آسمان دور ہے اور اللہ بے نیاز ہے
آسمان مگر‘ اتنا بھی دور نہیں
اور اللہ اتنا بھی بے نیاز نہیں
کیا یہ پاک فوج کے سربراہ اور وزیر اعظم میں تصادم کا آغاز ہے؟ غیب صرف اللہ جانتا ہے۔ بندے صرف گمان کر سکتے ہیں۔ اس کی آخری کتاب میں لکھا ہے: ولا یحیطون بشیٔ مِن عِلمہِ الّا بِماشَاء۔ اس کے علم سے وہ صرف اتنا احاطہ ہی کر سکتے ہیں‘ جتنا وہ پسند کرے۔ میاں محمد نواز شریف کو جتنا میں جانتا ہوں اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو جتنا میں سمجھ سکتا ہوں۔ باہم وہ بات کریں گے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ کچھ طے ہو جائے گا۔
کالم لکھنے کا وقت گزرا جا رہا ہے۔ چوہدری نثار علی خاں کی پوری پریس کانفرنس میں نہیں سن سکا۔ لمبی بات وہ کرتے ہیں۔ عربوں کا محاورہ انہوں نے سنا نہیں یا شاید اس پر وہ یقین نہیں رکھتے: خیرالکلام‘ قلّا و دلّا۔ بہترین کلام وہ ہے جو مختصر اور مدلّل ہو۔ چار درجن اخبار نویسوں کو سامنے بٹھا کر‘ پریس کانفرنس داغنے کی بجائے‘ کسی ایک اخبار نویس کو‘ کسی ممتاز چینل سے تعلق رکھنے والے کسی اخبار نویس کو انہیں انٹرویو دینا چاہیے۔ نیازمند کو نہیں‘ بلکہ ایک آزاد صحافی کو۔ بہرحال جتنی بات ان کی میں سن سکا‘ اس کا خلاصہ یہ ہے: جو آپ سے حسن ظن کا عادی ہے اور جس سے آپ حسن ظن رکھتے ہیں‘ وہ مصالحت کا آرزومند ہے۔
چوہدری صاحب کو علم ہو گا۔ اگر نہیں تو یہ ناچیز عرض کرتا ہے کہ بے شک عسکری قیادت ان سے اچھا گمان رکھتی تھی‘ اب مگر اس میں کچھ کمی آ چکی۔ وجہ اس کی وہی ڈان لیکس والا معاملہ ہے۔ ثانیاً یہ کہ سی پی این ای کو یہ بھی ایک انتباہ ہے کہ براہ کرم عدل سے کام لیجئے۔
فوج کی آپ مذمت کر سکتے ہیں‘ مخالفت کر سکتے ہیں۔ اسے چڑا سکتے ہیں۔ گاہے اس پر صبر بھی وہ کرتی ہے۔ کبھی کبھی تو برسوں تک۔ دو باتیں مگر یاد رکھنی چاہئیں۔ ایک یہ کہ طاقتور آدمی یا ادارہ‘ بے گناہ ہونے کے باوجود تحمل پر اگر تلا رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہمیشہ وہ تلا رہے گا۔ آخرکار ایک دن پیالہ بھر جاتا ہے۔
فیصل آباد کے ڈپٹی کمشنر نے عباس اطہر مرحوم سے بدتمیزی کی۔ وہ ایک متحمل مزاج آدمی تھے۔ انتقام بھی لیتے‘ مگر جلد بازی میں کبھی نہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں ہے۔ ان کا جواب یہ تھا: نانی اماں سے میں نے سوال کیا تھا کہ بدلہ کب لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا: تیل لگا کر بازو تلوںکے مٹکے میں ڈالنا چاہیے۔ جتنے تل چپک جائیں‘ وہ گن لئے جائیں‘ بس اتنے برس کے بعد۔ زبانِ حال سے ایسا آدمی یہ کہتا ہے: لو بھائی‘ میں نے تجھے مہلت دی‘ زیادہ سے زیادہ جس قدر ممکن ہے۔ اس اثنا میں اگر تو اپنا طرز عمل تبدیل کرے‘ اپنے اندازِ فکر کی خامی کا ادراک کرے تو سبحان اللہ‘ ورنہ پھر دیکھ لیں گے۔ فیصل آباد کا ڈپٹی کمشنر بات نہ سمجھ سکا۔ عباس اطہر کو ردّعمل ظاہر کرنا پڑا۔ ان کے پرنسپل سیکرٹری نے شاہ صاحب کی جواب طلبی کرنے کی کوشش کی تو کھرے لہجے میں انہوں نے کہا: ٹین کا نہیں‘ گوشت پوست کا بنا ہوں۔
کتاب یہ کہتی ہے: ان اللہ مع الصابرین۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عرش مکیں بالآخر اسے بچا لے گا۔ اس مبارک آیت کا مطلب یہ ہے کہ صبر کرنے والے کا وہ ساتھ دے گا۔ اس کا ہاتھ بالا کر دے گا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہاتھ بالا ہے۔ وزیر اعظم کے لئے بہترین لائحہ عمل یہ ہے کہ ان سے بات کریں۔ اگر دلیل ان کی درست ہے تو مان لیں۔ آدمی کو سبھی کی سننا چاہیے۔ ہم رتبہ کی زیادہ توجہ سے سننی چاہیے۔ جس کے انداز میں شائستگی زیادہ ہو‘ اس کی اور بھی زیادہ انہماک سے سننی چاہیے۔
جنرل صاحب اپنا موقف بیان کر چکے۔ جو رعایت ان کے بس میں تھی‘ وہ دے چکے۔ وہ پنجاب پولیس کے آئی جی مشتاق سکھیرا نہیں‘ سبکدوشی کے بعد‘ جنہیں نوکری درکار ہو گی۔ وہ پاک فوج کے سپہ سالار ہیں۔ وزیر اعظم سے ان کا وعدہ یہ تھا کہ سول ملٹری تعلقات کو وہ شائستہ رکھیں گے۔ یہ نہیں کہ ہر حال میں ان کی اطاعت کریں گے۔
جمہوریت کسی چڑیا کا نام نہیں کہ خبر لائے تو نجم سیٹھی جس طرح چاہیں‘ اس کی تعبیر کر لیں۔ جمہوریت میں اختیارات وزیر اعظم کے زیادہ ہوتے ہیں‘ ہونے بھی چاہئیں۔ ڈیڑھ دو کروڑ ووٹ لے کر وہ آتا ہے۔ ہاں! مگر دوسروں کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ پارلیمان کے‘ سینیٹ کے‘ افسر شاہی کے‘ پولیس کے۔ جو آئین وزیر اعظم کو کپتان مقرر کرتا ہے‘ اسی کے تحت باقی ماندہ کھلاڑیوں کے حقوق کا تعین بھی ہوتا ہے۔ عمران خان ہو یا مصباح الحق‘ کھلاڑیوں کے انتخاب میں رائے دے سکتا ہے۔ بعض اوقات اصرار بھی کر سکتا ہے۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ اپنی مرضی کی ٹیم وہ بنا لے۔ وزیر اعظم بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ریفرنڈم کرا لیں۔ اس ملک کی ملکیت حاصل کر لیں۔ پھر وہ آزاد ہوں گے کہ جانشین کا اعلان کریں۔ سر جھکا کر‘ قوم ان کی اطاعت کرے گی۔
جنرل باجوہ نے وزیر اعظم کو بتا دیا تھا۔ اپنی جانیں جو لوگ ہتھیلیوں پر لیے پھرتے ہیں‘ وہ ناخوش ہیں۔ مجھے ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈان لیکس پہ وہ ناراض ہیں۔ ان کے الفاظ یہ تھے: سر! میرا بھی ایک حلقہ انتخاب (Constituancy) ہے۔
کرنل ہو یا جنرل‘ اپنے ساتھیوں کے سامنے وہ پیش ہوتا ہے۔ سوال کرنے کی انہیں اجازت ہوتی ہے۔ جنرل باجوہ کا مزاج یہ ہے کہ کشیدگی اور تلخی سے وہ بچتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں ہی کا نہیں‘ ماتحتوں کا بھی لحاظ کرتے ہیں۔ سوالات درپیش ہوں تو ڈائس پہ تادیر کھڑے رہتے ہیں۔ جواں سال افسر جھجک کا شکار ہوں تو ان کی جھجک دور کرتے... اور یہ کہتے ہیں : پوچھو‘ پوچھو‘ میرا فرض ہے کہ آپ کو مطمئن کروں۔
افسر ناراض ہیں‘ فقط ڈان لیکس نہیں‘ بھارت کے باب میں وزیر اعظم کے مجموعی روّیے پر۔ اندھے نہیں وہ دیکھتے ہیں۔ عزتِ نفس کا شعور ان میں زندہ رکھا جاتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ کشمیر میں قتل عام پر وزیر اعظم کی زبان نہیں کھلتی۔ تصاویر موجود ہیں‘ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے ہنگام‘ ان کا چہرہ سوجا ہوا ہوتا۔ نریندر مودی سے بات چیت میں کھلا ہوا۔ گمان یہ تھا کہ ناراضی ہے۔ جنرل باجوہ سے ناراضی نہ تھی۔ اس کے باوجود نریندر مودی ایسی مسکراہٹ ان کے چہرے پر کبھی نمودار نہ ہو سکی۔ ایک سادہ سے اصول کو وزیر اعظم نظرانداز کر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر شخص کی محدودات ہوتی ہیں۔ کسی شخص کی قوت‘ بس اتنی ہی ہوتی ہے‘ جتنی کہ اللہ نے اسے دی ہو۔ من مانی کی اجازت خدا کی بستی میں‘ کسی کو نہیں دی جاتی۔ کوئی کرے تو قیمت چکاتا ہے۔
بہت دنوں سے جنرل باجوہ صبر سے کام لے رہے تھے۔ اچھا کیا‘ انہوں نے بہت اچھا کیا۔ صبر کمزوری نہیں‘ ایک قوّت ہے۔ آج دراصل انہوں نے یہ کہا: سر! مزید صبر میں نہیں کر سکتا۔ کل تک وہ ایک کمزور سپہ سالار سمجھے جا رہے تھے۔ آج تاریخ نے ایک ورق الٹ دیا ہے۔ صاف صاف انہوں نے کہہ دیا: سر! آپ سمجھ نہیں رہے‘ انسپکٹر جنرل پولیس نہیں‘ میں پاک فوج کا سربراہ ہوں۔ آپ کو میں نے بتایا تھا کہ جن سے میں زندگی نذر کرنے کی امید رکھتا ہوں‘ وہ ناراض ہیں۔ ان کے مزاج کو ملحوظ رکھتے ہوئے‘ وزیر اعظم کو اپنا رویہ درست کرنے کا انہوں نے مشورہ دیا ہے۔
صورت حال کو وزیر اعظم سنبھال سکتے ہیں۔ صرف ڈان لیکس ہی نہیں‘ باقی معاملات پر بھی اب نظرثانی کرنا ہو گی۔ مفاہمت ان کی ضرورت ہے‘ خود ان کے اپنے مفاد میں ہے۔
اور اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے: جو ہلاک ہوا‘ وہ دلیل سے ہلاک ہوا‘ جو زندہ رہا‘ وہ دلیل سے زندہ رہا۔
آسمان دور ہے اور اللہ بے نیاز ہے
آسمان مگر‘ اتنا بھی دور نہیں
اور اللہ اتنا بھی بے نیاز نہیں