۔۔۔اور قرآن کریم یہ کہتا ہے: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیںبلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔
شکر ہے کہ لاہور کا میچ بخوبی انجام پایا۔ وزیراعلیٰ اور پنجاب پولیس سے لے کر افواج پاکستان تک‘ سبھی نے مثبت کردار ادا کیا۔ سب سے بڑھ کر عام آدمی نے‘خوف زدہ ہونے سے جس نے انکار کر دیا۔ وزیراعلیٰ تحسین کے مستحق ہیں‘ سپہ سالار‘ رینجرز پنجاب کے سربراہ‘ آئی جی پولیس اور اس تقریب کے مدار المہام نجم سیٹھی بھی۔ دن رات انہوں نے کام کیا۔خفیہ ایجنسیوں کے طفیل، غیر ملکی کھلاڑیوں کے ویزے جاری کرنے میں تاخیر ہوئی ۔سیٹھی نے کہا : یاد دہانی کراتے میں تھک گیا‘ عملاً میری کمر ٹوٹ گئی ؛ اگرچہ یہ بھی کہا کہ ایجنسیوں کواپنا اندازِ کار ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ میڈیا کی پرجوش تائید انہیں حاصل رہی۔ جشن منانے کا انہیں حق ہے۔ آسٹریلیا‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ انگلینڈ اور عالمی کرکٹ کونسل کے نمائندے‘ لاہور کے میچ میں موجود رہے۔ اس طرح بین الاقوامی کرکٹ کا دروازہ کھلنے کا ایک ذرا سا امکان پیدا ہوا ہے۔ ہر چیز خوش آئند ہے‘ مگر وہ ایک بات! ؎
ظفرؔ آدمی اسے نہ جانیے‘ ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
آدمی کامیابی کے جوش میں کھلتا ہے یا ناکامی کے ملال میں۔ میچ ابھی تمام نہ ہوا تھا کہ اختلاف رکھنے والوں کی مذمت کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔کمال بے رحمی اور بے دردی سے۔
ارشاد ہوا ، وہ لوگ پاکستان کے دشمن ہیں‘ تقریب کے لیے حالات جن کو ناسازگار نظر آئے۔ پاکستانی عوام کو وہ خوش نہیں دیکھ سکتے۔ عمران خان کی تمنا ہو گی کہ بم پھٹے‘ بے گناہوں کے چیتھڑے اڑیں تاکہ ان کا موقف سچا ثابت ہو جائے۔ عمران خان امن اور میچ کے کامران ہونے کی دعا مانگ رہے تھے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں‘ انہوں نے اس کا اظہار کیا۔ سٹیڈیم میں‘ سب سے بڑی تعداد ان کے حامیوں کی تھی۔ یہ اس وقت معلوم ہوا جب نجم سیٹھی نے شہبازشریف کو واحد محسن ثابت کرنا چاہا‘ تب میدان ''گو نواز گو‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اس پر ان کے ایک دفتری رفیق نے فیس بک پہ لکھا : ناظرین کو سیٹھی نے اکسایا ہے۔ میرا خیال ہے ،ذمہ داری کا زیادہ بوجھ چونکہ وزیراعلیٰ پہ تھا، فیصلہ انہی کو صادر کرنا اور مختلف اداروں کو مربوط کرنا تھا ؛ چنانچہ داد کے وہ مستحق تھے۔
بدگمانی اور خرابی شاید اس لئے پیدا ہوئی کہ 500 روپے کے زیادہ تر ٹکٹ نون لیگ والوں کو دے دیئے گئے کہ اپنے حامیوں کو بانٹیں۔لازم نہیں کہ نون لیگ کا ہر حامی کرکٹ کا رسیا ہو‘ فراغت رکھتا ہو اور پانچ سات گھنٹے سٹیڈیم میں صرف کرنے کی توفیق بھی۔ شاید اسی لئے نون لیگ کے لوگ کم نظر آئے‘ تحریک انصاف کے زیادہ۔ یوں بھی کرکٹ سے ان کی دلچسپی زیادہ ہے۔ جہاں کرکٹ ہوگی وہاں کپتان ہوگا۔اس کے حامی ہوں گے۔وہ اس کھیل کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا سب سے کامیاب کپتان ہے ۔مصباح الحق کی نجابت میں کلام ہے اور نہ کامیابی میں ۔عمران سے اس کا موازنہ مگر ریحام ہی کر سکتی ہیں ۔ میڈیا کو تحقیق کرنی چاہیے کہ کیا طالبات اور خصوصی شہریوں کے ٹکٹ بھی‘ نون لیگ والوں میں بانٹے گئے ؟
پروپیگنڈے میں نون لیگ کا ہاتھ بالا ہے۔ اخبار نویسوں کی ایک فوج ظفر موج وہ رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ آخرکار سٹیڈیم میں وہ ہار گئے۔ نعرہ بازی سے پی ٹی آئی والے شاد ہوئے، شریف خاندان کے سبھی مخالف۔ غیر ملکیوں کے سامنے‘ ایک ایسے میچ میں‘ ٹی وی چینلوں پر ساری دنیا‘ جسے دیکھ رہی تھی‘نوبت یہاں تک نہ پہنچتی تو اچھا ہوتا۔
حالات واقعی ناسازگار تھے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹر کے غیر ملکی کھلاڑی یہی سمجھتے تھے۔ اسی لئے لاہور آنے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ برطانوی کھلاڑی بالخصوص‘ جو اپنے خاندانوں اور اپنی حکومت کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔
فیصلہ درست تھا۔ دہشت گردوں سے واقعی خوف زدہ نہ ہونا چاہیے تھا۔پھر یہ کہ کمال جوش و جذبے کے ساتھ خلق خدا آرزو مند تھی؛ باایں ہمہ عمران خاں اور دوسروں کے تحفظات بے بنیاد تو نہ تھے۔ 200 خصوصی حفاظتی دروازے‘ 16عدد ایکسرے مشینیں۔ بموں کو ناکارہ بنانے کے 800ماہرین،1000سراغ رساں کتے، ان کے 1200نگران۔ آٹھ اضلاع سے تعلق رکھنے والے پنجاب پولیس کے 15000جوان اور افسر۔ رینجرز ان کے سوا۔ آدھا شہر بند پڑا تھا۔ افواج سمیت تمام اداروں کی ساری توانائی اس پہ کھپ گئی۔ میچ کیا اس طرح ہوا کرتے ہیں ؟ آئے دن تو بہرحال نہیں ہو سکتے ۔اسلام آباد میں علاقائی ممالک کی کانفرنس کے لیے کہیں کم انتظامات کرنا پڑے۔
حکمرانوں کو ادراک نہیں۔ ہے تو پروا نہیں کہ کسی بھی معاشرے کو سب سے بڑھ کر امن درکار ہوتاہے ۔ تعلیم اور معیشت کا فروغ‘ اس کے بل پر آزاد خارجہ پالیسی اور آزادی کی تکمیل‘ ان تمام کا انحصار اسی پر ہوتا ہے۔اس کے لیے اچھی پولیس ، بروقت فیصلہ کرنے والی عدالتیں ہواکرتی ہیں۔ پولیس میں سب سے اہم ملزم پکڑنے ،مقدمہ درج کرنے والے نہیں بلکہ تفتیش کرنے والے ہوتے ہیں ۔ جرم کا سدباب تب ہوتا ہے‘ مجرم کو جب پکڑے جانے کا خوف لاحق ہو۔ امریکہ میں سمندری طوفانوں کے ہنگام خواتین عارضی غسل خانوں کا رخ کرتے ہوئے ڈرتی تھیں۔نیو یارک میں بجلی بند ہوئی تو ایک بڑھیا نے تصویر چرائی اور بھاگ نکلی۔ کسی نے کہا : معزز خاتون، آپ کے بارے میں تو سان گمان تک میں یہ نہ تھا ۔ بولی: اس سے پہلے کبھی موقع ہی نہ ملاتھا۔ پاکستان اور مغرب کی پولیس کو ملحوظ رکھا جائے تو پاکستانی معاشرہ‘امریکہ اور یورپ سے بہتر ہے ۔ ہالی وڈ کی وہ فلمیںلوگوں کو بھولی نہیں‘ انیسویں صدی اور بیسیویں صدی کے اوائل کا امریکہ‘ جن میں دکھایا گیا۔ غنڈوں اور قاتلوں کی حکمرانی، Wild West۔ تاریخ کے سفاک ترین لٹیروں میں سے ایک، الکپون امریکہ میں پیدا ہوا تھا‘ مشرق میں نہیں۔
سالِ گزشتہ اسلام آباد میں ایک پلاٹ پر قبضہ ہوا۔ پولیس اور سی ڈی اے داد رسی نہ کر سکی۔ پشاور میں طالبان کے ایک لیڈر نے دو لاکھ روپے لے کر انصاف فراہم کر دیا۔ پولیس بدحال کیوں ہے؟ ظاہر ہے کہ حکمرانوں کے طفیل۔ بدترین سندھ میں ہے‘ پنجاب پولیس بھی کم و پیش ویسی ہی ‘ بلوچستان لیویز یعنی قبائلی سرداروں کے رحم و کرم پر۔ صرف پختون خوا میں اسے بہتر بنانے کی سنجیدہ کوشش ہوئی۔ پنجاب میں ڈی ایس پی کا تقرر اوسطاً چار ماہ اور آئی جی کا دس ماہ کے لیے رہتا ہے۔ نچلے عملے کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔
لکھتے لکھتے ہم لوگ تھک گئے۔ سیاسی پارٹیاں جاگتی ہیں اورنہ ارکان اسمبلی۔ لیڈروں کا تو ذکر ہی کیا۔ وہ پولیس کو باندی بنائے رکھنا چاہتے کہ من مانی کرتے رہیں۔ ان کے نزدیک کار حکمرانی کا مطلب یہی ہے ،من مانی ؎
حالِ دل لکھوں کب تک، جائوں ان کو دکھلائوں
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا
وزیر اعظم نے فرمایا: چار سال میں‘ امن ہم نے لوٹا دیا۔ کاش کہ یہ درست ہوتا۔ قبائلی پٹی‘ کراچی اور بلوچستان میں یہ جنگ فو ج نے لڑی ہے۔ اب پنجاب میں بھی وہی برسرِکار ہے۔ سول حکومت تو چھوٹو گینگ سے ہار گئی تھی۔ نیشنل ایکشن پلان وہ نافذ نہ کر سکی۔ خفیہ ایجنسیوں میں تال میل نہیں۔ نیکٹا کو چار سو ملازم درکار ہیں‘ صرف ایک سو فراہم ہوئے۔ ڈھنگ کا کوئی آدمی اس کا سربراہ نہ بنایا گیا۔
کام فوج کرے گی تو داد سول حکومت کے حصے میں کیسے آئے گی؟ دکھ بھریں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں۔ سیاچن گلیشیر کا برف زار‘ قبائل کے کوہستان‘ کراچی کی گلیاں اور بلوچستان کے صحرا‘ فوجیوں کے لہو سے لالہ زار ہیں۔ وزراء اعلیٰ اور گورنر محلات میں آسودہ ہیں۔ وزیر اعظم کے غسل خانے پر اڑھائی کروڑ روپے لٹ گئے۔
کرکٹ کا میچ بے شک کامیاب رہا۔ شاباش‘ اس پر شاباش ۔ مگر آپ نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ تمام زخم اس سے مندمل ہو جائیں گے۔ سب محرومیاں تمام ہوں گی۔ سب بھوکے پیٹ بھر جائیں گے ۔ہر بیمار کو شفا ہو گی۔ یہ تو پتھر دلی ہے‘ معاف کیجیے گا پتھر دلی۔
۔۔۔۔اور قرآن کریم یہ کہتا ہے: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیںبلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔