اصل نکتہ اور ہے‘ پانامہ کیس کا فیصلہ صادر ہونے والا ہے‘ کچھ بھی ہو‘ مضمرات اس کے بہت ہی گہرے ہوں گے۔ سیاست شاید ایک نیا موڑ مڑنے والی ہے‘ ایک فیصلہ کن موڑ۔
جمعہ کی شام لاہور میں جہانگیر ترین سے ملاقات طے تھی۔ آٹھ بجے فون کیا تو بتایا کہ اب اسلام آباد کا قصد ہے۔ شب ساڑھے گیارہ بجے بات ہوئی تو معمول کے برعکس وہ ترنگ میں تھے۔ کہا: ہم سے تعلقات اچھے رکھو۔ محسوس ہوا کہ سوکھے دھانوں پر پانی پڑا۔ سپہ سالار سے کپتان کی ملاقات کے بارے میں پوچھا تو لہجے میں اعتماد کی جھلک تھی۔ حماقت دیکھیے‘ پوچھا ہی نہیں کہ کیا وہ شریک تھا۔ صبح کا اخبار اٹھایا تو علم ہوا۔ بات سمجھ میں آنے لگی۔
ترین صاحب سے پوچھنا یہ تھا کہ شہباز شریف ان سے اس قدر کیوں چڑتے ہیں۔ علاقے میں 21 ارب روپے سے جی ٹی روڈ کو بہتر بنانے کے علاوہ ‘ ان کے حلقہ انتخاب میں چار ارب روپے خرچ کرنے کا اعلان کیا۔ جہانگیر ہنسے اور کہا: انہیں غم لگا ہے کہ کبھی میں ان کے ساتھ تھا۔ پھر ایک قہقہہ برسایا اور بولے: باقی تفصیلات پھر کسی وقت۔ یہ معمول کے جہانگیر ترین نہ تھے۔
ایک بات طے ہے کہ سہ پہر تک یا تو ملاقات کا وقت طے نہ ہوا تھا یا جہانگیر کی شرکت کا فیصلہ نہ ہوا تھا۔
دس بارہ دن ادھر کی بات ہے کہ کپتان سے ملنے گیا۔ دوسری چیزوں کے علاوہ‘ یہ عرض کیا کہ فوج سے تعلقات کارچاہئیں۔ قدرے مزاحیہ انداز میں بولے: کیا چیف کی میں تعریف کروں۔ گزارش کی: بات کو مذاق میں مت ڈالیے‘ یہ بہت سنجیدہ موضوع ہے۔ الیکشن جیتنا ہے تو مستقل طور پر اپوزیشن لیڈر دکھائی دینے کی بجائے‘ آپ کا انداز حکمران کا چاہیے‘ ایک ذمہ دار آدمی کا۔ عرب ممالک‘ چین اور ترکی سمیت تمام دوست ممالک سے رہ و رسم۔ انکل سام کے خلاف تقاریر سے کچھ حاصل نہیں۔ دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے مگر فائدہ کیا۔ استعمار سے چھٹکارا پانے کے لیے اقتصادی خود مختاری چاہیے۔ کشکول والے کی کون سنتا ہے۔ کاروباری طبقات کو امید ہونی چاہیے کہ فلاں پارٹی اقتدار میں آئے گی تو کاروبار کے لیے‘ حالات زیادہ سازگار ہوں گے۔ فوج فکرمند رہتی ہے کہ سیاسی پارٹیاں‘ قومی سلامتی سے متعلق موضوعات‘ افغانستان‘ بھارت اور امریکہ سے مراسم پر حساس نہیں۔ آزادی کی ایسی ولولہ انگیز تحریک کشمیر میں اٹھی ہے‘ اس سلسلے میں آپ نے کیا کیا۔ ''میں نے اس کے حق میں بیانات جاری کیے‘‘ اس نے کہا۔ عرض کیا: یہی تو خرابی ہے‘ آپ سمجھتے ہیں کہ بیان داغ کر‘ فرض آپ نے پورا کر دیا۔ کشمیر پر واضح‘ پالیسی آپ کو اختیار کرنی چاہیے۔ ایک سیمینار تک آپ نے کیا نہیں۔ کچھ ورکنگ گروپ آپ کو بنانا چاہئیں‘ دہشت گردی‘ عدلیہ‘ پولیس‘ زراعت‘ ریلوے‘ پی آئی اے‘ سٹیل مل‘ توانائی‘ سول سروس‘ خارجہ پالیسی وغیرہ وغیرہ۔ ٹیکس وصولی پر شور غوغا کی ضرورت نہیں۔ زیادہ وصولی ممکن ہے‘ کاروبار اگر فروغ پائے اور ٹیکس افسر معقول روّیہ اختیار کریں۔
کپتان اب متوجہ ہوا اور کہا: ان چیزوں پر اپنی رائے سے آپ آگاہ کیا کریں۔ عر ض کیا: حضور! آپ پوچھیں تو گزارش کروں۔
ملک دہشت گردی سے دوچار ہے۔ اس سے نبرد آزما عسکری قیادت کو‘ اس باب میں تمام سیاسی لیڈروں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ پختون خوا میں عمران خاں برسر اقتدار ہیں۔ صوبے کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ اسے تو یہ چاہیے کہ براہ راست کابل انتظامیہ سے بھی روابط رکھے۔ امن کے حصول میں وفاقی حکومت کی مدد کرے اور جب ضروری ہو تو عسکری قیادت سے رابطہ بھی۔ جی ہاں‘ وفاقی حکومت کی مدد بھی‘ صرف اسی کو نہیں‘ سبھی پارٹیوں کو۔ اختلاف اپنی جگہ مگر اولین ترجیح قومی مفاد کی ہوتی ہے۔
اثاثہ بنانے کا خواب تھا‘ افغانستان دردِ سر ہو گیا۔ بھارت نے وہاں ڈیرے جما رکھے ہیں۔ بھارت سمیت دنیا کے سبھی ملکوں میں سیاسی پارٹیاں لڑتی جھگڑتی ہیں۔ مگر خارجہ پالیسی اور قومی دفاع پر اتفاق رائے لازماً درکار ہوتا ہے۔ ہماری سیاست عجیب ہے کہ قومی دفاع فقط فوج کی ذمہ داری ہے؛ چنانچہ خارجہ پالیسی میں وہ دخل دیتی ہے۔ اندھوں اور احمقوں کی بات دوسری ہے۔ فوج کی غیر ضروری مداخلت روکنے میں‘ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ سیاستدان یہ ذمہ داری سنبھالیں۔ دشمن ممالک کے باب میں اگر وہ لاتعلق رہیں یا دوستی کی پینگیں بڑھائیں گے تو کیا ہو گا؟
آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں کہا گیا: ترقی اور سپہ سالار کی حیثیت سے تقرری پر‘ عمران خاں نے جنرل کو مبارک باد دی۔ ظاہر ہے کہ اس کارِ عظیم کے لیے‘ ملاقات نہ ہوئی۔ پارٹی کے ترجمان نعیم الحق نے کہا: قومی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ ظاہر ہے کہ دہشت گردی پر‘ افغانستان‘ بلوچستان‘ کراچی‘ کشمیر‘ بھارت اور امریکہ سے مراسم پر۔ عمران خاں کا دردِ سر یہ ہے کہ آئندہ الیکشن شفاف ہوں۔ پانامہ کا فیصلہ اگر شریف خاندان کے خلاف ہوا تو الیکشن کا فوری انعقاد بھی ممکن ہے۔ نون لیگ دھاندلی کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہے۔ لاہور کے حلقہ این اے 122 سے ایاز صادق اسی طرح جیتے۔ عدالت نے چلتا کیا تو ضمنی انتخاب میں مختلف علاقوں سے بیس ہزار ووٹ اس حلقے میں لا ڈالے گئے۔ نظام ایسا غیر موثر ہے کہ آئندہ الیکشن سر پہ آ پہنچا اور سپیکر صاحب کرسی پہ براجمان ہیں۔ دنیا کا کوئی دوسرا ملک ہوتا تو اس آدمی کو اب تک سزا مل چکی ہوتی۔
ممکن ہی نہیں کہ عمران خان نے چیف آف آرمی سٹاف سے آئندہ انتخاب میں دھاندلی کے اندیشے پر بات نہ کی ہو۔ سامنے کی بات ہے کہ انتخاب کے منصفانہ انعقاد کا انحصار فوج پر ہوتا ہے۔ نگران حکومت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ جنرل کیانی نے 2008ء کے الیکشن کو منصفانہ بنانے کا تہیہ کیا تو کر گزرے۔ 2013ء میں وہ لاتعلق ہو گئے تو خرابی ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اس سلسلے میں کہانیاں تراشی جا رہی ہیں۔ اس انتخاب میںکیانی ہرگز ایک فریق نہ تھے۔ افسانہ نگار اپنی عادت سے مجبور ہیں ؎
سنتا ہوں بڑے شوق سے افسانۂ ہستی
کچھ اصل ہے‘ کچھ خواب ہے‘ کچھ حسن بِیاں ہے
2013ء میں دھاندلی ضرور ہوئی۔ سبھی سیاسی پارٹیاں یہ کہتی ہیں۔ سبھی نے اس قدر من مانی کی‘ جتنی ممکن تھی۔ کراچی میں در حقیقت الیکشن ہوئے ہی نہیں۔ دیہی سندھ میں پولیس زرداری صاحب کے رحم و کرم پر تھی۔ جیسا کہ نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی تسلیم کرتے ہیں‘ پنجاب میں افسر شاہی رائے ونڈ کی طرف دیکھتی تھی۔ نون لیگ نے اساتذہ‘ پٹواریوں اور یونین کونسلوں کے عملے کو ڈٹ کر استعمال کیا۔ سب سے بڑھ کر پولیس اور الیکشن کے عملے کو۔ دھاندلی کے بغیر بھی وہ جیت جاتی۔ مگر قاف لیگ اور تحریک انصاف کی کچھ سیٹیں وہ ہڑپ کر گئی۔ نگران وزرائے اعلیٰ اور الیکشن کمیشن کے ارکان کا انتخاب ساز باز سے ہوا تھا۔
فوج اگر تہیہ کر لیتی تو دھاندلی برائے نام ہی رہ جاتی۔ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں‘ انتخاب کے بعد‘ جنرل کیانی سے اس موضوع پر میں نے بات کی۔ انہوں نے کہا: الیکشن کمیشن نے فوجی افسر مانگے تو میں نے پوچھا: اگر دھاندلی ہو تو کیا ہمارے افسر کو پولنگ روکنے کا اختیار ہو گا۔ بوڑھے فخرالدین جی ابراہیم کراچی میں بستر پہ پڑے تھے۔ جسٹس کیانی نے کہا: جی نہیں‘ ہم نہیں دے سکتے۔ جنرل نے کہا: جب اختیار ہی نہ تھا تو میں ذمہ داری کیوں اٹھاتا؟ فوج کا منہ کالا کیوں کرتا؟ سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود کیانی پر تنقید کیوں ہے؟ اس لیے اکثر لوگ جانتے ہی نہیں۔ کچھ کا معاملہ یہ ہے کہ شریف آدمی کو کبھی معاف نہیں کرتے۔ بعض اخبار نویس ان سے ناراض ہیں کہ آئی ایس پی آر کی بریفنگ میں بلائے نہ جاتے تھے۔
میری معلومات کے مطابق فوجی قیادت نے تہیہ کر رکھا ہے کہ آئندہ الیکشن شفاف ہوں گے۔ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کو اس کی یقین دہانی کرائی ہو گی۔
اصل نکتہ اور ہے‘ پانامہ کیس کا فیصلہ صادر ہونے والا ہے‘ کچھ بھی ہو‘ مضمرات اس کے بہت ہی گہرے ہوں گے۔ سیاست شاید ایک نیا موڑ مڑنے والی ہے‘ ایک فیصلہ کن موڑ۔