ریاست تو اب بھی کمزور پڑی تھی‘ متّامل اور متذبذب۔ الطاف حسین نے خودکشی کا ارتکاب کیا ہے‘ سیاسی خودکشی کا!
یہ اختتام کا آغاز ہے۔ ایم کیو ایم پٹڑی سے اتر گئی اور اب دوبارہ کبھی اس پر چڑھ نہ سکے گی۔ قرآن کریم ایک بڑھیا کی مثال دیتا ہے کہ اس نے سُوت کاتا اور خود ہی اسے اُدھیڑ ڈالا۔
وسیم بادامی اور ایک حد تک کاشف عباسی بھی کل شب مایوسی کا شکار تھے۔ جس معاشرے میں طاقتوروں کے خلاف آج تک کبھی کسی کو انصاف نہ ملا‘ اب کیسے ملے گا۔ تب اس ناچیز نے‘ جو اپنے ادارے سے معاہدے کی خلاف ورزی کر کے اس پروگرام میں شریک ہوا تھا‘ یہ عرض کیا : دنیا بھر کے مفکرین اس پر متفق ہیں کہ تبدیلی ہی قدرت کا لازمی اور ابدی قانون ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے سوشلزم کا عروج و زوال دیکھا ہے‘ آہنی دیوار کے پیچھے سوویت یونین کو بکھرتے پایا۔ افغانستان سے روسیوں کو بے نیلِ مرام واپس جاتے اور امریکی عزائم کو خاک بسر ہوتے دیکھا۔ وسطی ایشیا میں نئی ریاستوں کا ظہور ممکن ہوا۔ ایران میں صدیوں پرانی ملوکیت کا بوریا بسترلپیٹ دیاگیا‘ عالمی استعمار جس کی پشت پر کھڑا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک‘ پاکستان کے عملی تعاون سے شروع ہوئی تھی۔ حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ پاکستان نے پسپائی اختیار کر لی اور اہلِ کشمیر کو بھول کر پاکستانی وزیراعظم بھارت کے ساتھ دوستی کا گیت گانے لگے۔ اب وہاں ایک داخلی تحریک ہے‘ جسے دبانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکیں... ایک بھارتی ٹیلی ویژن چینل نے سروے کیا تو بتایا کہ صرف 27 فیصد کشمیری‘ ہندوستان سے وابستہ رہنے کے آرزو مند ہیں اور 70 فیصد آزادی کے۔ اسی طرح آج ایک بڑا واقعہ رونما ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کی بساط لپیٹ دی جائے گی ۔
نفرت کی لہر میں قوت بہت بہت ہوتی ہے مگر اس کی ایک مہلت ہوا کرتی ہے۔ جس طرح کہ ہٹلر اور مسولینی۔ قرآن کریم میں ہے کہ ظالموں کی رسّی اگر دراز کر دی جاتی تو وہ عبادت گاہیں تک پامال کر دی جاتیں ۔ بعض کو بعض کے ذریعے تباہ کر دیا جاتا ہے۔ قدرت کا ان دیکھا ہاتھ آخرکار بروئے کار آتا ہے ۔ جاری رہنے والے ایک مسلسل عمل میں کھوٹا کھرا چھانٹ دیا جاتا ہے۔ صرف وہ چیز برقرار رہتی ہے‘ خلق خدا کو جس سے نفع پہنچے۔
ابھی ابھی فاروق ستار کی پریس کانفرنس تمام ہوئی ہے۔ دعویٰ ان کا یہ ہے کہ پیر کی شام انہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت دی جاتی تو وہ یہی بات کہتے۔ لیکن آنکھیں بند کر کے موصوف پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ ان کا اقدام الطاف حسین کے ساتھ طے کردہ کسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے یا اپنے طور پر کیا جانے والا فیصلہ۔ یہ مگر آشکار ہے کہ شب بھر کی اسیری نے بھی ان کے خیالات میں صحت مندانہ تبدیلی پیدا کی ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام کے ردعمل نے۔ دانشوروں میں ایسے ہیں جو اسے عسکری قیادت کی طرف سے کیے جانے والے فیصلے کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اصل اہمیت عوامی جذبات کی ہوتی ہے۔ کوئی ریاستی ادارہ اسے نظرانداز کر کے نمو پذیر نہیں ہو سکتا۔
اس کے باوجود کہ الطاف حسین نے پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ‘ ایک ناسور اور کینسر قرار دیا ‘ وزیراعظم نوازشریف آٹھ گھنٹے تک مخمصے کا شکار رہے۔ آخرکار انہوں نے وہ بیان جاری کیا‘ بڑی حد تک جو عوامی امنگوں کے مطابق ہے ۔ دراصل یہ فوجی قیادت ہے‘ جس نے فیصلہ کن وار کیا۔ میرے پاس اگرچہ کوئی مصدقہ اطلاع نہیں مگر بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو فوجی قیادت ہی نے دو ٹوک انداز اختیار کرنے کا مشورہ دیا‘ وگرنہ ان کے محمود اچکزئی‘ پرویز رشید‘ نجم سیٹھی اور امتیاز عالم تو کبھی یہ صلاح نہ دیتے۔ کبھی ان کے انداز و اطوار سے اندازہ نہیں ہوا کہ پاکستان کو لاحق خطرات پہ وہ آرزدہ ہیں۔ دنیا کو پاکستان کے نقٔطہِ نظر سے دیکھنے کی بجائے وہ پاکستان کو دنیا کے نقٔطہِ نظر سے دیکھتے ہیں۔
فاروق ستار نے الطاف حسین کی ذہنی حالت کا ذکر کیا اور یہ کہا کہ ان کے بیانات کا وہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ ثانیاً یہ کہ متحدہ قومی تحریک کو اب پاکستان سے چلایا جائے گا۔ اس سوال کا جواب بہت جلد مل جائے گا کہ کیا یہ الطاف حسین کی مرضی سے ہوا ہے اور جیسا کہ فاروق ستار نے کہا‘ موصوف کی ذہنی حالت بحال ہونے
کے بعد پھر سے قیادت انہیں سونپ دی جائے گی؟ اگر الطاف حسین اس حکمت عملی کا حصہ نہیں تو وہ چیخیں گے اور بری طرح۔ سب سے دلچسپ سوال یہ ہے کہ الطاف حسین نے پاکستان سے غداری کا اعلانیہ طور پر جو ارتکاب کیا‘ کیا وہ محض ان کی علالت کا مظہر ہے اور کیا ان کے حقیقی عزائم کا بھی؟ وہ آدمی‘ نو برس پہلے دہلی میں کھڑے ہو کر‘ جس نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی تخلیق تاریخ کی سب سے بڑی حماقت ہے۔ دوسرا اور اتنا اہم سوال یہ ہے کہ کیا پونا سے ممبئی تک پھیلے کیمپوں میں ہزاروں کارکنوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے والا الطاف حسین کا سرپرست بھارت‘ انہیں پناہ دینے والا برطانیہ اور بھارت کا تزویراتی حلیف انکل سام کیا کرے گا؟ ایک کے بعد ایک برسراقتدار آنے والی دوسری حکومت نے بھارت‘ برطانیہ اور امریکہ سے کبھی اس پر احتجاج نہیں کیا کہ وہ پاکستان میں ایک دہشت گرد تنظیم کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے فراوانی سے ان کے لوگوں کو ویزے دیئے۔ انہی ملکوں کی مدد سے بنکاک اور اس سے زیادہ جنوبی افریقہ میں اپنے ٹھکانے انہوں نے قائم کیے۔ جب کبھی کراچی میں بھتہ جمع کرنے سے انہیں روکا گیا‘ قتل و غارت کا بازار اس نے گرم کر دیا۔ اٹھارہ ہزار شہریوں کو وہ قتل کر چکے ہیں۔ بعض مواقع پر خود اپنے کارکنوں اور لیڈروں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے میں ایم کیو ایم کے ایک کارکن کا قتل اور قومی اسمبلی کے رکن عبدالرشید گوڈیل پر حملہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ کراچی میں گرفتار کئے گئے ساڑھے آٹھ ہزار قاتلوں‘ ٹارگٹ کلرز میں سے ساڑھے چھ ہزار کا تعلق اس جماعت سے واقع ہوا ہے۔
صرف عسکری قیادت ایم کیو ایم کو شریک اقتدار کرنے والے‘ سیاسی پارٹیاں اور حکمران ہی مرتکب نہیں‘ ربع صدی سے جاری خون ریزی میں میڈیا اور عدالتیں بھی‘ مجرمانہ تغافل کی ذمہ دار ہیں۔ وہ پولیس‘ جس کی بھرتی رشوت ستانی یا سیاسی دبائو پر کی جاتی رہی جس کی گاڑیاں قاتلوں کو کرائے پر دی جاتی ہیں۔
کوئی بری الذمہ نہیں‘ پورا معاشرہ ذمہ دار ہے اور پورے ملک نے اس کی قیمت ادا کی ہے۔ اخبار نویسوں میں ایسے ہیں جو الطاف حسین کے قصیدے لکھتے‘ اس کے فضائل بیان کرتے اور تحائف وصول کرتے رہے۔ ایم کیو ایم بجائے خود ایک بیماری نہیں بلکہ ایک مرض کی علامت ہے۔ جس ملک میں غیر ملکی امداد سے چلنے والے این جی اوز آزادی سے پھلتی پھولتی رہیں‘ اخبار نویس ان سے وابستہ ہوں‘ ملک کے ممتاز اخبارات میں اظہار خیال کے لیے وہ آزاد ہوں‘ اس میں عاصمہ جہانگیر یںاور آئی اے رحمن پروان نہ چڑھیں گے تو اور کیا ہو گا؟۔
1996ء میں دو تہائی اکثریت سے الیکشن جیت کر میاں محمد نوازشریف اقتدار میں آئے تو ایم کیو ایم کے 500 دہشت گردوں کو انہوں نے رہا کر دیا تھا۔ اور 25 کروڑ تاوان بھی ادا کیا تھا۔ جنرل راحیل شریف صاحب‘ جناب آصف علی زرداری اور میاں محمد نوازشریف اب کیا کریں گے؟کیا اب بھی نرمی کا وہ ارتکاب کریں گے اور ملک کو برباد ہونے دیں گے؟
جرم خوف سے تمام ہوتا ہے۔ خوف ایک ہتھیار ہے جو سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہیے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ زندگی قصاص میں ہے۔
ریاست تو اب بھی کمزور پڑی تھی‘ متّامل اور متذبذب۔ الطاف حسین نے خود کشی کا ارتکاب کیا ہے‘ سیاسی خودکشی کا!