ہاں! تاریخ اپنے سینے میں کوئی راز چھپا رکھتی ہے اور نہ کسی کِذب کو قبول کرتی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ، تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے۔
پیروڈی لکھنے والے بعض کالم نگاروں پر پھبتی کستے ہیں۔ اس ناچیز پر جنرل کیانی کے حوالے سے۔ تین دوستوں نے تازہ ترین شاہکار مجھے بھیجا۔ خدا لگتی یہ ہے کہ اچھا ہے۔ اور بھی بہتر ہو سکتا ہے‘ مشق اگر جاری رکھی جائے۔ کل سبکدوش بریگیڈیئر محمد یوسف اور جنرل مصطفی کے ساتھ ملاقات رہی۔ دوسری چیزوں کے علاوہ‘ جنرل قمر باجوہ کی شخصیت کو سمجھنے کی کوششیں کی گئی۔ سب سینئر فوجی افسر ایک دوسرے سے آشنا ہوتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ کم از کم نوّے فیصد۔ جنرل مصطفی سے پوچھا: کیا آپ کے خیال میں‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی کبھی زبان کھولیں گے؟ ان کا واضح اور دو ٹوک جواب یہ تھا: کبھی نہیں۔ میری رائے مختلف ہے۔ جس پیالے کو چھلکنا ہو‘ آخر ایک دن چھلک اٹھتا ہے۔ دل پہ اگر چوٹ لگی اور لگ سکتی ہے‘ تو وہ بات کریں گے۔ پھر‘ جیسا کہ ان کا مزاج ہے‘ صاف اور واضح۔ بعض لوگوں پہ وہ دن بھاری ہو گا۔
کسی کا صبر نہ آزمانا چاہیے۔ میمو گیٹ پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سپہ سالار کے صبر کو آواز دی۔ جنرل نے اپنا موقف سپریم کورٹ میں پیش کیا تو وزیر اعظم نے ارشاد کیا: آئین اور قانون کی یہ خلاف ورزی ہے۔ عام اندازوں کے برعکس کہ شاید موقعہ پا کر‘ محتاط انداز میں‘ تردید کریں گے‘ ہاتھ سے لکھا بیان جنرل نے جاری کیا: نتائج سنگین ہوں گے۔ گیلانی نے فوراً ہی تردید کر دی‘ سیاستدانوں کے روایتی انداز میں ''میری مراد یہ ہرگز نہ تھی‘‘۔ شائستہ آدمی نے اس پر اپنے دوستوں سے کہا کہ کیا ان کا اقدام درست نہ تھا؟ اس آدمی کی ساری زندگی دکھ گھول کر پیتے گزری۔ اللہ نے اسے صبر کا انعام بھی بہت دیا۔ کپتان کیانی کے والد جوانی میں انتقال کر گئے تھے۔ والدہ محترمہ‘ بہنیں اور تین بھائی اب ان کی ذمہ داری تھے۔
ایسا بوجھ آدمی پر جوانی میں آ پڑے تو دو میں سے ایک نتیجہ نکل کر رہتا ہے۔ بندہ بکھر جائے یا بہت مرتب ہو جائے۔ نوجوان کیانی منظم ہو گیا اور ایسا کہ باید و شاید۔ آفتاب شیرپائو سے امریکی سفارت کار نے پوچھا: جنرل کیانی کی ترجیحات کیا ہیں۔ وہ خاموش رہے۔ دوسری بار سوال کیا تو بولے: آپ ان سے ملے ہیں‘ آپ کو اندازہ ہونا چاہیے۔ اس نے کہا: کوئی اہم سوال پوچھا جائے تو پیکٹ سے وہ سگریٹ نکالتے ہیں۔ پیکٹ پر اسے ٹھونکتے ہیں‘ سلگا کر کش لگاتے اور پھر جواب دیتے ہیں۔ ایسے آدمی کے عزائم کا اندازہ کون کر سکتا ہے۔ ایک جنرل کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ خاص طور پر دشمنوں کے درمیان۔ تاریخ ساز‘ سلطان محمد فاتح نے کہا تھا: میری داڑھی کے بالوں کو بھی اگر پتہ چل جائے‘ میں کیا چاہتا ہوں‘ تو میں قصوروار ہوں۔
قارئین کو شکوہ ہے کہ بعض باتیں میں دہراتا ہوں۔ جی ہاں‘ دہرانی پڑتی ہیں۔ یہ ایک بحث کرنے والا معاشرہ ہے اور بے لچک۔ ہم کہاں کے دانا ہیں کس ہنر میں یکتا ہیں۔ جو تھے اور جن سے اکتسابِ فیض کیا جاتا ہے ‘ گاہے وہ بھی دہرایا کرتے۔
جنرل کیانی نے فوج کی کمان سنبھالی تو اس کی حالت غیر تھی۔ خراب نہیں کہ ایک جما جڑا ادارہ ہے بلکہ غیر۔ جنرل پرویز مشرف کا اقتدار طویل ہو گیا تھا۔ وکلا کی تحریک نے ان کی ساکھ تباہ کرکے رکھ دی تھی‘ جس طرح کہ پاناما لیکس نے شریف خاندان کی۔ جب کوئی شخص یا گروہ اپنی قوت دریافت کر لے تو بعض اوقات بے مہار ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد میں وکلا کے کنونشن میں فوج کے خلاف ایسے نعرے لگے کہ چھاپے نہیں جا سکتے۔ فوجی افسر وردی پہن کر بازار نہ جا سکتے تھے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اس فوج کا وقار بحال کرنا تھا۔ کیا انہوں نے کر نہ دکھایا؟ پاک فوج کا نیا راستہ‘ از سر نو اس کا مزاج متعین کرنے میں جنرل کیانی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ جنرل راحیل شریف کے عہد میں اسی راستے پر وہ چلی۔ اندازہ ہے کہ جنرل باجوہ کے عہد میں بھی‘ اسی پر چلتی چلی جائے گی؛ تاآنکہ ایک اور مفکر اسے نصیب ہو۔
جنرل راحیل شریف کو پذیرائی بہت ملی۔ اتنی کہ دوسرے تو کیا خود ان کے سان گمان میں بھی نہ تھا۔ آخری فیصلہ تاریخ ہی صادر کرے گی۔ جب اس عہد کے تعصبات تمام ہو جائیں گے۔ فی الوقت پاکستان کی عسکری تاریخ کے شاید وہ سب سے بڑے ہیرو ہیں۔
ایک سوال اس طالب علم کو پریشان کرتا ہے۔ تاریخ میں جنرل کیانی کا ذکر کس طرح ہو گا؟ یہ اس آدمی کے ذہن میں ابھرنے والا سوال ہے‘ جو انہیں‘ بہت سے دوسروں سے زیادہ جانتا ہے۔ جس نے بارہا‘ ان کی میزبانی کا لطف اٹھایا اور بہت کچھ ان سے سیکھا۔ اخبار نویس کی خوش بختی تھی کہ بارہا اسے ان سے چار چار‘ پانچ پانچ گھنٹے کی طویل گفتگوئوں کا موقع ملا۔ جم کر بات کرنے کا۔ محتاط وہ بہت رہتے‘ مگر یہ ناچیز ان چند لوگوں میں سے ایک تھا‘ جن سے نسبتاً زیادہ کھل کر وہ بات کرتے۔ ایک بار یہ کہا: ہر وہ بات آپ کو بتا دی ہے، جو بتائی جا سکتی تھی۔ اب یہ آپ پر ہے کہ کیا لکھیں گے‘ کب اور کس طرح؟ افراد پہ شاید ہی وہ کبھی بات کرتے؛ اگرچہ کبھی قطعی اور دو ٹوک رائے بھی۔ ایک صاحب کے بارے میں کہا: خود کو شاید وہ پیغمبر ہی سمجھتا ہے۔
ان سے ذاتی تعلق کی بنا پر، ممکن ہے، بعض لوگ میری رائے قبول نہ کریں۔ مجھے اللہ کو جان دینی اور اپنی قبر میں سونا ہے۔ پوری دیانتداری کے ساتھ، انشاء اللہ میں وہی عرض کروں گا جو میرے ضمیر کی گواہی ہے۔ تجزیہ غلط ہو سکتا ہے۔ دانش و بینش شاید بہت کم ہو۔ الحمدللہ نیت میں کوئی خرابی نہیں۔ کوئی مفاد وابستہ نہ تھا۔ وہ چیف آف آرمی سٹاف تھے‘ جب دو تین بار ان پہ نکتہ چینی کی اور ہمیشہ کی طرح لفظ چبائے بغیر۔ حساس آدمی‘ ناراض ہوئے مگر بلایا، چائے پلائی اور دلائل کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا۔ ہر بار ان کا موقف مجھے ماننا پڑا۔ ''جو ہلاک ہوا، وہ دلیل سے ہلاک ہوا، جو جیا وہ دلیل سے جیا‘‘۔
ایک نکتہ ہے اور ایک سوال ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ ایک آدمی کے اثبات کی بنیاد، دوسرے کی نفی پر کیوں رکھی جائے؟ جنرل راحیل شریف نے اگر کوئی کارنامہ انجام دیا اور یقینا انجام دیا تو اس کا مطلب یہ کیسے ہوا کہ جنرل کیانی نے ملک کی کوئی خدمت نہیںکی۔
ایک استاد کی طرح، ایک مشفق و مہربان باپ کی طرح، اپنے ساتھیوں کو انہوں نے سمجھا دیا کہ مارشل لا سے مسائل حل کم ہوتے اور جنم زیادہ لیے ہیں۔ اخباری کالم مقالہ نہیں ہوتا‘ وگرنہ بہت سے موضوعات سمیٹنے کی کوشش کرتا، بہت سے واقعات لکھتا۔ فارسی کا محاورہ یہ ہے: ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت... ہر لیڈر چاہتا ہے کہ اس کے پیشرو کا ذکر کم ہو۔ فوج بھی کوئی استثنیٰ نہیں۔ انسانی فطرت یہی ہے۔
جنرل کیانی کے ساتھ یہی ہوا۔ ہیروکی بات مان کر ان سے ناانصافی کی گئی اور مسلسل۔ شریف آدمی‘ کتنا ہی طاقت ور ہو‘ زخم سہتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا نوّے فیصد قبائلی پٹی کو جنرل کیانی نے آزاد نہ کرایا تھا؟ جی ہاں! شمالی وزیرستان کی کارروائی ایک عظیم کارنامہ ہے۔ کراچی اور بلوچستان پر کیے گئے فیصلے اور بھارت کو بے نقاب کرنے کے اقدامات۔ سوال یہ کہ اگر وہ ایسا نہ کر چکے ہوتے تو کیا یہ ممکن ہوتا؟ بلوچستان کے بیس ہزار مکینوں کو جنرل کیانی نے پاک فوج کا حصہ بنایا۔ چند برس میں آبادی کے تناسب سے پورا حصّہ۔ کیا یہ ایک خلاّق ذہن اور سچی حب الوطنی کا اظہار نہ تھا؟
سبکدوشی کے بعد امریکہ کے چین کے ساتھ مراسم استوار کرکے، سوویت یونین کو محدود کر دینے والے صدر نکسن سے پوچھا گیا: تاریخ میں آپ کا ذکر کس طرح ہو گا۔ کہا: واٹر گیٹ کو نظرانداز کیا جا سکا تو امید ہے کہ روشن الفاظ میں۔ جنرل کیانی کی زندگی میں کوئی واٹر گیٹ نہ تھا۔ بے شرمی کی بات دوسری ہے، جس چیز پر وہ تنقید کا ہدف بنائے جاتے ہیں، قصور اس میں اگر ہے تو دوسروں کا۔ ناقد بھی مانتے ہیں کہ ان کا ہرگز نہیں۔ تاریخ میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ذکر بھی انشاء اللہ روشن الفاظ میں ہو گا۔ ہاں! مورخ مداحوں کے زیر اثر نہیں ہوتے، مگر نقادوں کے بھی نہیں۔
ہاں! تاریخ اپنے سینے میں کوئی راز چھپا رکھتی ہے اور نہ کسی کِذب کو قبول کرتی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ، تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے۔