کولسری سجدہ گزار تھے۔ شاعری نہیں یہ ان کی زندگی کا ذکر ہے۔ وہ ردیف‘ قافیے میں سچے تھے، وزن ہمیشہ برقرار۔ اسی میں حیات رفعت‘ جمال اور بالیدگی پاتی ہے۔ فلسفی نے کہا تھا: کیوڑے کا شجر خوشبو لٹاتا رہتا ہے اور کچھ کہے بغیر۔
اسلم کولسری کا قرض جان پہ ہے اور کسی طرح اتر نہیں سکتا۔ چار برس ہوتے ہیں‘ اس اخبار سے وابستہ ہوئے تھے۔ جیب میں سگریٹ کا ایک پیکٹ ڈالے خاموشی اور عاجزی کے ساتھ‘ ''دنیا‘‘ کے دفتر میں داخل ہوئے تھے‘ جیسا اجلا‘ خوبصورت اخباری دفتر کوئی دوسرا نہیں ہو گا۔ کولسری صاحب اس جمیل عمارت سے بھی بڑھ کر تھے۔ ویسے ایک عمارت اور ایک آدمی کا موازنہ کیا۔
چٹّے دن کی روشنی میں‘ ایک بندۂ خدا‘ ہتھیلی پر جلتا چراغ لیے جاتا تھا۔ پوچھا تو کہا: آدمی ڈھونڈتا پھرتا ہوں۔ نہیں ملتا‘ ادیبوں اور شاعروں میں تو خال خال۔ اکثر نرگسیت Narcissism کے مارے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی ایسے کچھ استثنیٰ ہیں کہ حیرت ہوتی ہے‘ وگرنہ اپنی اپنی ذات کے گرداب میں گم۔ آشوب ذات کے دھندلکوں میں اسیر‘ جنگلوں کے مسافر۔ اخبار نویسوں اور سیاست دانوں کا حال بھی یہی ہے۔ اپنے ہونے کا کسی کو یقین ہی نہیں۔ خود ترسی میں مبتلا‘ زندگی کی عدالت میں ہمیشہ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے۔
اقبالؔ نے کہا تھا: وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی۔ اس نامحکمی کی بنیاد‘ ایک شدید احساسِ کمتری ہوا کرتا ہے۔ وہ شورش جو موج تہہ نشیں میں ہوتی ہے۔ کشتیوں کے مسافر تو نہیں مگر مچھلیاں‘ جو بھگتا کرتی ہیں۔
اسلم کولسری آزاد تھے۔ کس طرح آزاد ہوئے۔ یہ سوال پوچھنا تھا۔ اب کس سے پوچھیں۔ خاندان سیر چشم ہو گا۔ عارف سے سوال کیا گیا کہ ان کے مزاج میں یہ حیرت انگیز تحمل کہاں سے آیا۔ ان کی اپنی کمائی ہے‘ چھ عشروں کی ریاضت۔ حوالہ مگر فقیر نے نعمتِ خالق کا دیا‘ بنا جس پہ تشکیل پائی۔ فرمایا: والدہ مرحومہ ایسی تھیں۔
آدمی کی شخصیت کا تانا بانا کیونکر بُنا جاتا ہے؟ جینیات‘ والدین‘ ماحول‘ محفلیں‘ اساتذہ۔ کبھی کبھی میں میاں محمد خالد حسین کے بارے میں سوچتا ہوں۔ ایثار اور تحمل کو انہوں نے طرز زندگی کر لیا... اور اس طرح کر لیا کہ شعار ہو گیا۔ عارف نے کہا تھا: شیطان کو اب آدمی سے کیا لینا دینا۔ آپ کا ایک قول مگر یہ بھی ہے: شیطان ایک کاشتکار ہے‘ جو نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے۔ جی ہاں‘ نم کا اہتمام آدمی کرتا ہے۔ کرتا چلا جاتا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے‘ غور و فکر سے محروم‘ ظلوماً جہولاً۔
ابتدا خود ترسی سے ہوتی ہے۔ اپنے آپ پہ رحم۔ یہ خیال کہ اسے محروم رکھا گیا۔ یہی ناشکری ہے‘ جو حیات کی دھرتی بنجر کر دیتی ہے۔ کتنی ہی آبپاشی کیجئے‘ کتنے ہی بیج بوئیے‘ جھاڑ جھنکار کے سوا کچھ نہیں اگتا۔ خود ستائی، احساس کمتری کی فصل ہے۔ روہی کے ٹیلوں‘ جھاڑیوں اور ان پر جاگتے‘ پیلو کے دانوں کو، نادرِ روزگار خواجہ غلام فرید کی محبت نے موتی بنا دیا۔ اپنے آپ سے محبت کی آرزو یہی کرتی ہے۔ خود فریبی میں اپنی ادنیٰ سی خوبی لعل و گہر لگتی ہے۔ دیکھو‘ ہمارے من کی خاردار جھاڑی پہ موتی چمکتے ہیں... فریبِ نفس!
اسلم کولسری آزاد تھے اور یکسر آزاد۔ نرگسیت چھو کر نہ گزری تھی۔ خود کو سنبھال اور سمیٹ لیا تھا۔ شیخ ہجویرؒ کے گرامی قدر استاد امام ختلی کا ایک جملہ آپ نے نقل کیا ہے: یہ دنیا ایک دن کی ہے اور ہم نے اس کا روزہ رکھ لیا۔ اسلم کولسری ایک روزہ دار تھے۔
دنیا سے انہیں کچھ نہ کہنا تھا۔ طلاق اسے دے دی تھی۔ ایک تمنا کا چراغ کبھی جلایا تھا۔ بجھ گیا تو اس دنیا کے سب چاند ستاروں اور سورجوں کو بھی تیاگ دیا۔ آرزو کا دیا بجھتا ہے تو پورا آدمی بجھ جاتا ہے۔ نامہربان زندگی کا دائمی شکوہ گر۔ شاعر ہو تو شکوہ‘ ردیف‘ قافیے اور بحر کے ساتھ ہوتا ہے۔ تحمل کا اعلان کرتا ہے مگر نہیں کرتا۔ خود کو تھام لینے کا قول و قرار مگر قول و قرار ہی۔ بسورتا رہتا ہے۔ ایک روتا ہوا بچہ۔ ہم تم‘ انہی بچوں سے اللہ کی بستیاں آباد ہیں۔ شکر گزار تھوڑے ہیں‘ وہی اولیا ہیں۔ اولیا کے کندھوں پہ پر نہیں ہوتے۔
کولسری صاحب نے ہاتھ اٹھایا تو اٹھا لیا۔ ظاہر ہے زندگی کے اسی بازار میں جیے‘ لیکن خریدار نہیں تھے۔ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے۔ چوں سیاہ چشم بہ سرمہ فروشاں گزرند۔ جس طرح سیاہ چشم سرمہ فروش کے پاس سے گزر جائے۔ دکان میں ہیرے موتی ہیں تو مجھے کیا۔ میرا مٹی کا دیا چھنا تو ساری دنیا میرے لیے مٹی ہو گی۔ ہمہ وقت‘ ہمہ سمت‘ تا بہ ثریا۔ اب اپنے لامحدود‘ لامتناہی اور حیرت انگیز حد تک لامتناہی اور بے کراں ہنگاموں میں حیات الجھتی رہے،آباد رہے۔ ہم نے الوداع کہا۔
بلا ضرورت، بات ہی نہ کرتے۔ بولنے کو جی چاہا تو کرسی سے اٹھے۔ نماز کا وقت ہو تو نماز کے لیے‘ ورنہ صحن میں چلے جاتے۔ سگریٹ سلگایا‘ اپنے آپ سے ہم کلام ہوئے اور لوٹ آئے۔ مبالغہ نہیں یہ حقیقتِ واقعہ ہے۔ کبھی کسی کی غیبت نہ کرتے۔ غیبت کیا‘ شکایت بھی نہیں۔ جب اپنے چراغ نے منہ پھیرا تو انہوں نے صبر کا فیصلہ کیا۔ جس پر حق تھا‘ اسی سے شکایت نہ کی تو دوسروں سے کیا گلہ۔ ساری دنیا کو معاف کر دیا۔
میرے وہ ماتحت نہ تھے۔ اتفاق سے ان کے شعبے کا کبھی میں نگران تھا۔ ازراہ کرم ساتھی اب بھی لحاظ کرتے ہیں۔ کولسری صاحب کا معاملہ کچھ سوا تھا۔ لحاظ ہی نہیں‘ وہ مہربانی فرماتے رہے۔ پروف ریڈنگ کے باب میں یہ ناچیز بہت حسّاس ہے۔ 1970ء میں گرامی قدر عالی رضوی مرحوم سے دو سبق لیے تھے۔ ایک یہ کہ تحریر کی زبان ایک ہوتی ہے‘ بول چال کی دوسری۔ آمیز نہ کرنی چاہئیں۔ ثانیاً کامے اور فل سٹاپ سے بھی فرق پڑتا ہے۔ اخبار افراتفری میں مرتب ہوتا ہے۔ کوثر و تسنیم میں دھلی زبان کا کیا سوال مگر گنوار پن بھی کیا ضروری ہے‘ ہر ممکن احتیاط کیوں نہ ہو۔
فرمائش ہے کہ کالموں کا انتخاب چھاپ دو۔ بحیرہ عرب کے کنارے‘ ایک سنہری دن تھا۔ عصرِ رواں کے سب سے بڑے نثر نگار مشتاق احمد یوسفی نے سمجھانے کی کوشش کی: چھاپ دو اور من و عن۔ فرمایا: یہ جلدی میں لکھا گیا ادب ہے‘ Ghost Writing... (اور ظاہر ہے کہ سطحی سے موضوعات پر) اس احترام کے ساتھ‘ جو واجب تھا اور واقعی تھا‘ ان کا فرمان سنا۔ فیصلہ یہی کیا کہ ضروری اصلاح لازماً کی جائے۔ مفہوم کو متاثر کیے بغیر۔
چار برس میں آدھے کالم ہیں‘ جن میں کولسری صاحب کا حصہ ہے۔ دو طرح سے۔ ایک تو وہ اس اہتمام سے پڑھ کر سناتے اور میں نسبتاً بہتر الفاظ سے کمتر کو بدلنے کی کوشش کرتا۔ الفاظ کی ترتیب بھی۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ مصرعے کی طرح جملے کو بھی آہنگ چاہیے۔ شاعری نہیں‘ نثر کا آہنگ۔ مولانا محمد حسین آزاد‘ پروفیسر رشید احمد صدیقی‘ مختار مسعود اور ان سب سے بڑھ کر مشتاق احمد یوسفی کی مانند۔ مولانا ابوالکلام کی تقلید سے البتہ بچ کر‘ مفہوم خبط ہو جاتا ہے۔ میرؔ‘ غالبؔ‘ اقبالؔ اور فیضؔ کے اشعار کیوں آسانی سے یاد رہتے ہیں؟ دوسرا کرم کولسری صاحب یہ کرتے کہ بعض متبادل الفاظ خود تجویز کرتے۔
1974ء میں بھٹو کے ساتھ بنگلہ دیش کے دورے سے لوٹ کر آئے تو ''نصرت‘‘ کے لیے فیض صاحب نے ایک غزل عنایت کی ''ہم کہ ٹھہرے اجنبی...‘‘ دفتر پہنچا تو دو تین بار ان کا فون آ چکا تھا۔ ارشاد ہوا: دوسری بار کے ''بے درد‘‘ کو ''بے مہر‘‘ سے بدل دو۔ گزارش کی‘ جچتا تو یہ بھی ہے۔ کہا: مگر تکرار ہے۔ غور کرنا پڑا کہ وہ فیضؔ تھے۔ جی ہاں‘ لفظ کی تکرار کیوں ہو۔ دوسرے عوامل بھی، نثر کا جمال مانگتا ہے۔ تنوع‘ تشبیہ اور استعارہ۔ مطالعے کی وسعت کے بغیر یہ ممکن ہے اور نہ مشاہدے کو شعار کیے بنا۔ دو نکات اور بھی ہیں۔ لکھنے اور بولنے والے کو حق نہیں کہ پڑھنے اور سننے والے کو بور کرے۔ معیار، تشبیہ اور استعارے‘ مثال اور محاورے سے متعین ہوتا ہے۔ خیال کی رفعت و بالیدگی اور حسن و صداقت تو ہرحال میں لازم ہے۔
مقبولیت کے لیے لکھنے والا کمتر رہے گا۔ کیسا کیسا لکھاری ہے کہ دائمی عظمت سے ایک قدم پیچھے رہ گیا‘ آسانی سے جو وہ اٹھا سکتا۔ یہ آسانی بھی مگر توفیق سے ہے۔ داد کا بھوکا طالب اور غرض کا بندہ‘ یہ قدم نہیں اٹھا سکتا۔ یہ سجدہ اس کے لیے پہاڑ ہو جاتا ہے۔ شاعری پہ کیا عرض کروں۔ گزارش کی تھی کہ اظہارالحق کریں کہ عظیم شاعر ہی نہیں‘ استاد بھی ہیں۔
کولسری سجدہ گزار تھے۔ شاعری نہیں یہ ان کی زندگی کا ذکر ہے۔ وہ ردیف‘ قافیے میں سچیّ تھے، وزن ہمیشہ برقرار۔ اسی میں حیات رفعت‘ جمال اور بالیدگی پاتی ہے۔ فلسفی نے کہا تھا: کیوڑے کا شجر خوشبو لٹاتا رہتا ہے اور کچھ کہے بغیر۔