آدمی کی افتاد طبع ہی اس کی تقدیر ہے اورخود کو لیڈروں پر چھوڑ دینے والی قوموں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ چو پائے نہیں کہ ہانکے جائیں‘ ہم آدمی ہیں۔ آدمی ‘ جو آزاد پیدا کیا گیا۔
قبائلی علاقوں کے بارے میں وزیرِ اعظم سے کچھ زیادہ امید تھی ہی نہیں ، جیسا کہ کل عرض کیا تھا۔ میاں صاحب کے حلیف اس پر بھی ناخوش ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی بات قابل فہم ہے کہ موجودہ نظام انہیں سازگار ہے۔ کچھ امیدوار ان کے جیت جاتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کا مسئلہ کیا ہے؟ انہیں تو وہاں کوئی امیدوار بھی نہیں ملتا۔ اس آدمی کے پیش نظر کیا ہے ،جس نے کہا تھا کہ پختون خوا کا پورا علاقہ‘ افغانستان کا حصہ ہے۔تعصبات میں اس کے ہم نفس‘ اسفندیارولی خاں نے تب گرہ لگائی تھی کہ یہ افغانوں کی سرزمین ہے اور خود پیدائشی طور پر وہ بھی افغان ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طورخم سے ادھر پشتون کبھی بستے ہی نہ تھے۔ یہ صرف ساڑھے تین سو سال پہلے کی بات ہے۔ اللہ کی ساری زمین سارے بندوں کی ہے ۔ مہاجرت آدمی کا شعار ہے ، جو ساری تاریخ میں کارفرما رہا۔ ترکی زبان میں اپنی خودنوشت ''تزکِ بابری‘‘ میں ظہیر الدین بابر نے سوات میں یوسف زئی قبیلے کے کچھ لوگوں کی موجودگی کا ذکر کیا۔ خاص طور پر ایک خاتون کا جو مردانہ زندگی بسر کیا کرتی۔ عمر بھر بابر کو اس پر حیرت رہی ۔
شیبانی خان سے شکست کھا کر‘ بابر نے کابل کا قصد کیا اور حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہا۔ اس سے پہلے بھی ترک اس سرزمین پہ حکمران رہے تھے۔ محمود غزنوی، اس کے آبائو اجداد اور پھر ان کے وارث۔ ان کا پایہ تخت مگر غزنی تھا۔ لاہور کا آنند پال اور دوسرے حکمران جس پہ یلغار کیا کرتے۔ محمود سے تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے‘ جس نے پہل کاری کی۔ ہندوستان پر سترہ حملے کیے‘ حتیٰ کہ لاہور میں ایاز کو گورنر بنا دیا۔ پاکستان کی تشکیل کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا۔ جہاں تک سندھ کا تعلق ہے‘ محمد بن قاسم کے بعد‘ اڑھائی سو برس تک عربوں کی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں۔ اسلام فروغ پاتا رہا‘ بالخصوص سادات اور دوسرے مبلغین کے طفیل۔ اب بھی جن کے مزار آباد ہیں۔ آج بھی اس سرزمین میں‘ جن کی اولاد سب سے زیادہ محترم ہے‘ مثلاً پیر پگاڑہ کا خاندان۔ سید صبغت اللہ راشدی نے‘ جو ایک مہربان اور بے تکلف دوست ہیں‘ ایک بار اچانک کہا : میرے حریف کیا سمجھتے ہیں۔ برا وقت آیا تو کیا سیدنا امام حسینؓ ؓ کی اولاد کو بچا نہ لیا جائے گا؟
2013ء کے الیکشن سے قبل‘ آخری باقاعدہ سروے میں عمران خان قبائلی پٹی کا سب سے مقبول لیڈر تھا۔ 28 فیصد اس کی تائید تھی۔ جمعیت علمائے اسلام اور میاں محمد نوازشریف کی نو اور دس فیصد۔ اے این پی اس سے بھی کم۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے لالہ جہانگیر نے وزیرستان کے قبائلی سرداروں کا ایک جرگہ منعقد کیا تھا‘ ہلکے سنہری رنگ کی دلآویز پگڑیاں پہنے ،طویل قامت سردار تحریک انصاف میں شمولیت کے آرزومند تھے۔ پھر معلوم نہیں کیا ہوا۔ تنظیم‘ تربیت اور الیکشن کی سیاست سے کپتان نابلد ہے۔
قبائل کو صوبے کا حصہ بنانے کا پروگرام مرحلہ وار کیوں رکھا گیا۔خدشات سر اٹھاتے ہیں ۔ 1973ء کے دستور میں اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے پندرہ برس‘ اس میںمقرر کوٹہ سسٹم اور مشترکہ فہرست تمام کرنے کے لیے دس سال کی مہلت مقرر تھی ۔ مشترکہ فہرست 39 برس کے بعد ختم ہوئی۔ کوٹہ ابھی تک برقرار ہے۔ اردو کو قومی زبان قرار دینے کے آثار دور دور تک نہیں۔ عدنان عادل کے سامنے اس نکتے کی وضاحت کی تو غالبؔ کا مصرعہ انہوں نے پڑھا ع
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
اسی غزل کا ایک اور شعر یہ ہے ؎
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
صوفی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ درود تاج پڑھا کرتے ہیں۔ جواب ملا : ہم پکی سڑک کے مسافر ہیں‘ درود ابراہیمی پڑھتے ہیں۔ قوت فیصلہ کا فقدان۔ آدمی کا انداز فکرمثبت ہوتا ہے تو وہ دانش و حکمت کی کھلی شاہراہ پہ گامزن رہتا ہے ۔دوسرے لوگ اندیشے پالتے ہیں‘ پگڈنڈیاں تلاش کرتے ہیں، متذبذب! قرآن کریم نے اگرچہ یہ منافقین کے باب میں کہا،ایک پہلو سے متذبذب اورمتامل مخلوق کا عالم بھی یہی ہوتا ہے۔ برق چمکتی ہے تو کچھ دیر اس میں وہ چلتے رہتے ہیں‘ تاریکی میں ساکت و صامت کھڑے رہتے ہیں ۔ ؎
ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ویسا نہ ہو جائے
عمران خان‘ میاں محمد نوازشریف کا سب سے بڑا مسئلہ بن گئے ہیں۔ بیدِ مجنوں کی طرح‘ کانپتے کمزور ارادوں کے ساتھ ۔مولوی صاحب اور اچکزئی کو وہ ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ مبنی برانصاف فیصلہ کرنا ہو تو قرینہ سامنے ہے۔ دوسروں کی طرح قبائلی عوام بھی ترقی‘ تعلیم اور طبی سہولتوں کے لیے بے تاب ہیں ۔ ایک تاریخی عمل ہی میں قبائلی سماج‘ جدید معاشرے میں ڈھلتا ہے۔ اس کا وقت آ پہنچاہے۔عام آدمی کے لیے ووٹ کا اختیار ایک انقلابِ عظیم کا آغاز ہوگا۔ رواج‘ رسومات‘رہن سہن اورتمدن کے انداز بتدریج بدلتے ہیں۔ کسی کو اس کے حق سے محروم کیوں رکھا جائے؟ تاریخ انسانی کے عظیم ترین منتظمین میں سے ایک، سیدنا فاروق اعظمؓ کا وہی جملہ : مائوں نے اپنے بیٹوں کو آزاد جنا تھا‘ کسی کو حق نہیں کہ انہیں غلام بنا لے۔ کارل مارکس نے کہا تھا : کھونے کے لیے تمہارے پاس زنجیروں کے سوا کیا ہے؟
وزیراعظم مخمصے میں مبتلا رہتے ہیں۔ انگریزی کا وہ محاورہ Hunting with Hounds and running with hares بھیڑیوں کے ساتھ شکار اور خرگوش کے ساتھ بھاگ نکلنے کی کوشش ۔ تاریخ کا تجربہ یہ ہے اور اللہ کا فرمان بھی یہی کہ وقت آ چکے تو فیصلہ صادر کرنا چاہیے۔ فرمایا : قرآن کریم پڑھتے ہوئے‘ اگر کوئی غلطی کرے تو اسے دہرا ثواب ہو گا۔ تلاوت کا ایک‘ کوشش کا جدا۔ اجتہاد کے بارے میں یہ کہا گیاکہ درست ہو تو دوگنا اجر‘ وگرنہ مساوی تو لازماً۔ صلہ تدبیر و سعی کا ہوتا ہے‘ نتائج کا نہیں۔ نتیجے کا آخری انحصار پروردگار پہ ہوا کرتاہے ۔ کوئی ایک عمل‘ الگ سے اپنے نتائج پیدا نہیں کرتا۔ ایک عہد‘ ایک زمانے اور ایک وقت میں‘ بہت سی چیزیں بیک وقت رونما ہوتی اور ایک دوسرے پہ اثرانداز ہوتی ہیں۔ جنگیں جیت کر ہار دی جاتی ہیں اور ہار کے جیت لی جاتی ہیں۔آخری انحصار ہمت اور عزمِ مسلسل پہ ہوتا ہے۔
کسی نہ کسی سمت مسافر کو چلتے رہنا ہوتا ہے۔ اقبالؔ کی ایک نظم میں‘ ستاروں سے مخاطب ہو کر مہتاب یہ کہتا ہے ؎
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا چلنا‘ مدام چلنا
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
قبائل میں کم از کم بلدیاتی الیکشن کا اعلان تو وزیراعظم کوفوراًہی کر دینا چاہیے تھا۔ 1947ء سے 1951ء تک قبائلی علاقوں کو صوبے میں ضم کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ قائداعظمؒ کی یہ طے شدہ پالیسی تھی۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد یہ عمل روک دیا گیا۔ تاریخ اور دریا کو مگر کون روک سکتا ہے۔
رکے ہوئے ہیں جو دریا انہیں رکے نہ سمجھ
کلیجہ چیر کے نکلیں گے‘ کوہساروں کا
پتھر کا جگر چیر کے‘ جیسے کوئی جھرنا پھوٹے۔ وزیر اعظم کے لیے سیدھی اور صاف راہ یہ ہے کہ انصاف سے فیصلہ کریں۔ محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کوئی اثاثہ نہیں۔ پالیسیوں پر اختلاف ہے تو حکومت سے انہیں الگ ہو جانا چاہیے۔ تاریخ ساز مارگریٹ تھیچر سے لے کر‘ جعل ساز ٹونی بلیئر تک ‘ برطانیہ کے کتنے ہی وزراء ِاعظم کو ان کی جماعتوں نے چلتا کیا۔ جمہوریت اسی کا نام ہے۔ ہماری جمہوریت مختلف ہے۔ حکمران دیوتا ہے اور پارٹی ممبر اس کے پجاری۔ اب یہ اس کے مفاد‘موڈ اور مزاج پر ہے کہ کب کیا فیصلہ کرے۔
آدمی کی افتاد طبع ہی اس کی تقدیر ہے اورخود کو لیڈروں پر چھوڑ دینے والی قوموں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ چوپائے نہیں کہ ہانکے جائیں‘ ہم آدمی ہیں۔ آدمی‘ جو آزاد پیدا کیا گیا۔