کوئی مسئلہ اللہ کی زمین پر ایسا نہیں، حل جس کا موجود نہ ہو۔ فرمایا: کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
میجر نادر پرویز کو، وہ نادرِِ روزگار سپاہی، جسے 1965ء اور 1971ء دونوں جنگوں میںستارہء جرات عطا ہوا، پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملنا تھا۔ پروفیسر صاحب کی موجودگی میں فون پر ان سے کہا: کل شام تشریف لائیے، بہترین کھانے سے آپ کی تواضع کی جائے گی اور تفصیل سے آپ بات کر سکیں گے۔ پروفیسر صاحب اس پر ٹھٹکے اور کہا: کیا کہا؟ صبح آٹھ بجے سے دوپہر دو بجے تک؟ جی نہیں، عرض کیا: شام آٹھ بجے!
کھانے کی میز پہ پروفیسر صاحب تھوڑا سا تکلف روا رکھتے ہیں۔ پوچھا جائے تو بتاتے ہیں کہ ایک مسلمان کے لیے یہ لازم ہے۔ ''یہ انبیا کی سنت ہے‘‘ انہوں نے کہا۔ ایک ہفتہ قبل ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو کمرے سے متصل ان کے چھوٹے سے باورچی خانے میں دیسی مرغی پک رہی تھی۔ اپنی نشست سے وہ اٹھے اور ایسی شوخی کے ساتھ، جو ان کا معمول نہیں، یہ کہا ''ایک تو مہمان داری کرو، اوپر سے کھانا بھی اپنے ہاتھ سے پکائو‘‘۔
میجر نادر پرویز کے لیے بھی ایک کھانا انہوں نے خود پکایا، مٹن کا قیمہ۔ لگ بھگ دو عشرے انہوں نے لاہور میں گزارے ہیں۔ ایک کشمیری، ثانیاً صوفی، پھر لاہوری۔
کام کاج جن کی ترجیح ہے، بعض اوقات اشتہا وہ کھو دیتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رویہ ہے۔ جسم کو آرام چاہیے، توانائی کے لیے پوری نیند اور ڈھنگ کا کھانا۔ بجا کہ کھانا زندگی کے لیے ہے، زندگی کھانے کے لیے نہیں۔ آدمی کو نواز شریف نہ بن جانا چاہیے مگر شہباز شریف بھی نہیں کہ کھانے پینے کی زندگی میں کوئی اہمیت ہی باقی نہ رہے۔
دوپہر کو کالم لکھنا ہوتا ہے۔ کھانا اکثر اس کی نذر ہو جاتا ہے۔ بروقت اگر جاگ اٹھوں تو ناشتہ خود بناتا ہوں۔ بران بریڈ کے دو سلائس، ٹوسٹر پر ڈھنگ سے سنکے ہوئے۔ اس دودھ کی بالائی کے ساتھ، خاص طور پر نیلی بار کی ایک بھینس جس کے لیے پالی گئی ہے۔ دیسی شکر کا نصف چمچہ، میرے دوست میر صاحب جو صادق آباد سے بھجواتے ہیں... اور ہاں! صبح سویرے گرم پانی میں بیری کے شہد کا ایک چمچ۔
گھر میں ہوں یا ''تھنک ٹینک‘‘ کے لیے لاہور میں۔ دوپہر کا کھانا جو کچھ بھی ملے، زہر مار کر لیتا ہوں۔ فرمائش کی عادت ہی نہیں۔ لاہور میں باورچی اگرچہ اس پہ اصرار کرتا ہے۔ شام کی بات اور ہے، کام کاج اور پروگرام سے جب فراغت ہوتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا، دوپہر کو کالم سر پہ سوار ہوتا ہے اور اخبارات کا مطالعہ۔ ایک زاہد نماز ترک نہیں کر سکتا، اخبار نویس اخبارات سے اغماض نہیں برت سکتا۔ الیکٹرانک میڈیا جزوی طور پر ہی اس کی مدد کرتا ہے۔ معلومات ہی نہیں، تبادلہء خیال سے ذہن بیدار ہوتا اور نتائج اخذ کرتا ہے۔
دوپہر ڈھلنے لگتی اور بھوک بے تاب کرتی ہے تو باورچی سے پوچھتا ہوں۔ کچھ پکایا ہے؟ سلمان کا جواب ہمیشہ یہ ہوتا جی نہیں، کچھ بھی نہیں۔ محمد اکبر زیادہ ہوش مند ہے۔ اس نے کہا: جی ہاں ، مٹر پلائو۔ اور کیا چاہیے، گرما کے اس موسم میں اور کیا چاہیے، سبزی اور باسمتی چاول، زود ہضم۔ کھانا وہ چاہیے، گرانی جو پیدا نہ کرے۔ اس لطف سے کیا حاصل، جو بے لطفی کو جنم دے۔
گہرا بادامی رنگ، میں حیرت زدہ رہ گیا۔ مٹر پلائو تو اپنے سبز و سفید رنگ سے پہچانا جاتاہے۔ یا للعجب، اس میں اچار ڈالا گیا تھا اور وہ بھی فراوانی کے ساتھ۔ جیسے تیسے حلق میں انڈیلا اور دفتر کی راہ لی۔ تھوڑا سا پھل کھا لیا، چھاچھ نے کچھ تلافی کی۔
بیس برس ہوتے ہیں، جب چائے ترک کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر بوتل بند دوسرے مشروبات۔ پھل کو معمول کیا اور جہاں تک ہو سکے، سلاد بھی۔ سگریٹ نوشی کم کر دی۔ زیادہ سے زیادہ پانچ سگریٹ روزانہ۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ طبیعت کبھی بوجھل نہیں ہوتی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کھانے کا ذوق بگڑتا جا رہا ہے۔ برائلر مرغی ہر دستر خوان کا جزوِ لاینفک ہے۔ گتا! بجا کہ کولیسٹرول اس میں نہیں، مگر جو خوراک اسے دی جاتی ہے؟ ماڈل ٹائون اسلام آباد کے نواح میں مرغیوں کی خوراک بنانے والی کئی فیکٹریاں ہیں۔ ہوا شمال سے جنوب کو بہے تو سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ سترہ برس ہوتے ہیں، وزیرِ داخلہ جنرل معین الدین حیدر نے میری درخواست پر ان کی نگرانی کا نظام بنایا تھا۔ اللہ جانے اب کیا حال ہے۔ بازار میں جو آٹا دستیاب ہے، 66 فیصد انسانی استعمال کے قابل نہیں۔ اس کا بدل چکی کا آٹا ہے۔ تین ماہ قبل کسی نے یہ بتا کر وحشت زدہ کر دیا کہ اکثر ایک تھیلے میں ایک سے دو کلو مٹی شامل ہوتی ہے۔ چین کی بنی ہوئی ایک مشین انہوں نے تجویز کی جو کیمیکل اور مٹی الگ کر دیتی ہے۔ واحد راستہ یہ ہے کہ گندم خرید کر گھر پہ دھوئی اور اپنی نگرانی میں چکی پر پسوائی جائے۔ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری تو کجا، کپتان کی حکومت میں بھی، خالص غذا حکومت کی ذمہ داری نہیں۔ غذا کیا، دوائیں۔ چار سال قبل لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں 100 مریض ناقص دوا سے قتل ہو گئے۔ تب خادمِ پنجاب تک ذاتی طور پر وزیرِ صحت واقع ہوئے تھے۔
دودھ اور دہی انسانی خوراک کا کبھی نہ الگ ہونے والا حصہ ہے۔ اگر کوئی ولی اللہ ہے تو ہم اسے جانتے نہیں۔ بازار میں خالص دودھ کا ایک قطرہ بھی دستیاب نہیں۔ دو فیکٹریوں کے سوا، جو اپنی گائیں خود پالتے ہیں اور کچا دودھ پیک کرتے ہیں... اور یا للعجب ان میں سے ایک گجرات کے چوہدریوں کی ملک ہے اور دوسری میاں محمد منشا کی۔
یہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے۔ عام طور پر بازار میں جو دودھ دستیاب ہے، زیادہ تر درآمدی خشک پائوڈر سے بنایا جاتا ہے۔ وہ پائوڈر، جو جانوروں کے لیے ہوتا ہے۔ چکنائی کے لیے اس میں الا بلا ڈال دی جاتی ہے۔ گوالے کا دودھ جن بھینسوں سے حاصل کیا جاتا ہے، صبح شام انہیں ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ ان کے تھنوں میں پیپ پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی پیپ والا دودھ اکثر گھروں میں پیا جاتا ہے۔ ان بچوں کا کیا ہو گا، جن کا انحصار انہی پر ہے؟ نواز شریف کی بلا جانے، 300 ایکڑ پر پھیلی ان کی رہائش گاہ پر درجنوں بھینسیں ہیں ، پولیس والے جن کی نگہداشت کرتے ہیں ۔ زرداری صاحب نے اونٹ اور بکریاں بھی پال رکھی ہیں ۔ ایک عدد بھینس بنی گالہ میں بھی موجود ہے ۔ اشرافیہ جیتی رہے گی ، مزدور مرتے رہیں گے ۔ یہی پاکستان کا آئین ہے ، 1973ء کا نہیں۔
آلودہ خوراک ، آلودہ پانی ، آلودہ تعلیم، آلودہ علاج ، یہ ہے آج کا پاکستان اور یہ ایسا ہی رہے گا ، اگر ہم اپنے لیڈروں پہ انحصار کرتے رہے ۔ زندہ قوموں کو ہی زندہ لیڈر ملا کرتے ہیں۔
کل شب ، اس کالم کی بُنت پر جب میں غور کر رہا تھا ، ایک خیال نے شرمسار کیا ۔ سبزی ، پھل ، گوشت اور دودھ ، اپنے لیے ہر طرح کا بندوبست تم نے کر لیا ۔ دوسرے کہاں جائیں؟ غریب لوگ کہاں جائیں ۔
پائیدار علاج وہی ایک ہے ۔ نواز شریف اور زرداری نہیں ، افتادگانِ خاک کی شرکت سے زندہ سیاسی پارٹیاں اور زندہ حکمران ۔ ایک تجویز البتہ ذہن میں آئی۔ میڈیا ٹائون کے کچھ مکینوں نے اگر اتفاق کیا۔ اگر کچھ پیش رفت ہو سکی تو عرض کروں گا۔
کوئی مسئلہ اللہ کی زمین پر ایسا نہیں ، حل جس کا موجود نہ ہو ۔ فرمایا: کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں