کیا تقدیر کے ہاتھوں ہم مجبور ہیں۔ جی نہیں‘ قرآن حکیم کچھ اور کہتا ہے: کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ اللہ نے انسانوں کو آزاد پیدا کیا اور آزاد ہی انہیں رکھنا چاہتا ہے۔
21 مئی کو ریاض میں‘ پاکستان کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑا‘ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں۔ اظہار سے مگرگریزاں ہیں۔ انگریزی محاورہ معلوم اور مشہور ہے کہ بھکاریوں کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا۔ "Beggers are not the choosers"
19 مئی کو جنوبی افریقہ کے ایک جنگل میں‘ چھوٹا سا ایک واقعہ پیش آیا۔ ملک کا مشہور شکاری تھیونس بوتھا‘ ایک ہاتھی کے نیچے آ کر ہلاک ہو گیا۔ 51 سالہ بوتھا‘ دس روزہ شکاری مہم پہ تھا۔ تین ہاتھیوں کو سامنے پا کر‘ بوتھا آگے بڑھا۔ گولیوں کی بوچھاڑ کی اور ان کے قریب جا پہنچا۔ دو ہاتھی بھاگ گئے‘ لیکن پھر تیسرا آگے بڑھا۔ سونڈ میں لپیٹ، بوتھا کو اس نے اوپر اٹھا لیا۔ وحشت زدہ شکاریوں نے‘ اس پہ آگ برسائی؛ چنانچہ وہ گر پڑا اور بوتھا‘ اس کے دیوہیکل پیکر تلے کچلا گیا۔
اس ہاتھی کا نام ڈونلڈ ٹرمپ تھا۔ فائرنگ اس پر نہیں کی گئی تھی مگر اس کا خیال یہ تھا کہ پاکستان ایک شکاری ہے۔ انکل سام کا تزویراتی حلیف‘ بھارت جس کا ہدف ہے۔ اس ہاتھی کے ہم مرہون منت ہیں اور دوسرے‘ یعنی امریکہ بہادر کے بھی۔
سترہ سال قبل‘ کس کے ایما پر‘ میاں محمد نواز شریف اٹک قلعے سے جدّہ لے جائے گئے؟
نواز شریف پہلے پاکستانی لیڈر نہ تھے‘ جو فوجی حکمرانوں کے عتاب کا شکار ہوئے ہیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد میں ایئرمارشل اصغر خاں پانچ برس تک اسیر رہے اور بہت سے دوسرے لیڈر بھی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہد میں‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی سمیت‘ جماعت اسلامی کی پوری قیادت‘ جیلوں میں سڑتی رہی۔ سعودی عرب ان کی مدد کو کبھی نہ آیا۔ اس کے باوجود کہ شاہ فیصل سمیت‘ کئی عرب حکمران‘ ابوالاعلیٰ کا احترام کرتے تھے۔ 1978ء میں شاہ فیصل ایوارڈ کا اجرا ہوا تو‘ سب سے پہلے اعزاز پانے والے وہی تھے۔
ایک صنعت کار‘ ریاض کے لیے‘ ایک تاریخ ساز سکالر سے زیادہ قابلِ احترام کیوں تھا۔ اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے۔ مرحوم ریاض کے سیاسی حلیف نہ تھے۔
شاہ فیصل‘ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی عزیز رکھتے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی شاہ ڈٹ کر مدد کرتے رہے۔ عربوں سے گہرے ذاتی مراسم مگر جنرل محمد ضیاء الحق نے استوار کئے‘ ہر سال رمضان المبارک میں جو حجاز مقدس جایا کرتے۔ مکہ مکرمہ میں کعبہ کا سیاہ غلاف اور مدینہ منورہ میں سنہری جالیوں سے چمٹے بلک بلک کر رویا کرتے۔
جنرل محمد ضیاء الحق کے یہ تعلقات‘ میاں محمد نواز شریف کو ورثے میں ملے... اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کیوں؟
سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے فوجی حکمرانوں سے بھی عربوں کے شاندار تعلقات ہیں۔ ہمارے کسی بھی چیف آف آرمی سٹاف کا سواگت سربراہِ مملکت کی طرح ہوتا ہے۔ آئی ایس آئی کا کوئی بھی سربراہ جب وہاں اترتا تو ڈالروں سے بھرا ایک بریف کیس‘ بادشاہ سلامت کی طرف سے‘ اس کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بھی اسے بتایا جاتا ہے کہ شاہ کا تحفہ مسترد کرنا آداب کے خلاف ہے۔ جنرل حمید گل نے ایک راستہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ بریف کیس انہوں نے کھولا۔ سو ڈالر کا ایک نوٹ نکالا اور یہ کہا: بادشاہ سلامت کا تحفہ میں نے قبول کر لیا۔ آپ میری معذرت قبول کیجئے۔ جنرل پرویز مشرف اعتراف کر چکے کہ شاہ عبداللہ نے کئی کروڑ روپے ان کی خدمت میں پیش کئے تھے۔
اپنے وفاداروں کا وہ خیال رکھتے مگر راولپنڈی کو ناراض نہیں کرتے کہ آخری تجزیے میں پاکستان ہی سعودی عرب کا محافظ ہے۔ لندن میں تین سالہ قیام کا وعدہ کرکے 2007ء میں میاں صاحب جدّہ سے لندن تشریف لے گئے۔ پھر انہوں نے پاکستان کا قصد کیا تو سعودی انہیں اٹھا لے گئے۔ سعودی انٹیلی جنس کا سربراہ بے تاب ہو کر پاکستان پہنچا۔ اسلام آباد کے اخبار نویسوں نے جب سپریم کورٹ کا ذکر کیا تو اس نے کیا کہا تھا؟ سعودی عرب کی ضمانت کے ساتھ معاہدہ شریف خاندان نے پہلے کیا تھا یا عدالت کا حکم پہلے صادر ہوا۔
رئوف کلاسرا اور اس ناچیز کے سوا‘ احتجاج کرنے والا‘ اس وقت کون تھا؟ شریف خاندان کے کالم نگار تب کالم نہیں لجاجت کے ساتھ‘ التجائیں رقم فرما رہے تھے۔ اسی طرح صدر زرداری کے ہاتھوں‘ شہباز حکومت کی برطرفی پر سب سے زیادہ احتجاج بھی آزاد اخبار نویسوں ہی نے کیا تھا‘ جن پر میڈیا سیل کے ایما پر اب تبرّیٰ کیا جاتا ہے۔ کالموں میں وہ اشعار کیوں لکھتے ہیں؟ قرآن کریم کی آیات کا حوالہ کیوں دیتے ہیں؟ اشعار برتنا کب سے بدذوقی ہوا؟ قرآن حکیم کا حوالہ دینے کے لئے منکرینِ حدیث سے کیا پرمٹ لیا جائے؟ نعوذ بااللہ۔ اللہ کی کتاب کیا مذہبی فرقہ پرستوں کی مِلک ہے؟
پاکستانی سیاست کاروں میں عربوں کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ ہیں۔ صدر زرداری‘ سعودی عرب کے دورے پر تشریف لے گئے تو کرسیاں شاہی محل کے سوئمنگ پول پر بچھائی گئیں، دونوں اطراف میں۔ ایک طرف بادشاہ سلامت اور دوسری طرف صدر اور ان کے رفقا کے لیے۔ پانچ منٹ‘ جی ہاں پانچ منٹ کے بعد بادشاہ اٹھا اور چلا گیا۔ ایک اہم مصروفیت انہیں درپیش تھی۔ سنی سنائی نہیں، ایک عینی شاہد کی روایت میں بیان کر رہا ہوں۔ ایک عرب ملک میں اب وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہے... اور یہ واقعہ تبھی لکھ دیا تھا۔
امریکہ کے ایما پر برطانوی وزارت خارجہ سے مذاکرات اور سمجھوتے کے بعد‘ 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان آئیں تو عرب قبائلی سردار اپنے محلات سے نکلے اور انہوں نے ریاض کا رخ کیا۔ وہ عرب سردار جو ریاض میں اقتدار کا ستون ہیں۔ میاں محمد نوازشریف کو جو جنرل محمد ضیاء الحق کا جانشین سمجھتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو جو ناپسند کرتے تھے۔ بادشاہ سے انہوں نے مطالبہ کیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح‘ میاں محمد نوازشریف کو وطن واپس جانے کی اجازت دی جائے۔ پاکستانی پریس اور پاکستانی قوم کے ردّعمل پر‘ اسلام آباد میں سعودی سفیر نے لکھا تھا: حالات اس درجہ خراب ہیں کہ خدانخواستہ آج مجھے اغوا کر لیا جائے تو کوئی رونے والا نہ ہو گا۔ مکرّر عرض ہے کہ سنی سنائی نہیں‘ اس آدمی کی گواہی میں بیان کر رہا ہوں‘ سعودی سفیر نے‘ جسے اپنے ہاں مدعو کرکے اعتماد میں لیا تھا۔
جنرل مشرف پہ دبائو ڈالا گیا۔ انہیں قبول کرنا پڑا۔ اس شان سے نواز شریف واپس آئے کہ اس پرواز کے لیے بادشاہ سلامت نے ایک خصوصی جہاز انہیں عطا کیا تھا۔ دو عدد بلٹ پروف گاڑیاں تحفے میں دی تھیں‘ ...اور میاں صاحب کی درخواست پر یہ سفارش بھی کی تھی کہ ٹیکس کے ذیل میں ضبط کئے گئے‘ ماڈل ٹائون لاہور کے مکانات انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ شریف خاندان کی ان گھروں سے جذباتی وابستگی تھی۔
خلیجی ممالک اور سعودی عرب میں مقیم پاکستانی‘ دس ارب ڈالر سالانہ وطن بھیجتے ہیں۔ کل ترسیلات کا 60 فیصد۔ 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو ادھار پر 500 ملین ڈالر سالانہ کا تیل وہ بھیجتے رہے۔ سات برس تک پاکستان کے شاہی خاندان کو مہمانوں کا درجہ دیئے رکھا۔ 2013ء میں نواز حکومت بنی تو بجٹ کا خسارہ کم کرنے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر خزانچی اسحٰق ڈار کو بھجوائے۔
اب صرف ایک سوال باقی ہے۔ کیا تقدیر کے ہاتھوں ہم مجبور ہیں۔ جی نہیں‘ قرآن حکیم کچھ اور کہتا ہے: کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ اللہ نے انسانوں کو آزاد پیدا کیا اور آزاد ہی انہیں رکھنا چاہتا ہے۔ اس پر انشاء اللہ بعد ازاں۔ فی الوقت صرف یہ کہ طاقت ایک نفسیاتی چیز ہے‘ مادی نہیں!