"HRC" (space) message & send to 7575

فساد یا فیصلہ؟

فیصلہ سیاستدانوں کو کرنا چاہیے۔ فوج نے کیا تو سر پہ ہاتھ رکھ کر وہ روئیں گے اور شاید بعدازاں فوج بھی۔ ہمارا دشمن یہی چاہتا ہے‘ قوم کیا چاہتی ہے؟ فساد یا فیصلہ؟
ڈان لیکس کے قصّے کو اب تمام سمجھیے۔ ختم ہو کر بھی ختم حالانکہ نہ ہو گا۔ این جی اوز کے کارندے‘ نثر نگاری کے جوہر انگریزی اخبارات میں دکھاتے ہیں۔ ان کے طرزِ عمل کا خلاصہ‘ ایک جملے میں یوں ہے'' مغرب اور بھارت کو پاکستان کے نقطہ نظر سے نہیں‘ پاکستان اور یا للعجب بھارت کو بھی وہ مغرب کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں‘‘۔ ایک ایسے نام نہاد اخبار نویس کو ٗ سویڈن‘ برطانیہ یا امریکہ کے کسی خیراتی ادارے سے نقد داد جوپاتاہے ، اخبار میں انشا پردازی کاحق صرف اسی ملک میں مل سکتا ہے۔ منہ پھاڑ کرایک آدمی کہتا ہے: اول روز سے مسلمان علم دشمن ہیں۔ سکندریہ کی لائبریری انہوں نے جلا دی تھی۔ ایک صدی پہلے اُٹھنے والی اس بحث کو شبلی نعمانی نے نمٹا دیا تھا۔ ثابت کر دیا تھا کہ یہ ایک متعصب پادری کی گھڑی داستان ہے۔ نشان دہی کے باوجود ذرا سی شرمندگی اسے نہ ہوئی۔ 
ایک بڑی این جی او چلانے والی منہ پھٹ خاتون‘ ٹی وی پہ نمودار ہوتی ہے اور یہ کہتی ہے:مذہبی بنیاد پر ریاست کے وجود کا کوئی جواز نہیں۔ اسرائیل کے خلاف ایک لفظ کہنے کی وہ روادار نہیں۔ ایک انگریزی اخبار مستقل طور پر ایک نجات دہندہ کے طور پہ اسے پیش کرتا رہتا ہے۔ کسی کو شرم آتی ہے اور نہ کسی کا دل دکھتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی خان اور محمود اچکزئی کو تو الگ رکھیے۔ ایوانِ اقتدار میں براجمان ہو کر‘ جو پاکستان اور بھارت کے باب میں غیر جانبدار ہیں؟ انتہا تو یہ ہے کہ حُبّ وطن کے ٹھیکیدار بھی اس پہ چپ سادھے رکھتے ہیں۔ منہ میں گھنگنیاں ڈال کر وہ براجمان رہتے ہیں۔
پانچ برس ہوتے ہیں۔ ایک بہت بڑے پبلشر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ خبط ِعظمت جن پہ سوار رہتا ہے۔ مؤدبانہ عرض کیا: پاکستانی فوج پر تنقید میں ہرگز کوئی حرج نہیں۔ بعض اوقات تو یہ ضروری بھی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت‘ آئی ایس آئی کا کوئی اتھرا افسر جب ایک وفاقی وزیر کے خانساماں کو اٹھا لے جائے۔ اس سے فرمائش کرے کہ اپنے آقا کے خلاف وہ گواہی دے۔ سوجی آنکھوں کے ساتھ وہ وزیر چیف آف آرمی سٹاف کے دروازے پر دستک دے۔ اپنی کمزوریوں پر شرمندہ‘ اپنے جرائم سے خوف زدہ ‘ وہ التجا کرے : خدا کے لیے مجھ پر رحم کیجیے۔ فرشتوںپہ پاک فوج مشتمل نہیں۔ احتساب کا اس میں ایک نظام ہے۔ آسانی سے کرپشن نہیں جا سکتی مگر کی تو جاتی ہے‘ نسبتاً کم۔ افسر اگر پکڑا جائے تو بعض اوقات عبرت کی مثال بھی بنتا ہے‘ مگر ہمیشہ نہیں۔مگرمچھ فوج میں بھی پائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات بچ بھی نکلتے ہیں۔
مقدس گائے فوج کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا‘ مگر اس پہ تنقید پاکستانی عوام کے نقطہ نظر سے ہو گی‘ بھارت اور امریکہ کے نہیں۔ فیصلہ صادر کرنے والے ایک منتظم کی طرح‘ جو ہمیشہ ایک کم از کم اعتماد کا حامل ہوتا ہے‘ انہوں نے کہا: نام لیجیے۔ دوپاٹے خانوں کے نام میں نے لیے ۔ کہا ‘ ''کیا وہ روپیہ وصول کرتے ہیں؟‘‘۔ گزارش کی: آپ بہتر پوزیشن میں ہیں کہ تحقیقات کریں۔ میرا سوال دوسرا ہے: ہمیشہ ہی عسکری قیادت سے عناد کا مظاہرہ وہ کیوں کرتے ہیں؟ دہشت گردی سے جو نبردآزما ہے۔عالمی استعمار ہمہ وقت جس کیخلاف سازش میں لگا رہتا ہے۔ تنقید بر حق ، ایک مقدس حق۔ دنیا کے کس ملک میں سپاہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی اجازت اخبار نویسوں کو دی جاتی ہے۔؟
''آپ کو ہمارے اور عسکری قیادت کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہیے‘‘ انہوں نے کہا ۔ یہ انکار کی ساعت تھی ۔اخبار نویس کو اخبار نویس ہی رہنا چاہیے۔ کوئلوں کی دلالی کرنے والوں کا انجام ہمیشہ وہی ہوتا ہے‘ کالا منہ۔ قومی سلامتی کے باب میں صحافی کو کبھی صحافتی متعین حدود سے تجاوز بھی کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر جس طرح مریض کو کبھی Steroidبھی دیتا ہے۔ مگر کبھی کبھی‘ شاذو نادر ‘ برسوں میں ایک بار۔ اللہ اور اپنے ضمیر کو جواب دہی کا احساس برقرار رکھتے ہوئے۔
وزیراعظم کے سامنے جنرل قمر جاوید باجوہ نے‘ ڈان لیکس کا مقدمہ لڑا۔ ایک آدھ نہیں‘ کئی بار۔ پرویز رشید عسکری قیادت کے ایما پر ہی چلتے کیے گئے۔ ارادہ اگرچہ یہ تھا کہ بحال کر دیے جائیں گے۔ طارق فاطمی کے باب میں وزیر اعظم بہت حساس تھے۔ بار بار انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ میں‘ جو ایک جملہ ان کے بارے میں ہے‘ حذف کر دیا جائے۔ پہلے دن سے محترمہ مریم نواز کے بارے میں فیصلہ یہ تھا کہ ان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ خاندان کا احترام ملحوظ رکھا جائے گا۔
تحقیقات اس پر ہوئی کہ اہم ترین سرکاری شخصیات نے اس فوج کے خلاف خبر رکوانے کی کوشش کیوں نہ کی۔ تحقیقات کی بنیاد یہ کبھی نہ تھی کہ خبر جاری کس نے کی۔ ایک مرحلے پر سپہ سالار نے وزیر اعظم سے کہا: اپنے جوانوں سے میں زندگی کی نذر مانگتا ہوں۔ کس منہ سے ان کے پاس میں جائوں گا‘ قصور واروں کو اگر سزا نہ دی گئی۔
جنرل کا مخمصہ یہ ہے کہ سول ملٹری تصادم کو وہ روکنا چاہتا ہے۔ اس کا دردِ سر افغانستان کی سرحد ہے‘ جہاں اس نے باڑ لگانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس کی فکر مندی کا مرکز واشنگٹن ہے‘ جس کے بارے میں چین بھی پنڈی والوں سے اب یہ کہتا ہے:آپ کے خدشات اور آپ کا تجزیہ بالکل درست تھا۔
جہاں تک میں جانتا ہوں‘ پانامہ لیکس کے باب میں فریق بننے سے جنرل نے انکار کر دیا تھا۔ ''میری بلا سے‘‘ اس نے کہا تھا ''جو بھی فیصلہ آئے، میرا یہ کام نہیں ‘‘۔بالواسطہ ہر طرف سے رابطہ اس کے ساتھ کیا گیا تھا۔ فیصلہ ججوں نے خود صادر کیا۔ اپنی بصیرت ‘ اپنے فہم اور اپنی استعداد کے مطابق۔ کہانیوں میں اگر کوئی سچ ہے تو ایک دن منظر عام پہ آ جائے گا۔ بظاہر فقط یہ کہ بعض ججوں میں احتیاط کی حدود خوف سے جا ملیں۔ خریداری کے دعوے جھوٹ سمجھے جائیں گے ،ِلاّیہ کہ ٹھوس ثبوت سامنے آئے۔
ایک منظر کا تصور کیجیے۔ پانچ کے پانچ وزیر اعظم کے بارے میں وہی کہتے جو ایک محترم اور فاضل جج نے ارشاد کیا: مافیا چیف۔فرض کیجئے‘ دس ہزار افراد کا احتجاجی جلوس سے لے کر‘ میاں محمد نواز شریف راولپنڈی سے روانہ ہوتے ۔لاہور پہنچنے تک مظاہرین کی تعداد کیا ہوتی؟ اندازہ یہ ہے کہ اپریل کی قہر سامانی کے باوجود ‘دو لاکھ سے سات لاکھ۔ ایک ناچیز اخبار نویس کی خطا معاف ۔ملک اور بھی زیادہ غیر مستحکم ہو جاتا۔ ثابت یہ بھی ہوا ہے کہ سیاسی زندگی کے فیصلہ کن مراحل‘ محض عدالت میں طے نہیں کیے جا سکتے۔ خاص طور سے پاکستان ایسے ملک میں۔
چوٹ لگتی ہے تو اوّل اوّل خبرنہیں ہوتی‘ درد کچھ دیر میں جاگتا ہے۔ راولپنڈی کے قلب میں درداب جاگ اٹھا ہے۔ جمعرات کی شام ٹی وی کے معتبر پروگرام آپ نے دیکھے؟ فوجی قیادت سپریم کی طے کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم سے بیزار ہے۔ اس سے وہ رہائی چاہتی ہے۔ ممکن ہے کہ جنرل باجوہ ،اس بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان سے مؤدبانہ التجا بھی کریں۔ تضاد بہت بڑا ہے۔ سول اداروں پہ اعتبار کسی کو نہیں۔ خود عدالت عظمیٰ کو نہیں۔ سارا بوجھ ایسے میں آئی ایس آئی اور ایم آئی پر آ پڑے گا۔ پہلی ڈفلی اعتزاز احسن نے بجائی ہے۔ سرتاپا دیانت‘ جنرل نوید مختار کی دیانت پہ شبے کا اظہار کیا ہے۔ کچھ دن میں ڈفلی بجانے والے کچھ اور لوگ بھی نمودار ہوں گے۔ یہ ان کا پیشہ ہے اوربلا کی مہارت اس میں وہ رکھتے ہیں۔
قبل از وقت انتخابات! اس ادنیٰ‘ اس ناچیز اوراس معمولی اخبار نویس نے عرض کیا تھا‘ چند ماہ پہلے‘ قبل از وقت انتخابات ... سیاستدانوں کے اتفاقِ رائے سے‘ افواج کی نگرانی میں۔ فیصلہ سیاستدانوں کو کرنا چاہیے۔ فوج نے کیا تو سر پہ ہاتھ رکھ کر وہ روئیں گے اور شاید بعدازاں فوج بھی۔ ہمارا دشمن یہی چاہتا ہے‘قوم کیا چاہتی ہے۔ فساد یا فیصلہ؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں