ایک شب کی بے خوابی کیا ، ابھی کچھ دیر میں اندمال ہو جائے گا۔ آشکار یہ ہو اکہ دنیا بدل جانے والی ہے ۔ ایسی وہ ہرگز نہیں رہے گی ، جیسی کہ اب ہے ۔ زمانہ ایک بار پھر انقلاب سے دوچار ہونے والا ہے ؎
دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دلِ ہر ذرہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی
شب بیت گئی ، حتیٰ کہ سورج کی کرنیں پردے کی درز سے سامنے کی دیوار پر اتر آئیں ۔ دور دور تک نیند کا کہیں نشان تک نہ تھا ۔ اب کچھ دیر آرام ہی کیاجا سکتا تھا۔
سارے کام کل نمٹا دئیے تھے ، بیشتر بر وقت ۔ دیر تک اخبارات دیکھے ۔ کالم کو ایک سے زیادہ بار پڑھا ۔ایک دوست سے ملاقات کا ارادہ تھا ، جن کی تیمارداری کے لیے حاضر نہ ہو سکا۔ بتایا گیا کہ گائوں جا چکے ۔ کوئی بات نہیں ۔ کل لوٹ آئیں گے ۔ آج کی فرصت سے فائدہ اٹھا کر گوجر خان کا چکر لگایا جائے ۔ یہ ایک شاد کردینے والی ملاقات تھی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ا س کی پالیسیاں ، سول فوجی تعلقات ۔ سیاست کاروں کا ماضی اور مستقبل کے امکانات۔ پاکستان کی دفاعی استعداد اور تیاریاں ۔ معلومات کا نہ ختم ہونے والا خزینہ۔ مستند اور چونکا دینے والی تفصیلات ۔ انہوں نے یا ددلایا کہ 12فروری کے سالانہ لیکچر کے لیے دوستوں کو مطلع کر دوں ۔
بروقت گھر لوٹ آیا ۔ اب صرف ایک کام باقی تھا ۔ نصف گھنٹے کی ٹہل ، Walk۔ موسم خوشگوار اور طبیعت مائل تھی ۔ سوئی ہوئی گلیوں میں تیز قدمی کے ساتھ مقرر ہ فاصلہ طے کیا ۔ لوٹ کر آیا تو سرشاری اور شادابی کاعالم تھا۔ گرم پانی سے اگر غسل کر لیا
جائے اور کتاب کے چند اوراق پڑھے جائیں تو یہ ایک اچھے دن کا شاندار اختتام ہوگا۔ احتیاط یہ کی کہ ٹیلی ویژن چند منٹ ہی دیکھا، ضروری خبریں اور بند کر دیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کم خوابی کا اگر اندیشہ ہو تو سونے سے دو گھنٹے قبل الیکٹرانکس سے متعلق ہر چیز کو سلا دینا چاہئیے ۔ گہری نیند تھکے ہوئے یکسو آدمی کو آتی ہے ۔ قائدِ اعظم جب چاہتے تھے ، سوجایا کرتے تھے ، اس لیے کہ خود کو تھکا رکھتے ۔ بروقت جاگتے اور سارا وقت مصروفِ عمل رہتے ۔
تکان تھی مگر آسودگی بھی ۔ نیند نے یلغار کی مگر اسی وقت وہ غلطی سرزد ہوئی ۔ سوچا کہ سونے سے قبل سوشل میڈیا پہ ایک نظر ڈالی جائے ۔ سید علی گیلانی کو ایک بار پھر دیکھا جائے ۔ لگ بھگ ایک منٹ کا کلپ ، جس میں اپنی کرسی پر مداحوں میں گھرے وہ کہتے ہیں : ہم مسلمان ہیں اور پاکستان ہمارا ہے ۔ چہرے پہ تھکن اور بڑھاپے کے آثار مگر لہجے میں تازگی اور فراوانی ۔ یقین بھی کیسی عظیم دولت ہے ۔ مقصد کی لگن جی جا ن میں کیسا دیا جلائے رکھتی ہے ۔ تاریکی چھو نہیں سکتی ، مایوسی قریب پھٹک نہیں سکتی ؎
یقیں پیدا کر اے ناداں یقین سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
پھر ایک تصویر نظر آئی ۔ ہری پورکے ایک گائوں کا نابینا ڈاکیا ، 44سال سے گھر گھر جو خطوط بانٹ رہا ہے ۔ 1973ء میں 55روپے ماہوار سے ملازمت کا آغاز اس نے کیا تھا ۔ ماں باپ ، بہن بھائی ، سب نابینا ۔ والد انتقال کر گئے تو ذمہ داری اس پر آپڑی ۔ ہر روز دس پندرہ میل کی مسافت طے کرنے والا آدمی ، جو اس دیار کے ہر شخص کو پہچانتاہے ، اس کی آواز سے ۔ کئی منٹ کی فلم میں چھڑی کے سہارے ایک ایک قریہ چھانتے ہوئے اسے دکھایا گیا۔ ایک ایک گھر کا دروازہ اس پر خوش دلی سے کھلتا ہے۔ لوگ اسے چائے پیش کرتے ہیں اور کبھی کھانا بھی ۔ وہ کچھ حیران سا ہے کہ چار عشرے میں اس کی اجرت فقط 1040روپے تک ہی کیوں پہنچ پائی ۔ حیران اور قدرے تھکا ہوا مگر کچھ زیادہ آزردہ نہیں۔ برہم تو بالکل نہیں۔ ''گزارا مشکل سے ہوتاہے ‘‘ اس نے کہا۔ کبھی کبھار اب تھکن ہو جاتی ہے۔ دفتر والے امید دلائے رکھتے ہیں مگر وہ پوری نہیں ہوتی ۔
یا رب یہ کیسی دنیا ہے ؟ اس قدر نا انصافی۔ تونے توفیق ہمیں دی ہوتی ۔جی نہیں ، صوفی نے کہا تھا : بن مانگے تو گاہے وہ گھاس بھی نہیں دیتا۔ پھر سرکارؐ کا فرمان یاد آیا: جس بستی میں کوئی بھوکا سو رہا، اللہ اس کی حفاظت سے بے نیاز ہے۔ رنج اپنے آپ پہ ہونے لگا۔ دل اتنی بے شمار نعمتوں اور عنایات کے باوجود شکوہ سنج کیوں رہتاہے ؟ سچی شادمانی اور حقیقی نجات توفقط شکر گزاری میں ہوتی ہے ۔
سحر کی اذان گونجنے میں بس تھوڑا سا وقت باقی ہے ۔ صبحِ کاذب کے بطن سے صبحِ صادق کا نور کچھ دیر میں پھوٹ بہے گا ۔ اہلِ ایمان جا گ اٹھیں گے اور سربسجود ہوں گے ۔ وہ خوش بخت کہ حیات کے معانی جن پر آشکار ہیں ۔
ایک نظر ڈاکیے والی فلم کے تبصروں پر ڈال لی جائے : ''عمران خان اور اس کی حکومت کو شرم آنی چاہیے ‘‘ ۔ دوسرا تبصرہ یہ ہے: ''شرم تو وزیرِ اعظم اور ان کی پارٹی کو آنی چاہیے ۔ ڈاک ان کا محکمہ ہے ۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ، ہم اس کی مدد کریں گے ۔ کوئی اور نہیں تو میں خود اس کے لیے روپے جمع کروں گا۔ ‘‘ ضرور اس آدمی کو کچھ مدد مل جائے گی اور یہ بہت اچھا ہوگا۔ لاکھوں کروڑوں دوسرے افتادگانِ خاک کا کیا ہوگا؟
ایک اور تصویر ۔یہ تیس برس کی ایک مسلمان خاتون ہیں مگر اپنے لہجے اور چہرے کی معصومیت سے بیس بائیس برس کی دکھائی دیتی ہیں۔ '' میں نسرین الامین ہوں ۔ میرا تعلق سوڈان سے ہے مگر میں نیو یارک میں رہتی ہوں ۔ 1993ء سے میں وہاں پڑھتی اور رہتی آئی ہوں ۔ ریسرچ کے لیے میں خرطوم میں تھی اور مجھے واپس جانا تھا۔ اگرچہ فوری طور پر نہیں لیکن اب میں جہاز میں سوار ہو گئی ۔ میں آزردہ خاطر اور خوفزدہ تھی کہ خدا جانے میرے ساتھ کیا ہوگا۔ نیو یارک کے ہوائی اڈے پر انہوں نے مجھے نئے انتظامی حکم کے بارے میں بتایا ۔ اپنا پاسپورٹ اور گرین کارڈ میں نے امیگریشن افسر کے حوالے کر دیا۔ وہ دستاویزات سپروائزر کے پاس لے گیا۔ اس نے کہا: افسوس ہے ، تمہیں پوچھ گچھ کے لیے ایک الگ جگہ پر لے جانا ہوگا۔ اس نے سوڈان کی سیاست کے بارے میں سوالات کیے ۔ پوچھا کہ کیا وہاں کچھ انتہا پسند گروپ پائے جاتے ہیں ۔ ہاتھ اوپر کر کے مجھے دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا گیا ۔ میرے جسم کے سب حصوں کی تلاشی لی گئی ۔ سرکاری افسر جج بن گئے تھے ۔ 1993ء سے میں نیو یارک میں رہتی اور بعد ازاں کام کرتی آئی تھی ۔ باقاعدہ امریکی شہری ہونے کے باوجود اب میں یہاں اجنبی تھی ۔ میں نے محسوس کیا کہ ایک مسلمان اور سیاہ فام ہونا جرم ہے ۔ مجھے خیال آیا کہ اب مجھے کہیں اور چلے جانا ہوگا۔ میں فکر مند تھی ۔ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اس ملک کے مستقبل کے لیے بھی ، جسے میں اپناسمجھتی تھی ۔
نسرین الامین کا بیان لفظ بہ لفظ نہیں ۔ یہ مشکل تھا۔ اس کے لہجے کی بے بسی اور درد کو متشکّل کرنا تو اور بھی دشوار کہ ایک مرحلے پر اس کی آواز رندھ گئی ؛اگرچہ دخترِ صحرا نے جلد ہی خود پر قابو پا لیا ۔
آنکھ کھلی تو خیال کا سلسلہ وہیں جا جڑا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ اور نواز شریف کے پاکستان کے بارے میں ، خدا کی بستی کے بارے میں ۔
ایک شب کی بے خوابی کیا ، ابھی کچھ دیر میں اندمال ہو جائے گا۔ آشکار یہ ہو اکہ دنیا بدل جانے والی ہے ۔ ایسی وہ ہرگز نہیں رہے گی ، جیسی کہ اب ہے ۔ زمانہ ایک بار پھر انقلاب سے دوچار ہونے والا ہے ؎
دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دلِ ہر ذرہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی