ہر بحران میں مواقع پوشیدہ ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو اس امر کا کتنا ادراک ہے کہ سری لنکا بھی ایک عظیم امکان ہے۔اَللہ تو پاکستان پر مہربان ہے۔ ہم خودہی اپنے ساتھ انصاف نہیں کررہے۔
حکایت اس قدر لذیذتھی کہ بارِدگر سننے کوجی چاہا۔ کامرانی کے سرور اورسرشاری میں ان میں سے ہر ایک انہیں دہراتا رہا۔ سفیرمحترم‘ جنرل شکیل حسین‘ دفاعی اتاشی کرنل راجل‘ تجارتی اتاشی عدنان لودھی اور پریس اتاشی انتصار سلہری۔ مسافر سوال کرتا رہا۔ کرید کرید کر اس نے تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی۔
جنوری کے تیسرے ہفتے میں‘ پاکستانی مصنوعات کی وہ نمائش اختتام پذیر ہوئی‘ کولمبو کی تاریخ میں جو یادگار رہے گی۔ شہر کے مکین چنیوٹ کے فرنیچر‘ وزیر آباد‘ سیالکوٹ کی کٹلری پر پروانوں کی طرح گرے۔ کتنی ہی سرزمینیں ہیں‘ جو پاکستان اورپاکستانی اشیاء کی منتظر ہیں۔ افریقہ اور ایشیا کی اقوام ۔مگر ہم مغرب کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ سری لنکا کے شائقین سیالکوٹ میں بننے والے فٹ بال اورکرکٹ کے بلّوں کے بارے میں پوچھتے رہے۔
ایک شاید الیگزنڈر بھی خرید لیتا‘ میرے میزبان کا ڈرائیور۔ ایک عجیب وارفتگی کے ساتھ‘ جس نے پاکستانی کرکٹ ٹیم سے ملاقات کا ذکر کیا۔''مجھے ان کی تواضع کرنے کا موقع ملا اور میں نے ان سب کے ساتھ تصاویر بنوائیں‘‘ آفریدی سے زیادہ وہ اجمل کا مداح تھا۔'' صاحب! وہ ایک ہنسی مذاق کرنے والا آدمی ہے‘‘ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اس نے کہا۔ شرح خواندگی100فیصد ہے مگر تعلیم کا حال پتلا ہے۔ ایک دلچسپ انکشاف یہ کہ بھارت کی بجائے‘ بہت سے ادارے پاکستانی جامعات سے وابستگی کی تمنّا رکھتے ہیں۔
الیگزنڈر مدتوں بحری جہاز پہ نوکری کر چکا۔ کراچی اسے پسند آیا۔''کراچی میں خوبی کیا ہے۔‘‘میں نے اس سے پوچھا''بالکل وہ کولمبو کی طرح ہے‘‘ کولمبو اور کراچی میں پام کے درختوں‘ سمندر اور موسم کے سوا کیا مشترک ہے؟۔ راز کی بات یہ ہے کہ بھارتی‘ حقارت کی نگاہ سے سری لنکا والوں کودیکھتے ہیں۔ سمندری فاصلہ کہیں30کلو میٹر بھی ہے‘ دونوں اقوام کے درمیان مگر صدیوں کا فاصلہ حائل ہے ۔ بھارت تاملوں کی بغاوت کو ہوا دیتا رہا‘ چھوٹے سے جزیرے کو جو دو حصوں میں کاٹ دینا چاہتے تھے۔ پاکستان کولمبو کی مدد کرتا رہا‘ حتیٰ کہ امن حاصل کر لیا گیا۔ پاکستان کے بڑے شہروں کی طرح کبھی راستوں پر رکاوٹیں کھڑی رہتیں۔ مگر اب پنج ستارہ ہوٹلوں کے دروازے چوپٹ کھلے ہیں۔ ہوٹل کیا‘ ایوان صدر‘ ایوانِ وزیر اعظم اور فوجی دفاتر کے بھی۔ دہشت گردوں کا مکمل صفایا پاکستان میں بھی ممکن ہے۔ وہاں بھی بھارتی تھے اور بعض مغربی اقوام کی حمایت فسادیوں کو حاصل تھی۔ ہرآدمی ‘ہر معاشرہ امن کا آرزو مند ہوتا ہے۔ تاملوں نے واقعی سمجھوتہ کر لیا ہے۔ البتہ جافنا اور نواح میں‘وہ صوبائی خود مختاری کے متمنّی ہیں۔ بھارتی وحشت کے مقابلے میں‘ پاکستانی امداد زیادہ سلیقہ مندی‘ احتیاط اور رازداری کے ساتھ بروئے کار آئی۔ چند سال ادھر عمران خان مجھے بتایا کرتے کہ سری لنکا میں حاصل کیا جانے والا امن عارضی ہے۔ اس زمانے میں جب طالبان کے لیے انہوں نے پشاور میں دفتر کھولنے کی تجویز دی تھی۔ اس وقت جب میاں محمد نواز شریف دہشت گردوں سے بات چیت کے حامی تھے۔
اپریل میں کھلے بازوئوںکے ساتھ میاں محمد نواز شریف کا خیر مقدم کیا گیا اور اب شہباز شریف کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ سری لنکا کو دو سو ملین ڈالر کے عطیے اور سینکڑوں طلبہ کے لیے وظائف کی پیشکش کی گئی ہے۔ سفیر صاحب کو یقین ہے کہ تجویز ‘جیسے ہی وزیر اعظم کی میز پر پہنچے گی ‘ اس پر وہ دستخط کر دیں گے۔ تاخیر شاید نوکر شاہی کے سبب ہے۔ ایک صدی ہونے کو آئی‘ ترکیہ نے اپنی بقا کی جنگ لڑی تو مسلم برصغیر نے دل سوزی اور ایثارکا مظاہرہ کیا تھا‘ آج تک اس کا ثمر ہم سمیٹ رہے ہیں۔ سری لنکا دوسرا ترکی بن سکتا ہے۔ بھارت کے غلبے اور خوف میں ‘ سرکاری دفاتر میں یہ آرزو دھیمے سروں میں سلگتی ہے، گلیوں، بازاروں اورگھروں میں ایک والہانہ پن کے ساتھ۔
شرمیلے الیگزنڈر کومظہر برلاس نے چھیڑا: میچ اگرپاکستان اور سری لنکا کے درمیان ہو؟۔ وہ اپنی محجوب سی ہنسی، ہنس دیا اور کہا: مشکل سوال نہ کرو صاحب۔ بہرحال ایک بار میں نے دونوں کے جھنڈے لہرا دیئے تھے۔ ''معاملہ اگربھارت اور پاکستان میں ہو؟‘‘۔ اب وہ کھلکھلا کر ہنسا اور بولا! یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ اس کا پورا نام سرل الیگزنڈرنکلسن ہے۔ ادھر ہمارا بھی ایک سرل ہے، اپنے وطن سے بدگمان۔ اس کا قصور ثابت ہو چکا۔ اب اس کی اوراس کے سرکاری اور اخباری ساتھیوں کی سزا میں تخفیف کے لیے منت سماجت کا‘جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔
سری لنکا والے اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں۔ قدیم عمارتوں کو انہوں نے خوب سنبھالا اور سنوارا ہے‘ ہر کہیں جو سر اٹھائے کھڑی ہیں۔اپنی قوم پر وہ ایک شریفانہ افتخار کے حامل ہیں۔ انہی میں سے ایک عمارت میں پاکستان کی نمائش منعقد ہوئی۔وہ اگر چہ نئی ہے ‘ چین کا تحفہ۔ کہا جاتا ہے کہ تین چار برس اسی طرح یہ نمائش جاری رہ سکی تو ایک قومی تہوار میں ڈھل سکتی ہے۔ اکثر عمارتوں کی طرح، اس کا رنگ دودھیا ہے، ستون اور کشادگی، چاندنی راتوں میںجادو سا جاگ اٹھتا ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان کشمکش ہے۔ ایک بندرگاہ چینی تعمیر کر رہے ہیں، منصوبے کے لیے دیا جانے والا قرض واپس نہ کیا جاسکا تو پندرہ ہزار ایکڑ اراضی اس کے عوض رہن رکھ دی گئی۔ بھارت اور اس کا تزویراتی سرپرست امریکہ چین کے خلاف سرگرم ہیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کے خلاف بھی۔ یہ ایک طویل کشمکش ہے، ایک نیا عظیم کھیل،The great game، جو بالآخر اپنے منطقی انجام کوپہنچے گی۔ جیسا کہ جنرل راحیل شریف نے کہا تھا‘ممکن ہے کہ خطے کی صورت حال یکسر بدل جائے ۔ طویل المیعاد منصوبہ بندی کے تحت، ہمیں اس کھیل میں شریک ہونا ہوگا۔ ایوان وزیراعظم، وزارت خارجہ اور جی ایچ کیو میں اس پر ہم آہنگی ہونی چاہئے۔ اس کا امکان اب موجود ہے؛
اگرچہ تحرّک دکھائی نہیں دیتا۔ بھارتی مستعد ہیں اور کہاجاتا ہے کہ صرف سری لنکا کے ذرائع ابلاغ میں اب تک وہ 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ عوامی الفت، پاکستان سے زیادہ ہے مگربھارتی رسوخ فی الحال غالب ہے۔موجودہ حکومت کو بھارت اور امریکہ نواز سمجھا جاتا ہے۔ حسینہ واجد کی نفرت قابل فہم ہے۔ چند ماہ قبل پاکستان میں سارک کانفرنس کی سری لنکا نے بھی مخالفت کردی تھی۔ ملک میں اس پر شرمندگی کا احساس پایا جاتا ہے۔ سرمایہ ہم نہیں لگا سکتے ،لیکن خیر خواہی اور امید کے امکانات سے چنگاری کو محبت کا الائو بنا سکتے ہیں‘ چین کے تعاون سے ہمیں بروئے کار آنا چاہیے۔ بحرہند کے کنارے عربوں کے گلاداری ہوٹل میں، جو پاکستانیوںکا ٹھکانہ لگا، ٹیلی ویژن پر پاکستانی لیڈروں کی بچگانہ بحثیں اوربھی زیادہ مضحکہ خیزلگتیں۔ دور سے تصویر زیادہ صاف نظرآتی ہے۔ یہ احساس شدت اختیار کر لیتا ہے کہ سول اور فوج ہی نہیں، تمام سیاسی قوتوں میں ایک ایجنڈے پر کم از کم اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ کیا یہ ممکن ہے، یا بالآخر سب لیڈر ایک دوسرے کو بلاک کردیں گے؟۔ نرگسیت کے مارے، اپنے احساسات کے قیدی!
پاکستان کو تنہا کرنے میں بھارت ناکام ہو چکا، دہشت گرد ریاست قراردینے میں۔ اس پر وہ حملہ نہیں کرسکتا۔ انتقام کی روش لیکن وہ ترک نہ کرے گا۔ یہ پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا مرحلہ ہے۔ آزمائش سے گزر کر ہی قومیں کنبوں کی طرح متحد ہوتی ہیں۔
ہر بحران میں مواقع پوشیدہ ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو اس امر کا کتنا ادراک ہے کہ سری لنکا بھی ایک عظیم امکان ہے۔ اَللہ توپاکستان پہ مہربان ہے۔ ہم خود ہی اپنے ساتھ انصاف نہیں کررہے۔