قلم بیچارہ کیا کرے۔ دانائے راز کی یاد آئے تو دل قابو میں نہیں رہتا۔ غور و فکر کی ایک اور شب۔ ہاتھوں کے کوزے میں ندی نہیں سمٹتی۔ یار زندہ، صحبت باقی!
جس ہندوستان میں اقبالؔ نے جنم لیا، وہ کیسا تھا؟ جس خاندان میں وہ پیدا ہوئے، اس نے انہیں کیا زادِ راہ بخشا تھا؟ جس سماج میں انہوں نے زندگی کی، اس کا عالم کیا تھا؟... سب سے اہم اور آخری سوال یہ کہ جس مسلم برصغیر کو بلکتا ہوا وہ چھوڑ گئے، کیا وہی اور ویسا ہی تھا، جس میں انہوں نے آنکھ کھولی تھی؟
مولانا روم کا وہی قول: آدمی اپنی فکر اور خیالات ہی میں ہوتا ہے۔ باقی گوشت ہڈیاں ہیں۔ کچھ پہ راز کھل جاتا ہے، کچھ پہ نہیں کھلتا۔ پچاس پچپن برس سے سری نگر کے مقتل میں کھڑے سید علی گیلانی کی کتاب سامنے ہوتی تو اقتباس نقل کرتا۔ مفہوم بہرحال حافظے پر نقش ہے۔ حصولِ تعلیم کے لیے نہر کھودنے کی مزدوری کرنے والے بے نوا آدمی کا فرزند لاہور بھیجا گیا۔ میزبان بخیل اور تنگ ظرف نکلا۔ اجنبی لوگ اور بے دست و پا کمسن۔ لکھا ہے کہ گھر کی یاد ستاتی رہتی اور گریہ کیا کرتا۔ ایک دن اقبالؔ کے مزار کی طرف جا نکلا۔ یکایک وہاں قرار آ گیا۔ ہر شام پھر وہیں بیتنے لگی۔ سید صاحب کوئی بڑے سکالر نہیں‘ مگر سچے آدمی۔ مسلم برصغیر آدمی کو پہچانتا ہی نہیں۔ جان بھی لے تو خود بھی فخر نہیں کر سکتا۔ ان پر بھی نہیں، جو فرشتوں سے بڑھ کر ہوں۔ نیلسن منڈیلا کی عظمت میں کس کو کلام ہے‘ مگر علی گیلانی نیلسن منڈیلا سے برتر ہیں۔ ایمان کی دولت رکھتے ہیں۔ جو دیے اقبالؔ کی فکر سے روشن ہوئے، سید ان میں سے ایک ہے ؎
کوئی پھول بن گیا ہے، کوئی چاند کوئی تارہ
جو چراغ بجھ گئے ہیں تری انجمن میں جل کے
کتنے دیار فکرِ اقبالؔ سے روشن ہوئے۔ انقلاب کے ہنگام ایرانیوں سے پوچھا جاتا: بارہ سو برس میں، جب غزالیؒ نے احیاء العلوم کے لیے فارسی کا انتخاب کیا تھا، کیسا کیسا جادوگر عجم نے پیدا کیا ہے، پھر اقبالؔ ہی کیوں؟ جواب یہ ہوتا: حافظ ؔ و سعدیؔ ہمیں عزیز ہیں مگر اس طوفان میں کس کام کے؟
تین برس ہوتے ہیں، نوروز کے دن تھے۔ اس جمیل شہر تہران کی کوہستانی رفعت، بالکل اسلام آباد کی طرح۔ ویسے ہی پہاڑ، وہی سبزہ و گل کا جادو۔ بیس پچیس فٹ چوڑی ایک ندّی بلندیوں سے اترتی ہے، ''آبشار‘‘۔ یہی اس جگہ کا نام ہے۔ موسمِ بہار کی سرمست ہوا۔ عالمِ خیال میں مسافر وہاں جا کھڑا ہوتا ہے۔ مشرق کے لافانی شاعر کا کلام اس کے قلب پہ اترتا ہے ؎
عاقبت منزلِ ما وادیئِ خاموشان است
حالیا غلغلہ در گنبدِ افلاک انداز
آخرکار شہرِ خموشاں ہی آدمی کی منزل ہے۔ زندگی میں ایسا غلغلہ برپا ہو کہ آسمان کی خبر لائے۔
ایران کی جدید تعلیم یافتہ نسل میں بغاوت کی چنگاریاں بونے والے ڈاکٹر علی شریعتی کی زندہ رہنے والی کتاب ''فاطمہ، فاطمہ ہے‘‘ کو پڑھیے۔ ہزاروں دلوں پر ان اوراق نے دستک دی ہے۔ اقبالؔ کے ان اشعار کی تشریح کے سوا کچھ بھی نہیں ؎
مریم از یک نسبتِ عیسیٰ عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرہ عزیز
نورِ چشم رحمتہ اللعالمینؐ
آں امام اوّلین و آخریں
بانوی آں تاجدارِ ھل اتیٰ
مرتضیٰ، مشکل کشا، شیرِ خدا
مادرِ آں مرکز پرکارِ عشق
مادر آں کاروانِ سالارِ عشق
سیدہ مریمؑ ایک نسبت سے عزیز ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے۔ سیدہ فاطمہ الزہراؓ کی تین نسبتیں۔ پہلے اور آنے والے تمام ادوار کے امامؐ رحمتہ اللعالمینؐ کی نورِ چشم ۔ مرتضیٰ، مشکل کشا، شیرِ خدا سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی شریکِ زندگی۔ پرکارِ عشق، امام حسینؓ اور سالارِ عشق امام حسنؓ کی والدہ ماجدہ۔
''ما و اقبال ‘‘( میں اور اقبال) کے عنوان سے پوری ایک کتاب علی شریعتی نے لکھی ہے۔ تہران کی رگوں میں شعلے اگانے والے ان کے خطبات۔ اقبالؔ کی صدا پیہم سنائی دیتی ہے۔ ایسے اشعار کی۔ ؎
آہ کس کی جستجو رکھتی ہے آوارہ تجھے
راہ تُو، رہبر بھی تُو، منزل بھی تُو‘ ساحل بھی تُو
کشمیر تو ہے ہی اقبال ؔ کا دیار۔ اس کے زخموں کو بیان کرتی ہوئی، ان کی نظمیں ہر کشمیری نوجوان کو ازبر ہیں، اپنے وطن پہ جو نثار ہے۔ 1980ء سے 1994ء کے وسط تک افغانستان کے سب سے طاتور رہنما گلبدین حکمت یار نے بیان کیا: موقعہ ملتا تو بادشاہ کے اور قاتل کمیونسٹوں کے قیدی اقبالؔ کے اشعار ایک دوسرے کو تحفے میں بھیجا کرتے۔ ترکی میں، عالمِ عرب میں، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں پاکستان کی پہچان کسی بھی شخصیت سے بڑھ کر اقبالؔ سے ہے۔
ذہنی طور پر ہم اگر آزاد ہوتے۔ بھارت اور مغرب سے مرعوب ترقی پسندوں اور ماضی کے مجاور ملّائوں کی اگر نذر نہ ہوتے۔ اگر اعتدال اور علم کی وہ راہ ہم نے اختیار کی ہوتی، محمد علی جناح ؒ اور اقبال ؔ جس کے علمبردار تھے‘ تو دنیا بھر میں سرخرو کھڑے ہوتے۔ وسطی ایشیا، ایران اور افغانستان میں، فارسی کی سرزمینوں میں ہمارا عَلم افتخار سے لہراتا۔ میاں محمد شریف مرحوم نے اپنے فرزندوں کو اگر اقبالؔ پڑھا دیا ہوتا تو وہ نجم سیٹھیوں، عاصمہ جہانگیروں اور آئی اے رحمانوں کو آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے۔ پرویز رشیدوں کو مناصب عطا نہ کرتے، جس کا مقرر کردہ معلم پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن سے الحاد بیچتا ہے۔
برسبیلِ تذکرہ، محترمہ پیمرا ناچیز کے پیچھے پڑی ہیں۔ زحمت کی ضرورت کیا ہے؟ خود ان کے دفتر کے سامنے، خلقِ خدا کی موجودگی میں، اپنا گریبان یہ خاکسار چاک کرنے پر آمادہ ہے۔ ایسا بھی مگر کیا کہ جنہیں یقین کی ایک رمق بھی عطا نہیں، ان سے ڈر جائیں ؎
ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
ایف سی کالج کے انگریز پرنسپل نے پوچھا: اس بات پر کیا آپ یقین رکھتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر ایک ایک لفظ قرآن کا اترا تھا۔ فرمایا: پورا شعر مجھ پر اترتا ہے، مجھ عاصی پر۔
شب کبھی آنکھ کھل جاتی۔ تالی بجا کر خادم علی بخش کو طلب کرتے۔ کاغذ قلم منگواتے، اشعار درج کرتے اور سو جاتے۔ گورنر سلمان تاثیر کے والد‘ ایم ڈی تاثیر پہ مہربان تھے۔ ملنے آئے تو کلام عطا کرنے کی درخواست کی۔ بولے، جاوید نامہ لکھنے کے بعد میں نچڑ گیا ہوں‘ تم ہی کچھ کہو۔ کہا ؎
زلفِ آوارہ گریباں چاک، او مستِ شباب
تری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا میں
کھٹ سے ایک شعر کہا، پھر دوسرا اور تیسرا؛ حتیٰ کہ کبھی نہ بھولنے والی وہ غزل چند منٹ میں مکمل ہو گئی ؎
عشق کی اک جست نے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
انیسویں صدی کے آخر برسوں میں اقبالؔ نے آنکھ کھولی تو مسلم برصغیر دہری غلامی کا شکار تھا۔ ڈھے پڑا تھا۔ سرنگوں سسک رہا تھا۔ صنعتی انقلاب، سائنسی تعلیم، قومی زندگی میں نظم و ضبط اور قوم پرستی کے بل پر انگریز ہند کا پیرِ تسمہ پا ہو چکا تھا۔ خاندان مفلوک الحال۔ علم سے محبت کے سوا، جس کا کوئی توشہ نہ تھا۔ معاشی طور پہ مر مر کے جیے۔ با ایں ہمہ مشرق و مغرب کا گہرا مطالعہ کیا؛ حتیٰ کہ پوری انسانی تاریخ کے تناظر پہ قادر ہو گئے۔ مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا انور شاہ کاشمیری، مولانا حسین احمد مدنی اور عطاء اللہ شاہ بخاری کے ہندوستان میں وہ مسلمانوں کا ملجا و ماویٰ ہو گئے۔ ان موضوعات پر شاعری کی، جنہیں کوئی چھونے کی جرات نہ کر سکا تھا۔ اردو زبان کا مزاج ہی بدل ڈالا۔ نسوانی سا لہجہ مردانہ کر دیا۔ مخمصوں اور مغالطوں کے مارے ہندوستان کو تقسیم کا راستہ دکھایا۔ مسلمانوں کو پاکستان کا۔ احساسِ کمتری کا غلیظ کمبل نوچ کر پھینک دیا۔ مغرب کے باطن کی سب آلودگیاں آشکار کر ڈالیں۔ سطحی و سیاہ ملّا کی بھی۔
قلم بیچارہ کیا کرے۔ دانائے راز کی یاد آئے تو دل قابو میں نہیں رہتا۔ غور و فکر کی ایک اور شب۔ ہاتھوں کے کوزے میں ندی نہیں سمٹتی۔ یار زندہ، صحبت باقی!