مگر اپنی ہی ذات کے گنبدوں میں بند‘ ہمارے کم کوش اور سطحی لیڈر‘ اللہ ان پر رحم کرے اور اس قوم پر بھی جو نہیں جانتی کہ عظیم تر مقاصد کو فقط لیڈروں پر چھوڑ نہیں دیا جاتا۔
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے اپنی جنگ ہاری نہیں‘ درحقیقت وہ جیت رہا ہے۔ نہ صرف بلوچستان بلکہ کراچی اور قبائلی پٹی میں بھی۔ کراچی میں اغوا برائے تاوان‘ بھتہ خوری اور تاک کر قتل کرنے میں دوتہائی سے زیادہ کمی آئی ہے۔ ڈیرہ بگتی اور سبی میں دو سال پہلے تک کاشتکاروں سے جو خراج لیا جاتا‘ اب کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ فراری کیمپ اجڑ چکے۔ بھارت سے ایک ملین ڈالر سالانہ وصول کرنے والے حیربیارمری اور براہمداغ بگتی افغانستان سے فرار ہو کر سوئٹزرلینڈ پہنچے اور اب لندن میں مقیم ہیں۔ سال گزشتہ جنرل راحیل شریف نے برطانوی وزیراعظم اور ایم آئی سکس کے سربراہ سے ملاقات کی تھی۔ اگرچہ برطانیہ اب بھی ان کا مددگار ہے مگر اتنے آزاد اب وہ ہرگز نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ 2000 میں سے کم از کم پانچ سو فراری ہتھیار ڈال چکے‘ جن کی بحالی کا عمل جاری ہے اور اتنے ہی مزید کسی وقت سپرانداز ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ فہرستوں کی چھان بین کرنا ہوتی ہے۔ توبہ کرنے والے بعض اوقات غیرمعمولی عنایات کی امید رکھتے ہیں۔ کرائے کے مہم جو کی نفسیات مختلف ہوتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ سرپرستوں کی۔ ان سرداروں میں سے جس کسی سے بھی ملاقات ہوئی وہ وزارت اعلیٰ کا امیدوار تھا‘ کم از کم گورنری کا۔ یہ مال غنیمت تو ہے نہیں کہ بانٹ دیا جائے۔ ہوتا بھی تو کئی درجن گورنریاں اور چیف منسٹریاں کہاں سے آتیں۔ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے۔ اونچی پگڑیاں اور اونچی انائیں۔ ایک تاریخی
عمل ہی سے قبائلی سماج جدید سماج میں ڈھلتا ہے۔ پھر جب اتنے بہت سے ملک سازشوں میں ملوث ہوں تو ہموار کرنے کا عمل اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ سؤر فصل اجاڑتے ہیں اور پہاڑوں میں پناہ لے کر آگ برسانے والے‘ ہل چلانے اور آبیاری کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ عسکری قیادت نے چمالانک میں 75 بلین ڈالر مالیت کی کوئلوں کی کانیں مری اور لونی قبائل میں تقسیم کردیں۔ نوجوانوں کے لیے تربیتی ادارے قائم کئے‘ جن میں عرق ریزی کرکے وہ برسرروزگار ہو سکیں۔ سب سے بڑھ کر پاک فوج میں بھرتی کے لئے شرائط نرم کر دیں تو یہ اسی تاریخی عمل کا آغاز تھا‘ قدم بہ قدم‘ رفتہ رفتہ‘ دھیرے دھیرے‘ جیسے برف بلندیوں پر پگھلتی اور میدانوں میں پھول کھلاتی ہے۔ معاشرے کے ناراض گروہوں کو آسودہ کرنے کا عمل کبھی سہل نہیں ہوتا۔ امریکہ کی خانہ جنگی ختم ہوئے145سال گزر چکے مگر جنوبی امریکہ میں ابرہام لنکن آج بھی غیر متنازعہ ہیرو نہیں۔ سرکاری عمارتوں کے سوا ‘ شاذ ہی کہیں اس آدمی کی تصویر یا مجسمہ دکھائی دے گا‘ سیاسی ہی نہیں‘ اخلاقی اعتبار سے بھی جسے جدید تاریخ کی عظیم ترین ہستیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میںبلوچستان کے پیکر پہ زخم بہت لگے اور اس کی تزویراتی اہمیت غیر معمولی ہے۔ بلوچستان سے پرے ایران کی ایک چھوٹی سی پٹی سے لے کر وزیرستان تک پورے پاکستان اور افغانستان کے کچھ حصے میں دھاتوں کے غیر معمولی ذخائر ہیں۔ سونا اورتانبا ہی نہیں اس سے سینکڑوں گنا زیادہ قیمتی ذخیرے۔ پاکستان کی عسکری قیادت کو یقین ہے کہ اگر نائن الیون کا حادثہ نہ بھی ہوتا تو امریکی گھمنڈ افغانستان میں داخل ضرور ہوتا ۔ ان لامحدود ذخائر سے استفادہ کرنے اور اس کی تزویراتی اہمیت کی بنا پر۔ ایک سابق چیف آف آرمی سٹاف نے بتایا کہ بہت پہلے ہی امریکی منصوبہ بندی کر چکے تھے۔ افغانستان وسطی ایشیا کا دروازہ ہے اور پاکستان افغانستان کا۔ ہر چیز بدلی جا سکتی ہے مگر جغرافیہ نہیں۔
آج کا چین ایک ابھرتی پھیلتی ہوئی قوت ہے‘ امریکہ جس کے فروغ سے اندیشہ پالتا ہے۔بھارت کے ساتھ اس کی قربت اور ایران سے حالیہ سمجھوتہ ‘ مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا میں واشنگٹن کے مفادات کا تحفظ کرنے کے علاوہ اس اندیشے کا مظہر ہے۔
چین کے جنوبی سمندروں کا تنازع شدت اختیار کر گیا ہے ۔ آسٹریلیا‘ فلپائن اور سنگا پور ان جزائر پر چین کے حریف ہیں۔ امریکی ہمدردیاں مخالفین کے ساتھ ہیں۔ ماہِ گزشتہ عالمی عدالت نے ان جزائر پہ چین کے خلاف فیصلہ صادر کیا‘ جبکہ اس نے بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اس فیصلے کو بیجنگ نے مسترد کر دیا اور ججوں کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ اس واقعہ کے بعد‘ پاکستانی پریس نے بالعموم جسے نظر انداز کر دیا‘ تجارتی راہداری کی اہمیت اور بھی بڑھ چکی۔ یہ صرف مغربی چین کے لیے نہیں بلکہ اس شاہراہ کے بل پر دور دراز کے ممالک سے تجارت کو فروغ دینے کا خواہاں ہے ‘ یورپ اور ایشیا کی 96ریاستیں۔
بھارتی وزیر دفاع پاریکر اعلان کر چکے کہ پاکستان کو وہ یہ شاہراہ تعمیر نہیں کرنے دیں گے۔ را کے افسروں سے مودی کے مشیر اجیت دوول کے اس خطاب کی فلم ہر باخبر پاکستانی کے موبائل میں محفوظ ہے‘ جس میں وہ بلوچستان کو الگ کرنے اور طالبان کے ذریعے دہشت گردی جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کرتے ہیں۔ پاکستان کے برعکس‘ قائد اعظم کے بعد جسے کبھی کوئی دور اندیش لیڈر نہ ملا‘ اپنے عزائم پر بھارتی بالکل واضح ہیں۔ پاکستان میں احمقوںاور کارندوں کی کوئی کمی نہیں۔ احمق وہ جو بھارتی عزائم کا ادراک نہیں رکھتے۔ آزادی کی قدروقیمت سے جو آشنا نہیں۔ کارندے وہ پاکستان کو محتاج اور معذور رکھنے پر تلے امریکہ اور اسے تباہ کرنے کے آرزومند بھارت اور عالمی صیہونیت کے لئے کام کرتے ہیں۔ بعض اوقات بالکل نادانستہ طور پر کہ وہ کس کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ چند سال قبل ملائیشیا میں عدم استحکام پیدا کرنے والے جارج سورس کے ادارے کو پاکستان میں جب ایک نمائندے کی ضرورت پڑی تو وہ آسانی سے دستیاب ہوگیا۔ اسے کوئی غیرقانونی کام نہ کرنا تھا‘ بس کچھ ''بے ضرر‘‘ معلومات درکار تھیں۔ یہ آدمی وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ نیویارک گیا اور جارج سورس سے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا۔ اب وہ ایک اہم سرکاری ادارے کا سربراہ ہے۔ وہ ایک ضرورت مند تھا اور اس کی نیت پر شک کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ جارح سورس کی این جی او کو جو معلومات اس نے فراہم کیں‘ ایک نظر ان پر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے ایک وفاقی وزیر سے عرض کیا کہ این جی اوز‘ کرنل قذافی اور صدام حسین کے علاوہ اردن اور دوسری عرب انٹیلی جنس ایجنسیوں سے رابطہ رکھنے والے مولانا فضل الرحمن اور مشکوک محمود اچکزئی پر بھی۔مولانا فضل الرحمن اپنا کھیل احتیاط سے کھیلتے ہیں اور اس حد کو چھونے سے گریز کرتے ہیں‘ جسے ملک سے بے وفائی کہا جائے۔ محمود اچکزئی کی حدود کوئی نہیں۔ با ایں ہمہ جیسا کہ ایک اہم سرکاری شخصیت کا کہنا ہے کہ اچکزئی کی Madness نہیں ایک Methed کارفرما ہے۔ وہ بے خوف اس لیے ہے کہ کبھی پکڑا نہ گیا‘ حالانکہ کافی مواد اس کے خلاف موجود ہے۔اب تو ایوان وزیراعظم اس کی پشت پر ہے۔ بلوچستان حکومت میں وہ دخیل ہے اور مرکز میں بھی۔
کوئی ملک اس غیرذمہ داری کا متحمل نہیں‘ جس کے ہم مرتکب ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ سول اور فوجی قیادت میں ہم آہنگی کے بغیر کراچی‘ بلوچستان اور قبائلی پٹی میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ نون لیگ کے سرکردہ رہنما یہ بات تسلیم کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض کا جو کم از کم تنہائی میں کھل کر بات کرتے ہیں‘ کہنا یہ ہے کہ اس عظیم تر مقصد کے لیے وزیراعظم اور جنرل راحیل شریف کو اپنی انا سے بلند ہونا چاہیے۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔
محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کی اڑائی ہوئی دھول کے باوجود ایک اعتبار سے حالات اب زیادہ سازگار بھی ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو توسیع اب قبول نہیں‘ زیادہ بڑے ایجی ٹیشن کا خطرہ ٹل چکا اور مارشل لاء کے نفاذ کا ہرگز کوئی اندیشہ نہیں۔
مگر اپنی ہی ذات کے گنبدوں میں بند‘ ہمارے کم کوش اور سطحی لیڈر‘ اللہ ان پر رحم کرے اور اس قوم پر بھی جو نہیں جانتی کہ عظیم تر مقاصد کو فقط لیڈروں پر چھوڑ نہیں دیا جاتا۔
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب