"HRC" (space) message & send to 7575

تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے

پاگل پہ کوئی حکم تو لگایا نہیں جا سکتا اور اقتدار کی بے قابو تمنا سے بڑھ کر دیوانگی پیدا کرنے والی چیز اور کیا ہے؟
بوکھلائے ہوئے‘ شاید یہ اقتدار کے بھوکوں کی جنگ ہے‘ جن کا آخری وقت غالباً قریب آ گیا ہے۔ اپنے کارکنوں کو زرداری صاحب نے بتایا ہے کہ'' ایک بار پھر وہ اپنا وزیر اعظم بنا کر دکھائیں گے‘‘۔ اسی طرح‘ جیسے اکثریت حاصل نہ ہونے کے باوجود‘ رضا ربانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنوانے میں کامیاب رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن‘ دیو بند کانفرنس کی تیاریوں میں جُتے ہیں۔ عمران خاں الیکشن کمیشن سے اور الیکشن کمیشن عمران خان سے الجھ رہا ہے۔ میاں شہباز شریف کا ایک اور اعلان اخبارات میں جگمگا رہا ہے۔ معلوم نہیں اب کی بار انہوں نے کس چیز کو برداشت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نو برس سے ہمیں وہ بتا رہے ہیں کہ فرسودہ تھانہ کلچر کی وہ تاب نہیں لاسکتے‘ خونخوار پٹوار اور ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ بدسلوکی پہ ان کا خون کھولتا ہے۔ جی ہاں خوب یاد آیا : تازہ ارشاد ان کا یہ ہے کہ کسانوں کے ساتھ زیادتی کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی‘ کسی قیمت پر نہیں۔
یہ سالِ گزشتہ کا واقعہ ہے اوریا مقبول جان سرکار سے ابھی وابستہ تھے‘ صوبائی سیکرٹری کے عہدے پہ براجمان ۔اپریل کے اوائل میں ان سے عرض کیا کہ گندم کی فصل پکنے والی ہے۔دو اڑھائی سو بوریوں کی ضرورت ہو گی۔'' بس دو اڑھائی سو بوریاں؟‘‘ اوریا نے کہا: فکر مند کیوں ہوتے ہیں؟ گندم کی فصل کٹ گئی ۔ منمناتی آواز میں منظور نے کہا ''سر جی بوریاں نہیں مل سکیں‘‘۔ اوریا کو میں نے یاد دلایا۔'' فکر کیوں کرتے ہو‘ فلاں افسر سے میں نے کہہ دیا ہے‘‘۔ گندم کے ڈھیر کھلیان میں پڑے رہے۔ منظور کی آواز میں اندیشہ تھا ۔ بوریاں تو دور کی بات ہے‘ اس افسر کی زیارت بھی نصیب نہ ہو سکی۔ ہر تیسرے چوتھے دن اوریا کو فون کرتا اور سہیل صاحب کو یاد کرتا رہا‘ سال گزشتہ ازراہ کرم جنہوںنے بندوبست کر دیا تھا۔ خیر خواہی میں اوریا بھی ہیٹا نہیں‘ سہیل صاحب زیادہ بڑے افسر تھے‘ زیادہ ہنر مند بھی۔ اب مگر وہ گوشہ نشیں تھے۔
اپریل تمام ہوا‘ مئی کا پورا مہینہ بیت گیا۔ خلاف معمول ‘ جون میں بادل گھر کر آئے ‘ بوندا باندی ہونے لگی۔ منظور خوف زدہ تھا۔ ایک بار پھر اوریا سے رابطہ کیا۔ محکمہ زراعت کے افسر نے ایک بار پھر ٹرخا دیا۔ اسی شام پانچ سو من گندم اونے پونے اس نے بیچ دی۔
گندم کا سرکاری نرخ 1300روپے فی من ہے۔ بجلی گراں ہے اور کھاد چور بازار میں دستیاب ۔ بیج کے بارے میں یقین سے کہا نہیں جا سکتا کہ خالص یا ناخالص۔ اس پہ باردانے کا بحران۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ ساری دنیا میں یہ کاروباری دنیا کے سپرد ہے۔ خادم پنجاب کو ہوکا یہ ہے کہ ہر اہم اور اجتماعی کام ان کی منشا سے‘ ان کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔ پٹوار کو انہوں نے ہموار کر دیا۔ اہلِ حاجت پہ تھانے سبک ہو گئے۔ ہسپتال میں دوائی ہر مریض کو دستیاب ہے ۔ اللہ رحم کرے ‘اب کاشتکاروں کی بہبود کا عَلم انہوں نے اٹھایا ہے۔
عین انتخابات کے ہنگام‘ حضرت مولانا فضل الرحمن کو دیو بند کی کیا سوجھی ہے؟ یہ ان کا حلقۂ انتخاب ہے۔ پندرہ برس ہوتے ہیں جب پشاور میں دیو بند کی صد سالہ سالگرہ پہ‘ ایک عظیم جشن کا اہتمام انہوں نے کیا تھا۔ ایک بار پھر وہی تقریب ہے‘ ڈیڑھ عشرہ گزر جانے کے باوجود ‘ وہی صد سالہ ۔ عمران خان پشاور سے لوٹ کر آئے تو حیرت زدہ تھے۔ کہا کہ حدِ نظر تک آدم زاد ہی آدم زاد۔ لہراتے ہوئے عمامے اور پرچم۔ عرض کیا: جمعیت علماء اسلام نہیں‘ یہ کچھ اور ہے۔ دس ہزار دیو بندی مدارس کے طلبہ‘ تبلیغی جماعت‘ سپاہِ صحابہ وغیرہ وغیرہ۔ جیسا کہ مولانا فضل الرحمن خود اعتراف کرتے ہیں ‘دیو بند اصل میں ایک سیاسی تحریک ہے۔ ہماری تاریخ میں اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی سے متاثر یہ رحیمیہ سکول کی روداد ہے۔ شاہ عبدالرحیم شاہ ولی اللہ‘ سید احمد شہید‘ سید اسمٰعیل شاہ‘ حضرت مولانا قاسم نانوتوی‘ اسیرِ مالٹا شیخ محمودالحسن‘ حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری اور تحریکِ پاکستان کے سامنے ایک پہاڑکی طرح ڈٹ کر کھڑے ہوئے‘ حضرت مولانا حسین احمد مدنی۔ یوں تو سبھی مذہبی فرقے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں‘ مگر دیو بند نمک کی ایک کان ہے‘ جس میں سب کچھ نمک ہو جاتا ہے۔ بالواسطہ ہی سہی تحریکِ پاکستان کے جید رہنما مفتی محمد شفیع کے فرزند بھی اس رنگ میں رنگے جا چکے۔ بنگلہ دیش کے ایک رپورتاژ میں مولانا محمد تقی عثمانی نے لکھا: سلہٹ کی سرزمین سے نور پھوٹتا ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی کے قدموں نے اسے چھو لیا تھا۔ مولانا محمد تقی کے زہدو تقویٰ کا چرچا بہت ہے۔ اسلامی بینکاری کے وہ سرٹیفکیٹ جاری کیا کرتے ہیں خلق کی بہبود کے لیے۔ چند لاکھ روپے فیس تو دل رکھنے کے لیے وصول کرتے ہیں۔ 
دل بدست آور کہ حجِ اکبر است
مولانا فضل الرحمن کے قدموں سے بھی نور پھوٹتا ہے۔ اگر نہیں تو چند برس‘ چند عشرے بعد پھوٹنے لگے گا۔ اللہ انہیں جیتا رکھے۔ آج نہیں تو دنیا سے ان کے رخصت ہو جانے کے بعد‘ جس طرح‘ ان کے گرامی قدر والد‘ مولانا مفتی محمودرحمتہ اللہ علیہ کی یادوں سے۔ یہ الگ بات کہ حیات مبارکہ میں ان کی شہرت کم و بیش وہی تھی‘ جو ان کے نیک نہاد فرزند کی۔
زرداری صاحب کا منصوبہ آشکار ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا۔ سندھ سے چالیس پچاس نشستیں ۔ ممکن ہو تو کچھ کراچی شہر سے بھی۔ پنجاب سے فیصل صالح ایسے بیس پچیس امیدوار جیت سکے تو آزاد امیدواروں کی خریداری یا پی ٹی آئی سے مل کر‘ اسلام آباد میں حکومت کی تشکیل۔ عمران خان رسی تڑا کر بھاگ نکلے ہیں۔ زرداری صاحب اس کے باوجود امید سے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مشکل وقت آ پڑا تو کپتان‘ شریف خاندان کی بجائے‘ انہی کو گوارا کرے گا۔
عمران خان کی خوش فہمی یہ ہے کہ طوفان اب کی بار ضرور اٹھے گا۔ صف بندی پہ وہ یقین نہیں رکھتے۔ تنظیم اور انتخابی تیاریوں پہ۔ اساطیری شاعر غنی کاشمیری کی طرح خیال ان کا یہ ہے کہ اس گھر کا سرمایہ وہی ہیں۔ خلقِ خدا کو اگر وہ بے تاب کر سکے‘ آمادۂ انقلاب کر سکے تو خس و خاشاک کی مانند ‘ ان کے حریف طوفانی پانیوں میں بہہ جائیں گے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور الیکشن کمیشن کے خلاف محاذ آرائی سے کیا حاصل؟ جنرل کے باب میں تو خیر انہوں نے وضاحت کر دی۔ جیسا کہ ہر حماقت کے بعد اکثر کیا کرتے ہیں۔ امید ہے کہ آخر کار الیکشن کمیشن سے بھی مصالحت کر لیں گے ۔فارسی میں کہتے ہیں: ہر چہ دانا کنند کنند ناداں لیک بعداز خرابیٔ بسیار۔نادان بھی وہی کرتے ہیں‘ جو دانا لوگ کیا کرتے ہیں لیکن خرابی کے بعد‘ جھیل چکنے کے بعد۔
پیچھے ہٹنے کے لیے فوج تیار ہے۔ اقتدار کے مہ وسال نے بدنامی کے سوا کچھ نہ دیا۔ اب وہ عافیت کی تلاش میں ہے۔ تالی مگر دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اقتدار کے بھوکے پاگل پن پہ تلے رہے تو کون جانتا ہے کہ کیا ہو گا۔ کون جانے‘ ان کا آخری وقت شاید قریب آ لگا ہو۔
پاگل پہ کوئی حکم تو لگایا نہیں جا سکتا اور اقتدار کی بے قابو تمنا سے بڑھ کر دیوانگی پیدا کرنے والی چیز اور کیا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں