صبحِ صادق کا نور جاگ اٹھنے والوں پہ پھیلتا ہے ، لمبی تان کر سونے والوں پر نہیں ۔ الفاظ سے نہیں ، زندگی اقدار اور اعمال سے سنورتی ہے ۔ع
عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی
ترجیحات غلط ہیں ۔ صرف اور صرف وقتی اور سیاسی فوائد پیش نظر۔ بڑھتے بڑھتے کرپشن ایسی ہو گئی کہ بدنام زمانہ بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں ۔ معاشی ڈھانچہ کمزور ہے اور عالمی مالیاتی ادارہ سر پہ سوار ۔ شریف حکومت کو مگر آئندہ الیکشن کے سوا کسی چیز کی پروا نہیں۔ بس ایک پاک چین تجارتی راہداری ہے۔ وہی کھائو‘ وہی پیو‘ اسی کو اوڑھ کر سو جائو اور مستقبل کی تمام امیدیں اسی سے وابستہ رکھو ۔ع
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
کسان پیکیج مار ڈالا ۔ کھاد پر سب سے زیادہ اخراجات ہوتے ہیں ۔ اسی پہ زراعانت واپس لے لی گئی۔ فی بوری ایک ہزار سے پندرہ سو تک اضافہ ہو گا۔زراعت توپہلے ہی زبوں حال ہے ۔ برآمد کنندگان کے لیے پیکیج کا اعلان ہے مگر بنیادی مسائل کا ادراک کئے بغیر ۔ذرا سا سکھ کا سانس انہوں نے لیا ہے کہ گندم اگر بہم نہ شد‘ بھس غنیمت است ۔پنجابی کا محاورہ ہے کہ : اگاّ دوڑ تے پچھاّ چوڑ۔ جو سنوارنے پر لگے تھے‘ اسے وہیں چھوڑا اور دوسرے پہ لپک پڑے۔
پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا نے انکشاف یہ کیا ہے : ایف بی آر میں صنعت کاروں کے 250 ارب روپے پڑے ہیں۔ وہ ٹیکس جو واپس کرنا ہوتے ہیں۔ خام مال خریدنے‘ بجلی کے بل اور محنت کشوں کے معاوضے ادا کرنے کے لیے‘ روپیہ اگر نہ ہو تو کاروبار کیسے چلے؟ وزیراعظم فرماتے ہیں کہ یہ پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں تو برآمدات کم نہ ہوئی تھیں؛حالانکہ کرپشن بہت اور بجلی کا بحران زیادہ تھا۔اب 25 بلین ڈالر سے 19.5 بلین کیسے ہو گئیں؛حالانکہ پٹرول کی قیمت آدھی ہوگئی ۔ بجلی کے نرخوں میں 80 فیصد اضافہ آپ نے کر دیا۔
وزیراعظم نے بتایا کہ ایف بی آر نے جون 2016ء تک کی رقوم واپس کر دی ہیں۔ تصدیق طلب ہے۔ مان بھی لیجئے تو سات ماہ بیت چکے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں‘ ٹیکس محتسب کے طفیل یہ مدت صرف 40 دن رہ گئی تھی۔ اس لیے کہ انہیں کام کرنے کا موقعہ دیا گیا۔ موجودہ ٹیکس محتسب کو مرد شریف مانا جاتا ہے لیکن کوئی کام بھی کرنے دے۔ وہ سب جناب اسحٰق ڈار کے انگوٹھے تلے پڑے رہتے ہیں ۔مالیاتی پالیسیاں دو آدمیوں کے ہاتھ میں ہیں، وزیراعظم اور وزیر خزانہ۔ اسحاق ڈار کیا اس لیے خزانے پہ مامور ہیں کہ خاندانی ترجیحات ملحوظ رکھتے ہیں ؟ معیشت بگڑتی ہے تو بگڑتی رہے ۔ برآمدی پیکیج کے ساتھ ہی اسلام آباد کے پشاور موڑ سے نئے ہوائی اڈے تک میٹروبس کی خوش خبری سنائی گئی ۔ جہازوں پہ سفر کرنے والے کیا بسوں پر آیا جایا کرتے ہیں؟
ایف بی آر سے رقوم واپس کیسے ملتی ہیں۔ ملک کے ممتاز ترین قالین برآمد کرنے والوں میں سے ایک کے تین کروڑ واجب الادا تھے۔ ہائیکورٹ نے اس کے حق میں فیصلہ کیا۔ ایف بی آر کے سب سے بڑے افسر سے‘ لاہور جم خانہ میں اس کی ملاقات ہوئی تو کہا : اب تو ادائیگی کر دیجئے۔ اس کا جواب یہ تھا: اہلکاروں کے تیس فیصد تودینا ہوں گے ۔
لاہور کی ایک یونیورسٹی کو 25 لاکھ وصول کرنا ہیں۔ ایف بی آر کے ایک سابق چیئرمین سے‘ ایسے ہی ایک معاملے میں رہنمائی کی درخواست کی گئی تو انہوں نے کہا : اللہ اللہ کیجئے‘ اپنے ادارے کی میں نے مدد کرنے کی کوشش کی تو معاملہ اور بھی بگاڑ دیا گیا۔۔۔ کوئی چارہ نہیں‘ رشوت دیئے بغیر‘ کوئی چارہ نہیں۔ نظر بد سے اللہ بچائے‘ ترقی ہے کہ ہر طرف پھیلتی جاتی ہے۔
قرضوں میں اضافے، خوفناک اضافے کے علاوہ‘ ترسیلات زر میں بھی پہلی بار کمی ہے 2.5 فیصد۔ اس کے باوجود وزیراعظم شاد کیوںہیں؟ چھوٹے چینی بینک افراط سے عنایات کر رہے ہیں۔کیا اس لیے کہ آئی ایم ایف بھی مزید مہربانی کے لیے آمادہ ہے ۔ ٹیکسوں میں اگر مزید اضافہ کر دیا جائے۔ وہی قرض کی مے ۔
ٹھیکیدار سے سوال کیا گیا کہ نرخ آج کل کیا ہیں؟ کہا : 30 سے 40 فیصد۔ انحصار اس کا افسروں پر ہے۔ ایک کروڑ کے ٹھیکے پر چیف انجینئر کو پانچ لاکھ، منظوری سے پہلے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ پھر اے جی آفس تک‘ 25 سے 35 فیصد اس کے علاوہ۔
تازہ ترین یہ ہے کہ پاکستانی سرمایہ سری لنکا بھی جا رہا ہے۔ دوبئی کی جائیدادوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری‘ ملائیشیا اور بنگلہ دیش میں اس کے سوا۔ محتاط ترین اندازہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کے 160 ارب ڈالر سمندر پار پڑے ہیں۔ سرمایہ کاری کا ماحول نہیں۔ اگر ہوتا تو وزیراعظم اور وزیر خزانہ کے فرزند کیا بیرون ملک براجمان ہوتے؟ وزیراعظم کا ایک رشتہ دار جھلّایا ہوا تھا‘ جس کی فیکٹری بند پڑی ہے۔ وزیر خزانہ کی شان میں قصیدہ پڑھ رہا تھا۔ پنجاب میں تین سو کارخانوں پر تالے لگے ہیں۔ محنت مہنگی کہ گرانی نے عامی کو مار ڈالا ہے‘ بجلی اور گیس گراں۔ ٹیکسوں کا بوجھ اس کے سوا۔ بلدیات‘ ماحولیات‘ وزارت صنعت کاری‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایک آدھ نہیں‘ تیس پینتیس محکمے صنعت کار کے سر پہ سوار ہوتے ہیں۔ اتنا بوجھ اٹھا کر کوئی کہاں تک چل سکتا ہے؟
پڑوسی ملکوں میں محنت سستی ہے اور بجلی بھی۔ کرپشن ضرور ہے مگرایسی نہیں، اتنی سفاکی اور بے حیائی کے ساتھ ہرگز نہیں۔ دو چار فیصد، پانچ سات فیصد۔ یہاں تو لوٹ مچی ہے، پنجاب میں چالیس فیصد ہے تو سندھ میں ساٹھ ستر فیصد ۔ شہبازشریف چاہیں تو اس پر فخرکرسکتے ہیں۔اشتہارات کی ایک نئی مہم برپا کر سکتے ہیں ۔
کہاں کہاں روپیہ برباد ہے، وزیراعظم کی بلا سے۔ کسی نے سکھا دیا ہے کہ کام وہ کرو، نقد، جس کی داد ملے۔ سڑک پر ہر آدمی سفرکرتا ہے، پل پر سے سبھی گزرتے ہیں۔ میٹرو نظر آتی ہے۔ اورنج ٹرین اور بھی زیادہ جگمگاتی دکھائی دے گی۔ معیشت جائے بھاڑ میں۔سرکاری کارپوریشنوں، بجلی کمپنیوں، سٹیل مل اور ریل میں چھ، سات سو ارب سالانہ کا خسارہ ہے۔ پی آئی اے 300 ارب کی مقروض ہو چکی ۔ ہر ماہ 5.60 ارب بڑھ جاتے ہیں۔ وزیراعظم اوروزیرخزانہ کو اس سے کیا؟ نوٹ چھاپ سکتے ہیں۔ دولت ان کی ڈالر میں ہے۔
بار بار وہی سوال کہ نجکاری کیوں نہیں ؟ اس لیے کہ وزیراعظم کے سیاسی حلیف ناراض ہوتے ہیں۔ سٹیل مل اور پی آئی اے پر پیپلزپارٹی شور مچاتی ہے؛اگرچہ فیصلہ ہو جائے توکر وہ کچھ نہیں سکتی۔ چند روز کے لیے ہنگامہ اٹھا رکھے گی۔ وزیراعظم انہیں کیوں خفا کریں؟ کیا انہیں بوجھ اٹھانا پڑتا ہے؟کیا کوئی پو چھنے والا ہے ؟ ملک سے باہر ان کے اثاثے اپنی اولاد کے ہاتھ میں محفوظ ہیں ۔قرض اگلی حکومتوں، اگلی نسلوں کو ادا کرنا ہے۔ جب تک حلوہ میسر ہے، پیٹ پھر کے کھایا کیوں نہ جائے؟
کوئی جائے اور جا کر وزیرِ اعظم کو بتائے کہ بھارت میں موٹروے کے جال نہیں بچھے۔ ملائیشیا اور ترکی میں ہرگز یہ ترجیح نہ تھی۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ ترقی اس کے باوجود ہوئی اور خوب ہوئی ۔امسال بھارت کی شرح نمو 7.5 فیصدرہی۔ اس سے پہلے آٹھ فیصد تک۔ صرف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بل پر 100ارب ڈالر وہ سالانہ کماتے ہیں۔ ہم صرف ایک بلین۔پچیس ، تیس بلین ڈالر کیوں نہیں؟ اس لیے کہ سرمایہ، سرکاری کارپوریشنوں، سڑکوں اور پلوں پر لٹادیا گیا۔ ٹھیکیداری نظام اس قدرکہنہ اور غلیظ ہے کہ 50فیصد سے زیادہ کسی منصوبے پر لگ سکتا ہی نہیں ۔ رشوت خور افسر کی بارگاہ میں اذیت سہنے والا، منافع کی شرح زیادہ کیوںنہ رکھے گا؟ کوئی اس سوال کا جواب دے کہ اس کی بجائے ہرضلع میں آئی ٹی کی ایک اچھی یونیورسٹی کیوں نہ بنا دی گئی ؟ تعلیم سے ان لوگوں کو چڑ کیوں ہے ؟
صبحِ صادق کا نور جاگ اٹھنے والوں پہ پھیلتا ہے ، لمبی تان کر سونے والوں پر نہیں ۔ الفاظ سے نہیں ، زندگی اقدار اور اعمال سے سنورتی ہے ۔ع
عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی