قومی سیاست میں کرنے کو تو سبھی کچھ باقی ہے مگر کہنے کو کچھ زیادہ نہیں۔ سو سو بار ہر بات دہرائی جا چکی، ہزار مرتبہ۔ دلوں کے خزانے مگر خالی ہیں۔ دور دور تک عمل کی کوئی آرزو نہیں۔
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
بہتّر گھنٹے میں آفاق احمد مکر گئے۔ ہفتے کی شام للکار کر انہوں نے کہا تھا: کراچی والو! متحد ہو جائو، اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو شہر پہ مسلط کرنا چاہتی ہے۔ منگل کی شب اپنے ارشاد کی انہوں نے توجیہہ کی: ہرگز میں نے یہ نہ کہا تھا بلکہ یہ کہ کپتان اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کا تاثر دیتا ہے۔ پھر ان کے لہجے میں حلاوت اتر آئی اور فرمایا: اسٹیبلشمنٹ ہماری اپنی ہے، کوئی غیر تو نہیں۔ صاف نظر آیا کہ پیغام انہیں مل چکا۔ سب با خبر جانتے ہیں کہ برسوں کی ریاضت اور حالات استوار ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی خواہش یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے سارے دھڑے متحد ہو جائیں۔ شائستگی سے سیاست کریں۔ بے شک واویلا کرتے رہیں مگر بھارت کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں۔
پاکستان پہ اللہ مہربان ہوا۔ تین عشرے کے بعد شواہد میسر آئے۔ الطاف حسین بے نقاب ہوئے۔ تکبر کے عالم میں سیاسی طور پر خود کشی آپ نے فرما لی۔ اب وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ناراض اردو بولنے والوں میں، سندھی جاگیرداروں کے ہاتھوں پیہم جو ستائے گئے، لندن میں براجمان ''بابائے قوم‘‘ کا رسوخ باقی ہے۔ اپنی وجاہت کو مگر وہ برت نہیں سکتے۔ اللہ کے عذاب کی زد میں ہیں اور رسوائی کے لئے کچھ دن اور انہیں جینا ہے۔
جو معاف کر دیے گئے، وہ معاف کر دیے گئے۔ اللہ کی صفتِ رحم اس کی صفتِ عدل پہ غالب ہے۔ سید مصطفیٰ کمال نے بروقت بغاوت کی اور اس طرح کی کہ تاریخ انہیں یاد رکھے گی۔ اس کے اپنے میزان ہیں۔ کامیابی یا ناکامی نہیں، آسمان نیتوں کا سچ اور جھوٹ دیکھتا ہے۔ کراچی کی سیاست کوئی بھی راہ اختیار کرے، مصطفی کمال اور ان کے ساتھی حسنِ نیت پہ قائم رہے تو مراد پائیں گے۔ ان کا اعزاز یہ نہیں کہ تن کر کھڑے ہو گئے بلکہ اس سے کچھ زیادہ۔ خوف سے انہوں نے نجات پا لی۔ زندگی نذر کرنے کا فیصلہ کیا اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
اس وقت جب اتحاد کی ضرورت سب سے بڑھ کر ہے، بھارت اور افغانستان کے بعد ایران بھی دھمکیاں دینے پر اتر آیا ہے، قوم تقسیم در تقسیم سے دوچار ہے۔ ایک ہفتہ قبل آج ہی کے دن سیاسی اور عسکری قیادت میں صلح نامے کی بنیاد طے پا گئی تھی۔ ڈان لیکس پر کمیٹی کی سفارشات مان لی جائیں گی اور وزیرِ اعظم کی تکریم کا خیال رکھا جائے گا۔ یہ سطور لکھنے تک تفصیلات طے نہیں پا سکیں۔ اللہ ان لوگوں پر رحم کرے، قیادت کے تاج سروں پہ سجا رکھے ہیں، ان کے تقاضوں کا رتی برابر بھی مگر ادراک نہیں۔ کسی قوم سے اللہ جب نا خوش ہوتا ہے تو اس کے بدترین کو ان پہ حاکم بنا دیتا ہے۔ فریبِ نفس کے اسیر!
آئینے میں بال آ چکا۔ مفاہمت ہو کر بھی نہیں ہو گی۔ دونوں طرف سے اپنے گھڑ سوار آگے بڑھائے جا رہے ہیں، جنگ بندی کیسے ہو؟ مولانا فضل الرحمٰن نے ارشاد فرمایا: قبل از وقت الیکشن سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔ پھر اسی پر اکتفا نہ کیا اور یہ بھی فرمایا کہ پختون خوا کے لیے عمران خان کا ایجنڈا انہوں نے ناکام بنا دیا ہے۔ عالی مقام کا یہ قول ٹھیک اس روز سامنے آیا، پشتینی وفادار مولانا عبدالغفور حیدری نے جب جماعتِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ سے ملاقات کی۔ حضرت مولانا فضل الرحمٰن کے دل پہ ایک زخم ہے۔ گرامی قدر والدِ مرحوم کی طرح صوبے کے وزیرِ اعلیٰ وہ بننا چاہتے ہیں۔ بٹیرہ ایک بار پائوں تلے آ گیا تھا۔ اس کا ذائقہ بھولتا ہی نہیں۔ اثاثہ ایک مذہبی مکتبِ فکر اور چند سو مدارس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جوڑ توڑ میں لگے رہتے ہیں۔ ایک بار خاتون امریکی سفیر کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے کہ انکل سام سرپرستی فرمائے۔ انکل سام کو کیا کتے نے کاٹا تھا کہ طالبان کے نظریاتی حلیف کی مدد کرتا۔ پھر انہوں نے عمران خان کا ایجنڈا ناکام بنانے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ یہ ایجنڈا کیا ہے؟ حضرت مولانا کے بقول یہودیت یا کم از کم مغربی ثقافت کا تسلط۔ پچھلی بار تمام پارٹیاں الگ الگ تھیں۔ ایک چوتھائی ووٹوں کے ساتھ کپتان نے شہ مات دے دی۔ مولانا کی کوشش اب یہ ہے کہ نون لیگ، اے این پی اور جماعتِ اسلامی کو اپنی سیاست کا ایندھن بنائیں۔ ان کی ذہانت کے سبھی قائل ہیں، اعتبار کسی کو نہیں۔ میاں صاحب کا ہاتھ مولانا کی پشت پہ دھرا ہے۔ کشمیر کمیٹی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے علاوہ ہائوسنگ کی رسیلی وزارت ان کے حبالہء عقد میں ہیں۔ چوتھی شادی کی گنجائش باقی ہے۔
خلافِ شرع شیخ تھوکتے بھی نہیں
اندھیرے اجالے مگر چوکتے بھی نہیں
جماعتِ اسلامی مخمصے کا شکار ہے۔ ایک بار پھر اپنے لبادے پر ڈیزل کے پھول کاڑھے یا نہ کاڑھے۔
مخمصے کا شکار ابصار عالم بھی بہت دن رہے۔ آخرکار تاریکی میں چھلانگ لگانے کا فیصلہ کیا۔ باہمی جنگ ذرائع ابلاغ تک آپہنچی ہے۔ پیر کی شام ٹی وی تبصروں میں ہر ایک چہرہ بے نقاب تھا کہ کون کس کا حامی ہے اور کون کس کشتی میں سوار۔ کون خطرہ مول لینے پر آمادہ اور کون محتاط کہ اونٹ کے کسی کروٹ بیٹھنے کا انتظار کیا جائے۔
خود کو معتبر قرار دینے والے ایک صحافی نے اعلان کیا کہ کپتان اب مشکل میں ہے۔ اپنی جائیداد کا حساب اسے دینا ہے۔ ملک معاشی ترقی کی راہ پر سرپٹ ہے۔ میاں صاحب کی مقبولیت بازارِ حصص کی طرح دن دگنی رات چوگنی ترقی فرماتی ہے۔
خریداری کا عمل جاری ہے۔ ہر روز ایک نیا اخبار نویس ایوانِ اقتدار کا طواف کرتا نظر آتا ہے۔ ایک نے کہا تھا: ہم کچھ زیادہ فائدے میں نہ رہے۔ میاں صاحب کے حریف زیادہ طاقتور ہیں۔ زیادہ وہ عنایات کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی بات درست ہو۔ بھکاری ہی جانتا ہے کہ کس در سے کتنی خیرات ملتی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں بظاہر میاں صاحب کا پلڑا بھاری ہے۔ ابصار عالم کی جست کے بعد اور بھی جھک گیا۔ اگرچہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ کس پہ کیا گزرتی ہے۔ کھیت کون رہتا، فتح کا علم کون لہراتا ہے۔
شام آ رہی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا
ہم اور کتنی دیر، تم اور کتنی دیر
ابصار عالم کی بات غلط نہیں۔ کسی کو حق نہیں کہ آزادیء اظہار کے نام پر نفرت کا کھیل کھیلے۔ کسی کو حق نہیں کہ دوسرے کے کام میں مخل ہو۔ عدالتوں کو حکمِ امتناعی جاری کرنے کا حق ہے۔ یہ بھی مگر دیکھنا چاہیے کہ کیا کوئی اخلاق اور اصولوں کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ جس بات کو ابصار چھپا گئے وہ یہ ہے کہ بعض میڈیا گروپ سرکار کے معتوب اور بعض محبوب ہیں۔ کچھ اخبار نویس پسندیدہ اور کچھ ناپسندیدہ ہیں۔ کسی کے ہاتھ تو ایک چھوٹی سی نوکری ہی لگی، ایسے پسندیدہ بھی ہیں، جو جنرل محمد ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف، چوہدری پرویز الٰہی اور اب میاں صاحب کی عنایات سے ارب پتی ہو گئے۔ ایک گروہ جب سرکاری خزانہ لٹا کر ذہنی قلیوں کا لشکر استوار کرے گا تو دوسرا کیوں دریغ سے کام لے گا؟
قومی سیاست میں کرنے کو تو سبھی کچھ باقی ہے مگر کہنے کو کچھ زیادہ نہیں۔ سو سو بار ہر با ت دہرائی جا چکی، ہزار مرتبہ۔ دلوں کے خزانے مگر خالی ہیں۔ دور دور تک عمل کی کوئی آرزو نہیں۔
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی