی استعمار کی طرف سے برپا کی گئی۔ کیا بھارتی شہری ارون دتی رائے ہزار گنا ان سے بہتر نہیں۔ اس کا کوئی ضمیر ہے‘ کوئی احساس۔ اس میں کوئی غیرت اور حیا ہے۔ پاکستانی اخبار نویسوں میں سے ایک نے خود مجھے بتایا کہ امرتسر میں سیڑھیوں سے گر کر وہ زخمی ہو گیا۔ ایک بھارتی لیڈر نے پوچھا تو آنجناب کے بقول، مذاق کے پیرائے میں انہوں نے ارشاد کیا: پاکستان میں آئی ایس آئی مارتی ہے تو بھارت میں ''را‘‘۔ اس جملے کا مطلب کیا تھا اور کیا تاثر پیدا کرنا مقصود تھا؟ مایوسی ہے، غیر سنجیدگی اور لاابالی پن اور بعض میں تو بے غیرتی۔
بھارت کا ایجنڈا واضح ہے۔ اس کی فلمیں تک بتاتی ہیں کہ بھارتی عوام کے دلوں میں پاکستان کی نفرت ان کے لیڈر گہری اتار دینا چاہتے ہیں۔ ادھر پاکستان میں میڈیا گروپ ہیں جو بھارتی فلموں اور اداکاروں کا سکّہ بٹھانے کے لیے مرے جاتے ہیں۔ کس کی خواہش پر؟ کس لیے؟
پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کی قیادت کو انہوں نے خریدا اور کراچی کو مفلوج کرنے کی کوشش کی۔ دہلی میں کھڑے ہو کر ان کے لیڈر نے کہا: پاکستان کی تخلیق انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ کتنے لیڈروں نے اس پر احتجاج کیا؟ جماعت اسلامی اور عمران خان کے سوا کسی نے نہیں۔ کپتان نے بھی اس وقت جب اس جماعت سے ان کی تلخی ہو گئی۔ جب کراچی کی دیواروں پر ان کے خلاف غلیظ نعرے لکھے گئے۔
ٹی وی کے ایک پروگرام میں جناب رشید گوڈیل کی موجودگی میں فریاد کی تو آپ نے ارشاد کیا: یہ آدمی تحریک انصاف کا حامی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ پارٹی اس کی کار میں بنی تھی۔ کار والی بات تو محض اختراع تھی۔ ایسا احمقانہ جملہ میں کیسے کہہ سکتا ہوں۔ تحریک انصاف کی اندھی جماعت کا الزام بھی بہتان تھا۔ بے شک ایک زمانے میں کپتان سے امیدیں میں نے وابستہ کیں‘ مگر اس دور میں بھی دہشت گردی کے موضوع پر شدید اختلاف اس سے کیا اور برملا کیا۔ ٹی وی کے بعض پروگراموں میں اس کی موجودگی میں اور ہمیشہ کی طرح لفظ چبائے بغیر۔ ''سونامی‘‘ اور ''جنون‘‘ ایسے الفاظ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور بار بار اس کی سیاسی اہلیت پر سوالات اٹھائے۔ گوڈیل صاحب جس روز برہم ہوئے، کپتان سے اختلاف ہوئے ایک برس سے زیادہ بیت چکا تھا۔ میں نے انہیں یاد دلایا، حوالے دیے مگر بہتان کو دلیل سے کیا غرض؟ شور مچاتے رہے کہ اس شخص کو ٹی وی پر مدعو نہیں کیا جانا چاہیے۔ کاشف عباسی نے اس پر بھنّا کر کہا کہ آپ کون ہیں یہ فیصلہ کرنے والے۔
اب تو گوڈیل صاحب خود ستم کا شکار ہیں اور ایسے شکار کہ فریاد بھی نہیں کر سکتے۔
حکمرانوں کو اہلِ کشمیر سے ایک ذرا سی ہمدردی بھی ہوتی تو مولانا فضل الرحمن آٹھ برس سے قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کیسے ہوتے؟ بتایا جاتا ہے کہ یہ کمیٹی 6 کروڑ روپے ہر سال خرچ کرتی ہے۔ اب تک تردید نہیں کی گئی؛ البتہ آپ نے یہ کہا کہ کچھ رقم واپس کر دی جاتی ہے، حالانکہ کمیٹی کے وفود ایشیا، افریقہ اور یورپ کے دورے کیا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کمیٹی کی کارکردگی کیا ہے؟ اس کی کوئی رپورٹ؟ دوروں کے نتائج؟ روپے اس لیے واپس کر دیے جاتے ہیں کہ بجٹ زیادہ ہوتا ہے۔ زرداری صاحب ان کی دل جوئی کیا کرتے۔ اسحق ڈار کی طرف سے حرف انکار کا سوال ہی نہیں۔ ان کے نائب اکرم درّانی نے بنوں کے جلسۂ عام میں وزیر اعظم نواز شریف کو جتلایا تھا کہ اگر وہ حکم دیں تو بنی گالہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔ خیر یہ حکم تو انہوں نے صادر نہ کیا مگر اس شہر میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کرنے کا حکم دیا‘ جبکہ چھ شہروں کے لیے پی آئی اے کی پروازیں بند کی جا چکی ہیں۔ پھر ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ایک مزید یونیورسٹی کا ''مولانا یہ بھی آپ پہ قربان‘‘۔ یہ وہی شہر ہے، جہاں عالی جناب نے شہدا کے لیے مختص زمینیں اپنے کارندوں کے نام الاٹ کرائیں۔ ڈیزل کا مشہور عالم پرمٹ حاصل کرنے کے کئی برس بعد۔ اس پرمٹ کے بارے میں اپنی پارٹی کی مجلس عاملہ کو انہوں نے بتایا تھا کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدن انہوں نے ملاّ عمر کے مجاہدین کو پیش کر دی تھی۔ مجھے یہ بات اس اجلاس میں شریک ان کے رفیقِ کار نے بتائی۔
کشمیر کیا، عالی جناب کو تو پاکستان سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ 2002ء کا الیکشن جیتنے کے بعد، بھارت تشریف لے گئے۔ دشمن ملک کے اخبار نویسوں کو بتایا کہ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے لیڈر ایک عدد گول میز کانفرنس بلا کر، 1947ء کی تقسیم کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں شور اٹھا تو ان کے حلیف قاضی حسین احمد مرحوم نے اسے ڈس انفرمیشن قرار دیا۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل سید منور حسن نے البتہ احتجاج کیا۔
2002ء کے الیکشن سے قبل جنرل پرویز مشرف نے اپنی کابینہ کو بھارت، صدام حسین اور کرنل قذافی وغیرہ سے مولانا کے مراسم کے بارے میں بتایا۔ انتخابی معرکہ درپیش ہوا تو فوجی حکمران کو اس فطین سیاستدان کی ضرورت آ پڑی۔ وزیر خارجہ عبدالستار نے مولانا کی خصوصیات بیان کیں تو جنرل نے فرمایا: ان کی کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔
قرآن کریم قرار دیتا ہے: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ کوئی جائے اور جا کر وزیر اعظم سے پوچھے۔ کشمیر کا مقدمہ آپ نے کس کے سپرد کر دیا؟ حضور کس کے سپرد؟
ذرا سی معقولیت اور ذرا سی شرافت بھی اگر آدمی میں پائی جاتی ہو تو اپنے وطن سے ویسی ہی محبت اسے ہوتی ہے، جتنی اپنے گھر سے۔ اپنے گھر کا انہدام کیا کوئی برداشت کرتا ہے؟ اپنے والدین اور اپنے بیوی بچوں کو دکھ پہنچانے والے کو دوست کوئی گردانتا ہے؟ بھارتی مسلمانوں کے قاتل اور کشمیری مسلمانوں کے بدترین دشمن نریندر مودی ہمارے حکمرانوں کو ایسے عزیز کیوں ہیں؟ میرے پاس چھ عدد تصاویر ہیں، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی۔ تین عدد بھارتی وزیر اعظم اور تین جنرل راحیل شریف کے ساتھ۔ اوّل تین میں شگفتہ و شاداب، ثانی الذکر میں ملول، دل گرفتہ اور اداس۔ یہ خاص طور پر اتاری نہیں گئیں۔ عام تقریبات کی ہیں اور زیادہ تر سرکاری طور پر جاری کی گئیں۔ کسی وقت چھاپ دوں گا۔
واقعہ یہ ہے کہ مدّتوں سے پاکستان کی کوئی کشمیری پالیسی ہی نہیں۔ ایسا درد ناک موضوع ہے کہ آدمی سوچے تو زخم ہرے ہوتے ہیں۔ اظہار کی تاب نہیں رہتی۔