کیا جنرل راحیل شریف بالآخر ایک سیاسی رہنما بن کے ابھریں گے؟ بے یقینی کے بیاباں میں بھٹکتی قوم کے لیے اُمید اور امکان کا استعارہ؟ کوئی دن میں اس سوال کا جواب مل جائے گا کہ یہ محض ایک سپنا ہے یا ایک منصوبہ!
یہ خیال پیش کیا جا چکا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جنرل صاحب اس پرغور و فکر میں لگے ہیں۔ دعوے کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ آخر کار وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک قابل اعتبار ذریعے کو البتہ اصرار ہے کہ ان میں آمادگی پائی جاتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ملک کا سیاسی منظر یکسر بدل جائے گا۔
اسی معتبر آدمی سے‘ جس نے یہ اطلاع فراہم کی‘ میں نے سوال کیا کہ جنرل صاحب نومبر میں سبکدوش ہوں گے‘جبکہ آئندہ انتخابات ستمبر 2018ء میں ہوں گے۔ سرکاری ملازمین پر پابندی ہے کہ دو سال تک سیاست میں وہ حصہ نہیں لے سکتے۔ الیکشن میں کیونکر وہ شریک ہو سکیں گے؟ اس نے کہا : مردم شماری یا کوئی اور پیچیدگی‘ الیکشن میں دو تین ماہ کی تاخیر ممکن ہے۔ یہ بات کچھ زیادہ قابل فہم نہیں‘ تاخیر کیوں ہو گی! یہ وہ سوال ہے‘ جس کا جواب نہیں ملتا‘ اور جس سے الجھن پیدا ہوتی ہے۔اس ذریعے کو مگر اپنی اطلاع کی صداقت پہ اصرار ہے۔ ان حالات میں جب ایک سنسنی کے ساتھ یہ بحث جاری ہے کہ ملک کا نیا فوجی سربراہ کون ہو گا۔ شرارت کرنے والے شرارت کر سکتے ہیں۔ اس طرح کی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ بعض غیر ملکی طاقتیں‘ خاص طور پر شاطر برطانیہ، سازشوں کے جال بُن رہی ہیں۔ کچھ لوگ انہیں پسند نہیں‘ ظاہر ہے اس لیے پسند نہیں کہ اجلے اور راست گو ہیں۔ ان میں سے ایک کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ نام میں بالکل نہیں لکھوں گا کہ فائدے کی بجائے‘ الٹا اس سے نقصان ہو گا۔
پاک فوج ملک کا واحد قابلِ اعتماد اور قابلِ احترام ادارہ ہے۔ کسی طرح بھی اسے متنازعہ نہ بننا چاہیے۔ کسی طرح بھی اسے نقصان نہ پہنچنا چاہیے۔ پاکستان کا ہر مخالف‘ پاک فوج کے خلاف سرگرم ہوتا ہے۔ بھارتی اور امریکی کارندے‘ این جی اوز والے‘ وغیرہ وغیرہ۔ کشمیری عوام کے غم و غصّے سے ابل پڑنے والی تحریک پر بھارت پریشان ہے ۔ ایک کے بعد دوسرے کارندے کو وہ آگے بڑھا رہا ہے۔ ماہ گزشتہ میاں محمد نوازشریف کے چہیتے محمود خان اچکزئی نے قرار دیا تھا کہ پختون خوا‘ افغانستان کا حصہ رہا ہے۔ اسفندیار ولی نے کل اس نہلے پہ دہلا پھینکا کہ وہ افغانی ہیں اور زندگی کی آخری سانس تک افغانی رہیں گے۔ وہ آدمی برسوں سے‘ دبئی اور ملائیشیا میں‘ جس کے کاروبار اور جائیدادوں کے چرچے ہیں۔ افغانی ہوں یا نہ ہوں‘ مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عبدالغفار خان اور اس کی اولاد نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ڈوبتے ڈوبتے‘ پختونستان کا نعرہ بالکل ہی ڈوب گیا۔ بلوچستان میں افراتفری پھیلانے کی ہر کوشش ناکام رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‘ وہ پاکستان کے ساتھ اور بھی زیادہ شدّت سے جڑتا چلا جاتا ہے۔
جنرل ناصر جنجوعہ نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ آنے والی نسلیں ان پر فخر کرتی رہیں گی۔ وہ کام جو جنرل اعظم خان، مشرقی پاکستان میں کرنا چاہتے تھے اور کرنے نہ دیا گیا۔سال گزشتہ‘ 14 اگست کو میں نے کوئٹہ سے زیارت تک کا سفر کیا۔ زندگی بھر اس دن کی شادمانی کو میں فراموش نہ کر سکوں گا۔ راستے کی ہر گاڑی‘ ٹرک اور ہر موٹر سائیکل پر ہم نے پاکستانی پرچم لہراتے دیکھا۔ ایک منظر حافظے پر نقش ہے۔ زیارت ریذیڈنسی میں جنرل جنجوعہ نے ایک تقریب سے خطاب کیا‘ جہاں قائداعظمؒ نے زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ ایک نوجوان آگے بڑھا اور اس نے کوئی ذاتی مسئلہ بیان کیا۔ ایسی اپنائیت کے ساتھ‘ جس طرح خاندان کا کوئی بزر گ بات کرے‘ جنرل نے کہا کہ وہ انہیں خط لکھے۔ مسئلہ حل کرنے کے بعد وہ اسے اطلاع دیں گے۔
پاکستانی فوج نے گزشتہ برسوں میں بہت بڑی قربانیاں پیش کیں۔ دہشت گردی سے نبردآزما‘ اس کے ہزاروں جوان اور افسر شہید ہوئے۔ واقعہ یہ ہے کہ دستور سے زیادہ ملک کی مسلّح افواج نے اسے متحد رکھا ہے۔ اگر اس کا کوئی سابق سربراہ جمہوری عمل میں شریک ہو کر‘ زمامِ کار سنبھال سکے تو کیا امکانات کا بند دروازہ کھل جائے گا؟ کوئی ذاتی رائے دینے سے گریز ہے۔ یہ ایک سوال ہے‘ ٹھنڈے دل سے جس پر غور ہونا چاہیے۔ اس جذباتیت اور ہیجان کے ساتھ ہرگز نہیں‘ جس کے ہم عادی ہو چکے۔ بھارت‘ پاکستان کو توڑنے پر تلا ہے۔ امریکہ اس کا تزدیراتی حلیف ہے‘ حیلے بہانوں سے‘ جو پاکستانی معیشت پر ضرب لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایران اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نہایت تحمل کے ساتھ ان سازشوں کو ناکام بنانا چاہیے۔ افغانستان اور ایران سے مراسم بہتر بنانے کی ہر ممکن تدبیر کرنی چاہیے۔ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اشتعال اور برہمی‘ ملک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ نازک سیاسی امور پر غور و خوض کرتے ہوئے‘ احتیاط کا دامن کسی حال میں ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیے۔ ؎
ہر صدا پہ لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو‘ زباں کی طرح
حتمی طور پر چونکہ معلوم نہیں کہ جنرل صاحب کیا فیصلہ کرتے ہیں؛ چنانچہ اس موضوع پر رائے زنی بھی قبل ازوقت ہو گی کہ ایک سیاسی رہنما کے طور پہ ان کی کامیابی کا کتنا امکان ہے۔ اگرچہ ان کی راہ کے بہت سے کانٹے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چن دیئے تھے۔ مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو قبول عام‘ جنرل راحیل شریف کے حصے میں آیا ہے‘ پاکستان کی تاریخ میں‘ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اوّلین ایام میں یقینا ہر دلعزیز تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مقبولیت میں کمی آتی گئی! تاآنکہ ایک بھرپور عوامی تحریک کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔
جنرل جارج واشنگٹن اور جنرل تھامس جیفرسن کو اگر ہم نظرانداز بھی کر دیں تو جدید تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں‘ جہاں سابق فوجی افسروں نے مشکل حالات میں اپنی اقوام کی قیادت کی۔ اس کی کشتی کو ساحل مراد سے ہمکنار کیا۔ جنرل مصطفی کمال اتاترک‘ جنرل ڈیگال اور جنرل آئزن ہاور‘ چند نمایاں مثالیں ہیں۔ ان کے نظریات سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو‘ مصطفیٰ کمال نے ترکی کو تاخت و تاراج ہونے سے محفوظ رکھا۔ ہٹلر کی وحشیانہ یلغار کے مقابل‘ جنرل ڈیگال نے جنگِ آزادی کی قیادت کی۔ پھر کمال حکمت اور تدبر کے ساتھ فرانس کو سیاسی استحکام بخشا۔ جتنے بڑے وہ جنگجو تھے‘ اس سے بڑے سیاسی مدبّر۔ جنرل آئزن ہاور امریکی تاریخ کا ایک روشن ستارہ ہیں۔
مشکل حالات میں‘ جب قوم کی کشتی متلاطم پانیوں میں ہو‘ مضبوط لیڈر کی خواہش فزوںتر ہو جاتی ہے۔ شریف برادران سے قوم نالاں ہے۔ ہر چیز ان کے لیے کاروبار ہے۔ سوا چار ڈالر کے حساب سے میسّر ایل این جی گیس‘ انہوں نے ساڑھے چھ ڈالر کے حساب سے خریدی اور پندرہ برس کے لیے معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ آنے والے برسوں میں گیس کی قیمت میں مزید کمی کا امکان ہے۔ پیپلز پارٹی مسترد کی جا چکی۔ عمران خان اس خلا کوپر نہ کر سکے‘ دراں حالیکہ لاکھوں مخلص کارکنوں کی تائید انہیں حاصل ہے۔
کیا جنرل راحیل شریف بالآخر ایک سیاسی رہنما بن کے ابھریں گے؟ بے یقینی کے بیاباں میں بھٹکتی قوم کے لیے اُمید اور امکان کا استعارہ؟ کوئی دن میں اس سوال کا جواب مل جائے گا کہ یہ محض ایک سپنا ہے یا ایک منصوبہ!
پس تحریر : کراچی میں امریکی قونصل جنرل سے فاروق ستار اور محترمہ نسرین جلیل کی ملاقات کے بعد‘ ان کی درخواست پر، انکل سام نے ایم کیو ایم کی حمایت میں ایک عدد بیان جاری کیا ہے۔ فاروق ستار کے وکیل‘ اس باب میں کیا ارشاد کرتے ہیں؟۔ نامعلوم وجوہ سے، مصطفی کمال کے خلاف پروپیگنڈے کی یلغار کرنے والے ‘نون لیگ کے دانشور!