دیکھا یہ گیا ہے کہ خطیبوں کی اکثریت اپنی شکست کی آواز ہوتی ہے۔ اپنے ولولوں کے گریہ کناں فریادی۔
حضرت مولانا فضل الرحمٰن کو کیا سوجھی کہ آبائواجداد کے موازنے پر اتر آئے۔ مقابلہ ان کا عمران خان کے ساتھ ہے یا ان کے رفتگاں کے ساتھ، جو اللہ کے پاس جا چکے۔ مولانا کے آبائواجداد بھی۔ مدح سرائی سے ان کے مراتب میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ ان کی خوبیاں یا خامیاں تاریخ کے اوراق سے محو نہیں ہو سکتیں۔
آدمی کو اپنے اجداد سے محبت ہوتی ہے۔ قرآن اس کا حوالہ دیتا ہے۔ وہ مگر اگلے زمانوں کی مشعل اور چراغ نہیں ہوتے بلکہ پیغمبرانِ عظامؑ اور اولیائِ کرامؒ۔ زندگی کے ادبار اور طوفانوں میں ثابت قدم اور سرو قد کھڑے رہنے والے۔ اپنی ذات کی نفی اور اپنے تعصبات سے اوپر اٹھنے والے۔ اپنے اجداد کی پناہ حاصل کرنا، ان کے سائے میں جینا، ان کے نام پر تحفظ و تعلق میں آبرو اور عزت کی تمنا پالنا تو ایک طرح کی خود فریبی ہے اور خود ترسی۔ آدمی اپنے اعمال سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ شاخ اور ثمر نہیں ہوتا کہ بیج اور جڑ سے شناخت کیا جائے بلکہ اپنے اعمال، افکار اور طرزِِ احساس کا پیکر۔ زمانہ اس کے کارناموں اور کرتوتوں پہ حکم لگاتا ہے، اس کی نسل اور شجرۂ نسب پر نہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کے اجداد نے عظیم کارنامے انجام دئیے ہوں گے مگر اس سے خود ان کا نامۂ اعمال کیسے چمک سکتا ہے؟ حریت و علم کے ایسے نمونے وہ بہرحال نہ تھے کہ ملک و ملت ان سے اکتسابِ فیض کریں۔ صحافت کے آغاز میں اس ناچیز نے دیکھا ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی مستقل ان کا ہدف رہا کرتے۔ جرم ان کا یہ تھا کہ دیوبند کی سیاسی ترجیحات سے انہوں نے بغاوت کر دی تھی۔ آل انڈیا کانگرس کی ہمنوائی سے۔ کبھی انہیں گستاخِ رسول کہا جاتا اور کبھی گستاخِ صحابہ۔ کبھی ان کے خاندان؛ حتیٰ کہ خواتین تک کو ادنیٰ او راحقر قرار دیا جاتا۔ کیا اس طرح کبھی کوئی افضل و احسن ہوا ہے؟
جیسا کہ معمول تھا، صحن میں اپنی سہ پہر بتانے کے بعد سید صاحب مکان کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ کسی نے سہارا دینے کی کوشش کی تو بے ساختہ اس کا ہاتھ ہٹا دیا۔ ایک دشنام کرنے والے کا ذکر ہوا تو پلٹ کر یہ کہا: میں صبر کرتا ہوں لیکن جو کچھ میرے اعصاب پر گزرتی ہے، وہ میں جانتا ہوں یا اللہ جانتا ہے۔ درویش وہ نہیں تھے کہ صبر جمیل کی ان رفعتوں کو جا پہنچتے، اس طرح کی آوازیں جہاں سنائی نہیں دیتیں؛ باایں ہمہ ایک نجیب آدمی۔ اپنی آمدن کا قابل ذکر حصہ خاموشی اور رازداری سے وہ خیرات کر دیا کرتے۔ برسوں بعد ان کی قبر پہ جانا ہوا تو موٹر سائیکل پر سوار ادھیڑ عمر، ایک طرح دار آدمی نمودار ہوا۔ صحت مند، چاق چوبند۔ ایسا ایک شخص، مستعدی سے حرکت کرتے، جس کے پیکر میں نمو کا احساس ہوتا ہے۔ احساس دلاتا ہے کہ زندگی تگ و تاز میں جلوہ گر ہوتی ہے، محض فکر و خیال میں نہیں۔ بے نیاز سا، خوش باش سا وجود، جس کی آنکھوں میں لگتا تھا کہ امید کی جوت جاگتی رہتی ہے۔
یکایک پھوٹ پھوٹ کر وہ رو دیا۔ مٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اس کا ملجا و ماوا، استاد اور رہنما جسے اوڑھ کر ابدی نیند سو رہا تھا۔ وہ بولا: اسے لوگ نہیں جانتے۔ پھر اس نے کہا: ہر ماہ کچھ مفلسوں، محتاجوں اور درد کے ماروں کے لیے کچھ روپے وہ دیا کرتے۔ ان کا حکم یہ تھا کہ کسی کو کبھی نہ بتایا جائے۔
سید صاحب لباس اجلا پہنتے اور کوثر و تسنیم میں دھلی زبان لکھتے۔ اظہار میں مہذب اور مرتب۔ کثرت سے مطالعہ کرتے اور بے تکان لکھا کرتے۔ بابائے اردو، مولوی عبدالحق نے کہا تھا: اردو زبان کو انہوں نے شائستگی عطا کی۔ کبھی کوئی ان کا دروازہ کھول کر ان کے کمرے میں چلا جاتا تو ہمیشہ انہیں کتاب یا قلم میں مصروف پاتا۔ یہ دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا۔ ترتیب اور ریاضت ایسی کہ دیکھنے والا دنگ رہ جائے۔ کھانے پینے کا ذوق بہت عمدہ تھا۔ ایک سے زیادہ بار ان کے صاحبزادے محمد عمر فاروق کے ساتھ چوری چھپے باورچی خانے میں کھانا کھانے کا اتفاق ہوا۔ مجھ سے وہ کہتے: دھیرج سے چلو، ابا جان کی نیند بہت ہلکی ہے۔ وہی بات: آہستہ خرام بلکہ مخرام کہ زیرقدمت ہزار جان است۔
سید صاحب نے سیاست کے بل پر معاشرے کو بدل ڈالنے کا خواب دیکھا اور ناکام رہے۔ تحریکِ پاکستان کے ہنگام وہ قوم کے تیور پڑھ سکے اور نہ بعد میں۔ وہ تمام مفکر اور وہ سارے لیڈر بھلا دئیے گئے، جن کا خیال تھا کہ اقتدار کے بل پر آدمی کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ نہیں بلکہ علم، حوصلہ افزائی، ریاضت اور بشارت سے۔ خود اپنی جان پر ستم سہہ کر ہی۔ اپنے آپ کو رعایت دینے سے انکار کرکے اور دوسروں کو اکثر رعایت دے کر۔
تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ جہاں جہاں آدمی انقلاب کا علم لے کر اٹھا ہے، آخر کو حیران اور ششدر کھڑا رہ گیا ہے۔ غلبہ پانے سے نہیں، زندگی ایثار، تربیت او رتعلیم سے سنور سکتی ہے۔ آدمی کا شیوہ اور شعار مگر یہ ہے کہ دوسروں پہ اپنی برہمی برسا کر اپنے بوجھ سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے۔ مجھ ایسے راہگیر، جو کبھی ان تحریکوں سے متاثر ہوئے تھے، پلٹ کر اب دیکھتے ہیں تو ملال کے سوا کوئی اثاثہ نہیں پاتے۔ شاید یہ بھی غنیمت ہو کہ احساسِ زیاں بھی زادِ راہ ہو سکتا ہے۔ اگر لمحاتی، عارضی اور سطحی نہ ہو۔
صرف ایک ہی جنگ ایسی ہے، جو آدمی کو ظفریاب کر سکتی ہے... خود اپنے خلاف معرکہ آرائی، جو مسلسل اور متواتر ہو، مستقل مزاجی اور شعور و ادراک کے ساتھ۔ باقی کارِ جہاں ہے، دین داری کا علم ہو، افتادگانِ خاک کے نام پر لہراتا پرچم، سلطانیٔ جمہور یا حبِ وطن کا۔ جو خود کو ہرا نہ سکا، وہ حریف کو ہرا سکتا ہے اور نہ طاغوت کو۔ آخرکار وہ بھی وقت کے دریا کا حصہ بن جاتا ہے۔ زمانے کے رنگ میں جو رنگا جائے۔ جو اس کے تیور اپنا لے، وہ اسی کا ہو رہتا ہے۔ اس میں کوئی آج اور کل نہیں ہوتا۔ کوئی ماضی اور مستقبل نہیں۔ فقط اپنے وجود کی فکر مسلط ہو رہتی ہے، وہ بھی لذّتِ کام و دہن اور خودنمائی کی۔ زندگی رخصت ہوتی اور آسودگی کی غالب آنے والی تمنا اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ اس واعظ ہی کو دیکھ لیجیے، آئے دن جو ایک نیا، مسحور کن خواب دیکھتا ہے۔ اس کے بیان میں اپنی ہی فضیلت کو وہ اجاگر کرتا ہے۔
علماء میں سید صاحب کئی اعتبار سے ایک استثنیٰ تھے؛ اگرچہ تاریخ کے دوام میں جگمگاتے دکھائی نہیں دیتے۔ جیسے کہ ان کے سحر زدہ مدّاح گمان کرتے ہیں۔ یہ سوال البتہ اپنی جگہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے نسبتی اور فکری آبا کو سیّد صاحب سے ایسی چڑ کیوں تھی؟ کیا فقط اس لیے کہ اپنی راہ انہوں نے الگ کر لی؟ ہر آدمی کا اپنا ایک الگ راستہ ہوا کرتا ہے۔ خار و خس کی طرح جو آندھیوں کا اور پتھروں کی طرح دریا کا نہیں ہونا چاہتا۔
رہے عمران خان کے اجداد تو مولانا فضل الرحمٰن کو ان سے کیا شکایت ہے؟ انہیں بھی تو لوگ گوارا کرتے ہیں، ان کے اجداد کو بھی۔
چیخ چلّا کر، خطابت کے بل پر، کوئی فتح مند ہو سکتا تو تاریخ کے افق پر خطیب ہی جگمگاتے۔ ان کا ذکر حاشیوں میں ہوتا ہے۔ گزراں اور ضمنی، اکثر ازراہِ تفنّن۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ خطیبوں کی اکثریت اپنی شکست کی آواز ہوتی ہے۔ اپنے ولولوں کے گریہ کناں فریادی۔