"HRC" (space) message & send to 7575

باقی تفصیلات ہیں

افراد کی طرح اقوام کی بھی ایک متعیّن تقدیر ہوتی ہے۔ اسے سمجھنا ہوتا ہے‘ پھر اسی کے مطابق منصوبہ بندی۔ باقی تفصیلات ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے باب میں خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ فوج کے نئے سربراہ نے امید ظاہر کی ہے کہ پاک بھارت سرحد پر امن بحال ہو جائے گا۔ ممکن ہے‘ ان کے ذہن میں تدابیر کا کوئی سلسلہ ہو۔ بظاہر یہ مشکل نظر آتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں بھارت کی پالیسی یہ ہے کہ مستقل طور پر اسے دبائو میں رکھا جائے۔ بے یقینی میں مبتلا رکھا جائے‘ بلوچستان‘ کراچی اور قبائلی پٹی میں بالخصوص دہشت گردی کو ہوا دی جائے۔ تجارتی راہداری کو گراں سے گراں تر بنانے کی کوشش کی جائے۔ عدم استحکام کا شکار کر کے‘ اس کی معیشت کو زک پہنچا کر‘ حتی الامکان اسے مفلس و محتاج رکھا جائے‘ تاآنکہ وہ سکّم‘ بھوٹان یا بنگلہ دیش ہو جائے۔ 
کچھ عرصہ قبل سری لنکا کی ایک اہم شخصیت نے خاموشی سے پاکستان کا دورہ کیا۔ ان کا ملک کامرہ میں تیارکردہ ڈرون طیاروں کی خریداری کا آرزومند تھا۔ یہ سودا نہ ہو سکا۔ اس کی بنیادی وجہ بھارت کا دبائو تھا۔ دونوں ملکوں کی خواہش کے باوجود‘ سری لنکا اور چین کے عسکری اور تجارتی تعلقات بھی محدود ہیں۔ سبب اس کا بھی یہی ہے۔
بعض طاقتور افراد‘ جس طرح دوسروں کے لیے عذاب بن جاتے ہیں‘ اسی طرح بعض اقوام بھی۔ اگر وہ عالی ظرف اور ہوش مند نہ ہوں۔ یہ غلبے کی جبلّت اور گھمنڈ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک ہزار برس کے بعد آزادی حاصل کرنے اور معاشی فتوحات حاصل کرنے والا برہمن تو کیا‘ انکل سام بھی اس روش کا شکار ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندرمودی ایک ہی ذہنیت کے لیڈر ہیں۔ اپنے معاشروں کو برباد کرنے والے ۔افغانستان میں ہزار بلین ڈالر اور اپنا قومی افتخارواشنگٹن نے کھو دیئے ۔ کان کنی کے اکثر ٹھیکے کہ معدنیات افغانوں کی سب سے بڑی دولت ہیں‘ دوسری اقوام نے حاصل کر لئے ہیں۔ امریکیوں کا سب سے بڑا حریف عوامی جمہوریہ چین ان میں نمایاں ہے۔ حاصل کیا ہوا؟
بھارت امریکہ کا تزویراتی حلیف ہے۔ وجوہات اس کی آشکار ہیں۔ قوموں کے مراسم باہمی مفادات اور ترجیحات پہ استوار ہوتے ہیں۔ اختتام تاریخ "END OF HISTORY" کا فلسفہ پیش کرنے والے یوکوفاما کا نظریہ سامنے آیا تو برسوں ایک بحث جاری رہی۔ اس میں واضح ہو گیا تھا کہ کنفیوشس کی سرزمین اور عالم اسلام کو امریکی مستقبل کا چیلنج سمجھتے ہیں۔
تجارتی راہداری منصوبے کا نام و نشان تک نہ تھا‘ جب عرض کیا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ پاک امریکہ مراسم محدود ہوتے جائیں گے۔ ریاست ہائے متحدہ آج بھی پاکستانی مصنوعات کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ سامان حرب میں بھی زیادہ تر اسی پہ ہم انحصار کرتے ہیں۔ اس کا مگر کیا علاج کہ افغانستان اور بھارت سمیت‘ بہت سے دوسرے عوامل کی وجہ سے‘ دونوں ملکوں میں مغائرت پیدا ہوئی اور بڑھتی جا رہی ہے۔ وسطی ایشیا‘ مشرق وسطیٰ اور جنوب مغربی ایشیا کے سنگم پر واقع‘ پاکستان کی ایسی تزویراتی اہمیت نہ ہوتی تو کب کے وہ اسے تیاگ چکے ہوتے۔ پاکستان کو یکسر نظرانداز کر کے‘ افغانستان کا مستقبل طے نہیں کیا جا سکتا۔ وسطی ایشیا کا یہ واحد قابل عمل راستہ ہے اور اب چین کا بھی۔ اس کے جنوبی سمندروں پر پیدا ہونے والا تنازعہ‘ مستقبل قریب میںطے ہونے کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ کشیدگی میں بلکہ اضافے کا اندیشہ ہے۔ چین اپنے مغربی علاقوں کی ترقی کا خواب دیکھ رہا ہے۔ تجارتی راہداری کے ذریعے‘ افریقہ اور ایشیا ہی نہیں‘ یورپی ممالک کے ساتھ تجارت کا فروغ بھی‘ اس کا ہدف ہے۔ پاکستان اور چین میں مراسم کے فروغ کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے‘ اس میں وسعت آتی جائے گی۔ اب یہ دونوں ملکوں کی تقدیر ہے۔ جوں جوں یہ ہوتا جائے گا‘ پاکستان کے ساتھ بھارت اور امریکہ کے بغض میں اضافہ ہو گا۔ پاکستانی حکومت‘ پاک فوج اور قوم کو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ گوادر کی بندرگاہ آباد ہونے کے بعد... اور انشاء اللہ یہ دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہ ہو گی...سازشیں بڑھتی چلی جائیں گی۔ کس طرح انہیں محدود کیا جا سکتا ہے اور کب تک اس بحران سے ہمیں نمٹنا ہو گا۔ اس پر غور کرنا ہو گا۔ ملک کو ایک سے زیادہ تھنک ٹینک درکار ہیں‘ جو اس طرح کے سنگین سوالات کا جواب تلاش کریں۔ نعرے بازی اور جوش و جذبے سے نہیں‘ قوموں کے مستقبل منصوبہ بندی سے سنورتے ہیں۔
کشمیر میں جاری آزادی کی جدوجہدتھمنے والی نہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان بِس کی گانٹھ ‘ سری نگر ہے۔ بنگلہ دیش کا وجود‘ دراصل اسی کا شاخسانہ ہے۔ ہاں ایک بڑا سبب عسکری قیادت کی طرف سے من مانی کا رویّہ تھا۔ شیخ مجیب الرحمن اور بھٹو کی ہوس اقتدار اور آغا محمد یحییٰ خان کا پاگل پن۔ اللہ کا شکر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ‘ خاص طور پہ‘ جنرل پرویز مشرف کے آخری عہد کی خرابی سے سبق سیکھا گیا۔ قدرے مثبت اندازِ فکر نے جنم لیا ہے۔ سول ملٹری کشمکش لیکن اب بھی کارفرما ہے۔ بے چینی پیدا کرنے والا سب سے بڑا عنصر یہی ہے۔ جنرلوں کا خیال یہ ہے کہ قومی دفاع ان کی ذمہ داری ہے اور سیاستدان اس باب میں غیر ذمہ داری کے مرتکب ہیں‘ ہیںبھی۔ نون لیگ ہی نہیں‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت بھی‘ بھارتی عزائم کا ادراک کرنے میں ناکام رہی۔ میاں محمد نواز شریف کا انداز فکر تو یکسر غلط ہے مگر دوسروں نے بھی‘ اس میدان میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ کب انہوں نے اس باب میں قوم کی رہنمائی کی ہے؟کشمیر کے موضوع پر ڈھنگ کا ایک سیمینار تک کبھی کوئی پارٹی نہ کر سکی۔ رہے نواز شریف تو وہ ہر اس اخبار نویس اور میڈیا گروپ پہ مہربان ہیں‘ جو بھارت کے سامنے سپر انداز ہونے کے حق میں ہو۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فوجی قیادت کو بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ متعیّن حدود سے وہ تجاوز نہ کرے گی۔ بتدریج سول اداروں کو مضبوط بنانے میں اعانت کرے گی۔
سول ملٹری تعلقات میں بہتری کے بل ہی پر ایک جامع قومی حکمت عملی کی تشکیل ممکن ہے۔ دونوں کو اس سلسلے میں لچک اور دانش کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اپنے نہیں‘ قوم کے مفادات اور مستقبل کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ بعض سرکاری اخبار نویس کہتے ہیں کہ آزاد اخبار نویس جنرلوں اور سیاستدانوں کو اکساتے ہیں۔ ایسی بچگانہ بات ‘ جس پر تبصرے کی ضرورت ہی نہیں۔ زلزلے‘ سیلاب‘ دہشت گردی اور ملک دشمن تحریکوں سے نمٹنے کی تمام ذمہ داری جب فوج پہ ڈال دی جائے گی۔ امریکہ اور برطانیہ کی خوشنودی کے لیے سول قیادت جب سطحی اور ناقابل عمل پالیسیاں اپنائے گی‘ سول ادارے ہر گزرتے دن کے ساتھ جب مفلس ہوتے جائیں گے۔ سندھ سیکرٹریٹ اور سی ڈی اے ایسے ادارے جب نوسربازوں کی آماجگاہ بن جائیں گے تو ظاہر ہے کہ فوج کا رسوخ بڑھے گا۔ حکومت کے سخت گیر مخالفین اور اخبار نویسوں کا بھی۔پھر یہ کہ میاں محمد نوازشریف فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی تخلیق ہیں۔ اپنی تخلیق سے کوئی خالق مرعوب کیسے ہو سکتا ہے؟
باخبر لوگوں کو معلوم ہے کہ میاں محمد نوازشریف سے تو ان کے سگے بھائی شاد نہیں‘ جن کے اقتدار کا تمام تر انہی پر انحصار ہے۔ان کی پالیسیوں سے وہ متفق نہیں‘ دوسرے کیا ہوں گے۔ دونوں ایک دوسرے کی مجبوری ہیں‘ وگرنہ راستے کب کے الگ ہو چکے ہوتے۔
بھارت سے تجارت کو محدود کرنا ہوگا کہ پاکستانی مصنوعات خریدنے پر وہ آمادہ نہیں۔ دو بلین ڈالر سے کم کرکے اس کا حجم زیادہ سے زیادہ ایک بلین کرنا ہوگا۔ کشمیریوں کو پیغام ملے گا کہ پاکستان کو ان کی پروا ہے۔ وزیرخارجہ کا تقرر کرنا ہوگا۔ دنیا بھر میں بھرپور سفارتی مہم چلانا ہوگی۔ جتنا زیادہ مقدمہ ہمارامضبوط ہے‘ اتنے ہی ہم کمزور وکیل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں وحشت‘ درندگی کی داستان اور تصاویر کو دنیا کے ہر گھر تک پہچانا چاہیے۔ حکومت ہی نہیں‘ پوری قوم کی بھی ذمہ داری ہے۔ یورپی ملکوں کی شہریت رکھنے والے کشمیریوں اور پاکستانیوں کو سری نگر اور اس کے نواح میں شب و روز قتل و مجروح ہونے والوں کی امداد کرنا ہوگی۔
افراد کی طرح اقوام کی بھی ایک متعیّن تقدیر ہوتی ہے۔ اسے سمجھنا ہوتا ہے‘ پھر اسی کے مطابق منصوبہ بندی۔ باقی تفصیلات ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں