"HRC" (space) message & send to 7575

قوم کو وزیراعظم کیا سکھانا چاہتے ہیں؟

کوئی جائے اور جا کر میاں محمد نوازشریف کو بتائے کہ حضور بدذوقی کا مظاہرہ ہے‘ یہ بدذوقی کا۔
''یہ کوئی چھوٹا سا کارنامہ نہیں‘‘ پی آئی اے کی پریمیئر سروس کی پہلی پرواز کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا۔ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ یقیناً یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور اس کی تعریف کرنی چاہیے۔ اگست کے آخر یا ستمبر کے اوائل میں لندن کا قصد تھا۔ شش و پنج میں تھا۔ اب فوراً ہی فیصلہ کر لیا اپنی قومی ایئر لائن خود کو بہتر بنانے پر تلی ہے تو کسی اور کے بارے میں سوچا بھی کیوں جائے۔ جس کسی نے بھی یہ مشورہ دیا‘ تخلیقی ذہانت کا‘ پیشہ ورانہ مہارت کا ایک اچھا مظاہرہ کیا۔ کیا عجب کہ پی آئی اے کے سنہری دن لوٹ آئیں۔ ہر پاکستانی کو قومی ادارے کی تعمیر میں ہاتھ بٹانا چاہیے... مگر کارنامہ؟۔کیا وزیراعظم کو معلوم ہی نہیں کہ کارنامے ہوتے کیا ہیں؟
یہ کبھی دنیا کی دوسری بہترین فضائی کمپنی تھی۔ اوّل شاید سوئس ایئر ویز تھی۔ امریکہ کی ''پینام‘‘ برطانیہ کی بی او اے سی اور جرمنی کی لفتھانسا سمیت‘ ان گنت ممالک سے مقابلہ درپیش تھا۔ اس کے باوجود‘ پوری خوش دلی اور کمال عزم کے ساتھ بروئے کار آنے والے پاکستان کے دو لائق فرزندوں‘ ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان نے اسے بام عروج پر پہنچا دیا۔ ظاہر ہے کہ کارکنوں کی یکسوئی اور دل جمعی کو مہمیز دے کر۔ نتیجہ خیز رہنمائی خود اپنی مثال سے کی جاتی ہے۔ پھر دنیا کی کتنی ہی فضائی کمپنیوں کی تعمیر میں‘ پاکستان کے ماہرین نے رہنمائی فراہم کی۔ ان میں سے امارات ایئر لائن بھی ہے جو اب دنیا بھر کی فضائوں میں چہک رہی ہے۔
پاکستان کی افسر شاہی کبھی‘ قابل اعتبار اور معزز بھی تھی ‘خاص طور پر مسلح افواج کے افسر تاآنکہ سیاست کی چاٹ لگ گئی۔ سیاست دانوں میں معتبر بھی ہوا کرتے ‘ تاآنکہ زیادہ تر بدعنوان ہو گئے۔ فوج کے انداز فکر میں تھوڑی سی تبدیلی ضرور ہے‘ افسر شاہی البتہ اتفاق فائونڈری کے ملازمین سے بھی کم تر سطح پر آچکی۔ ستمبر 1965ء کی جنگ میں ایئر مارشل نور خاں‘ خود بمبار طیارے میں سوار ہوئے اور دشمن کا قصد کیا تھا۔ ایئر مارشل اصغر خان نے عالمی پرواز کا ایک ریکارڈ قائم کیا تھا‘ مدتوں جس کا چرچا رہا۔ حفیظ کاردار‘ عمران خان اور وسیم اختر کی طرح‘ ہمارے افسر کبھی‘ دنیا بھر کے تناظر میں سوچتے اور معرکہ آرائی کے خواب دیکھا کرتے۔
یہ قائداعظمؒ کی قوم تھی‘ جن کے پائے کا لیڈر پچھلے تین سو سال میں پیدا نہ ہوا۔ دس برس ہوتے ہیں‘ جنرل حمید گل مرحوم نے اللہ ان کی مغفرت کرے‘ ناچیز سے کہا کہ اسے قائداعظمؒ اور ان کے ہم عصروں کا موازنہ کرنا چاہیے‘ ایک کتاب لکھنی چاہیے۔ نہرو اور گاندھی تو تھے ہی‘ ابرہام لنکن کی حیات کا مطالعہ شروع کیا تو میں ششدر رہ گیا۔ دو عشرے قبل‘ جس آدمی نے مجھے حیرت زدہ کر دیا تھا‘ جناح کے مقابل اسے کھڑا کرنا دشوار نظر آیا۔ محمد علی تو وہ تھے‘ عمر بھر جنہوں نے ایک بھی پیمان نہ توڑا‘ ایک بار بھی جھوٹ بولنے کا الزام نہ لگا‘ ایک چھوٹی سی خیانت بھی ان سے منسوب نہ کی گئی۔ کردار کشی کرنے والوں کے جواب میں ہمیشہ خاموش رہے‘ الزام تراشنے والے نام نہاد علما کو درخور اعتنا ہی نہ سمجھا۔دو تین بار ہی کسی کا نام لے کر تنقید کی اور وہ بھی ایک آدھ جملے میں۔
عربوں کا محاورہ یہ ہے : النّاس علیٰ دین ملوکہم۔ لوگ اپنے بادشاہوں کی راہ چلتے ہیں۔ لیاقت علی خان سے قائداعظمؒ پوری طرح مطمئن نہ تھے۔ ان کی رائے میں وہ سچی سیاست Real Politics ‘کے تقاضوں کا بکمال تمام ادراک نہ رکھتے تھے‘باایں ہمہ نظریاتی طور پر یکسو تھے ۔ ایک بڑی جاگیر چھوڑ کر آئے تھے اور ایک ایکڑ کا کلیم داخل نہ کیا۔ اس دنیا سے اٹھے تو 37 روپے ان کی جیب میں تھے۔ دم رخصت نواب زادہ نے‘ رفو کردہ جرابیں پہن رکھی تھیں۔ 
پھر غلام محمد آئے۔ بہت مذّمت ان کی ہوتی ہے اور گاہے بجاطور پر۔ آٹھ ہزار روپے ماہوار کی افسری چھوڑ کر ‘جو آج کے آٹھ کروڑ کے برابر تھے‘ قائداعظمؒ کی فرمائش پر‘ ایک تہائی سے کم معاوضہ قبول کر لیا ۔ بے باک ایسے تھے کہ قائداعظمؒ کے لیے خریدے گئے طیارے میں اضافی فرنیچر پر نوٹ لکھ دیا : وہ بابائے قوم ہیں؛ چنانچہ گوارا ہے‘ قانون ورنہ مختلف ہے۔
غلام محمد‘ سکندر مرزا‘ خواجہ ناظم الدین‘ حسین شہید سہروردی‘ چندریگر‘ چوہدری محمد علی‘ فیروز خان نون‘ فیلڈ مارشل ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ جنرل محمد ضیاء الحق‘ حتیٰ کہ یحییٰ خاں ایسے شخص پر سرکاری خزانہ لوٹنے کا الزام نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ بعض بے قاعدگیوں کا‘ جو بے نظیر بھٹو‘ نوازشریف اور زرداری صاحب پر عائد ہوتا ہے۔ افسر شاہی کا تقریباً ہر قابل ذکر منصب غلام اسحاق خان کو حاصل رہا۔ واپڈا کی بنیاد رکھّی‘ سندھ طاس منصوبے کو اس کمال کے ساتھ نبھایا کہ دو بار شہنشاہ ایران‘ دیکھنے آئے۔ سینٹ کے چیئرمین اور پھرصدر پاکستان ہو گئے۔ بھٹو‘ جنرل محمد ضیاء الحق اور نوازشریف کے ادوار میں ایٹمی پروگرام کے نگران رہے۔ ایٹمی سائنس دان بیٹوں کی طرح پیش آتے‘ باپ کی طرح ان کا احترام ملحوظ رکھتے۔ کسی ایک سڑک اور پل پر ان کے نام کی تختی نہ لگی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں مصر نہ ہو گئے ہوتے تو واحد تعلیمی ادارہ بھی ان سے منسوب نہ کیا جاتا۔
سنجیدہ تجزیوں میں حکمرانوں کی ہوس اقتدار کا ذکر ہوا کرتا یا من مانی کا۔ تاجر ان میں سے کوئی نہ تھا۔ ان میں کوئی نہ تھا بیرون ملک جس نے جائیدادیں بنائی ہوں اور کاروبار استوار کئے ہوں۔
1988ء کے بعد ایک عجیب مخلوق سے ہمارا واسطہ پڑا۔ ایوان اقتدار تاجروں کی آماجگاہ بنا اور لوٹ مار کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی شعبدہ بازی کا۔ ایک پل بنتا ہے‘ ایک سڑک اور بجلی کا ایک کارخانہ ۔ ایک ڈیم کا تصور کیا جاتا ہے اور اشتہارات کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ لاہور‘ اسلام آباد موٹروے کا طول ‘زیادہ سے زیادہ 300 کلومیٹر ہونا چاہیے تھا‘ 438 ہے۔ اس پر بھی شریف خاندان اور ان کے حواری‘ اس طرح احسان جتلاتے ہیں‘ گویا ان کے عطیے سے تعمیر ہوئی ہو۔ 
بغداد سے حجاز تک ہارون الرشید کی ملکہ نے اپنے سرمایے سے نہر تعمیر کی‘ تاریخ نے اسے نہرِ زبیدہ کے نام سے یاد رکھّا ہے۔ بارہ سو سال قبل ایک خیرہ کن کارنامہ۔ حساب کتاب کے رجسٹر سے لے کر ‘انجینئر ملکہ کی خدمت میں پہنچے تو کہا : انہیں دجلہ میں بہادو۔سری لنکا سے کرائے پر تین طیارے لے کر ‘ان کی آرائش و زیبائش کتنا بڑا معرکہ ہے کہ وزیراعظم پوری قوم سے داد کے طالب ہیں؟ 
مشہور مزاحیہ اداکار سلطان کھوسٹ نے کہا تھا : سرکاری افسر کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتا ہے اور کام کرنے کی رشوت۔ عجیب مزاحیہ کردار وںسے واسطہ پڑا ہے۔ ڈھنگ کا کوئی کام سرزد ہو جائے تو آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں۔ 
خلق خدا چیخ رہی ہے۔ ہسپتال برباد‘ سکول برباد‘ افسر شاہی اور پولیس کرم خوردہ‘ پٹوار خونخوار اور سرکاری افسر قصاب‘ بچے اغوا ہو رہے ہیں۔ بال کھولے مائیں سرپیٹ رہی ہیں۔ کوئی دل نہیں دکھتا۔ رتی برابر پروا کسی کو نہیں۔ ادھر حکمرانوں کے مسخرے دانشور ہیں کہ سرکاری ٹی وی پر آزاد اخبار نویسوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مطالبہ کرتے ہیں کہ پاک فوج کے ساتھ ترک سپاہ کا سا برتائو کیا جائے۔ سبحان اللہ نوازشریف دنیا کی دوسری سب سے تیزرفتار معیشت تشکیل دینے والے طیب اردوان کے ہم پلّہ کیسے ہو گئے؟سیاچن سے بلوچستان تک‘ ہزاروں زندگیاں نذر کرنے والی مقدس سپاہ ہونق باغیوںکے برابر کیسے ہو گئی۔تین عدد طیاروں کی آرائش پر وزیراعظم کو اتنا فخر ہے‘ گویا انہوں نے کشمیر فتح کر لیا ہو۔اس قوم کو کیا وہ سکھانا چاہتے ہیں‘ شعبدہ بازی؟
کوئی جائے اور جا کر میاں محمد نوازشریف کو بتائے کہ حضور بدذوقی کا مظاہرہ ہے‘ یہ بدذوقی کا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں