بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ عرض یہ کرنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کی بجائے‘ عمران خان اپنا‘ ایک حکمران کا امیج کیسے تراش سکتے ہیں، تمہید میں ورق تمام ہوا۔ کل انشاء اللہ اس پہ بات کریں گے۔
کیا شریف خاندان کے اقتدار سے نجات ممکن ہے؟ ملک جس میں کبھی مستحکم نہ ہوگا۔ مظلوم کو کبھی انصاف نہ ملے گا اور سچا امن کبھی قائم نہ ہو سکے گا۔
اس سوال کا جواب اثبات میں ہے مگر اس کی شرائط ہیں۔ ان شرائط کو اگر پورا نہ کیا گیا تو ایک بار پھر وہ جیت جائیں گے۔ خود ترحمی کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔
مجھے اس میں قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ شریف خاندان کی حکومت کا آخری باب لکھا جا رہا ہے۔ پاناما لیکس سے اگر بچ نکلے تو وہ الیکشن ہار سکتے ہیں۔ الیکشن جیت بھی گئے تو کوس لمن الملک بجا نہ سکیں گے۔ جمہوریت کتنی بھی گئی گزری کیوں نہ ہو‘ اکتاہٹ کا عنصر آخرکار بروئے کار آتا ہے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے کہا تھا: اپنے حکمرانوں سے خلق کو ایک خاص طرح کی نفرت ہوتی ہے۔ ایسے حکمرانوں کو کب تک قوم گوارا کر سکتی ہے‘ شعبدہ بازی جن کا شعار ہے۔ قومی سلامتی کے باب میں جو بے حس اگر نہیں توبے نیاز بہرحال ہیں۔ بھارتی یلغار اور امریکی سازشوں کے ہنگام‘ پاکستانی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ تحفظ کا احساس ہے‘ ان لوگوں کی موجودگی میں‘ جو کبھی میسر نہیں آ سکتا۔ ایسا حکمران خاندان کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ جن کی اولاد اور دولت باہر پڑی ہو۔ دوسروں کو وہ سمجھاتے ہیں کہ پاکستان میں وہ سرمایہ کاری کریں ۔
دہشت گردی سے نجات پانے اور ایسے معاشی استحکام کے لئے ، شرح نمو جس میں کم از کم سات فیصد ہو ،ایسی حکومت درکار ہے‘ جو پولیس‘ افسر شاہی اور عدالتوں کو عمل کی آزادی عطا کرے۔ شریف خاندان کی موجودگی میں اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پٹواری اور تھانیدار وہ اپنی مرضی سے لگاتے ہیں۔ افسر اپنے مقرر کرتے ہیں‘ جو ہر حال میں ان کی خواہشات ملحوظ رکھیں۔ پاکستان کو توڑنے پر تلے بھارت کو ہرگز ہرگز اپنا دشمن وہ نہیں سمجھتے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے‘ دشمن کو وطن سے زیادہ عزیز رکھنے والے نجم سیٹھی کو ایک بار پھر کرکٹ بورڈ کی سربراہی سونپنے کا قصد ہے۔
تاثر یہ ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات سے بری طرح شریف خاندان خوفزدہ ہے۔ اس تاثر سے مجھے اتفاق نہیں ۔ کچھ نہ کچھ امکان تو بہرحال موجود ہے کہ تفتیش کاروں کا انتخاب سپریم کورٹ نے کیا ہے۔ ان کی نگرانی وہ کر رہی ہے اور میری معلومات کے مطابق کم از کم ایک اپوزیشن پارٹی بھی‘ جو ایسا کرنے کی تھوڑی سی صلاحیت رکھتی ہے۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پس پردہ جوڑ توڑمیں شریف خاندان کا کوئی ثانی نہیں۔ وسائل ان کے سب سے زیادہ ہیں۔ ذاتی کے علاوہ سرکاری بھی۔ کاروباری لوگ ان کے ساتھ ہیں۔اقتدار کے حریص طبقات اس کے ہم نفس ہیں۔ امریکہ ان کا پشت پناہ ہے اور عرب بھی۔ چین کی خواہش بھی یہ ہے کہ سی پیک کی خاطر پاکستان میں کچھ نہ کچھ قرار باقی رہے۔ اگرچہ مداخلت وہ نہیں کرتے ۔
پاناما کو کچھ دیر کیلئے اٹھا رکھیے۔ صرف دو راستے باقی ہیں۔ایک یہ کہ اس توہین کا بدلہ چکانے کیلئے، مسلح افواج جس سے دوچار ہیں ، عسکری قیادت وہ فیصلہ کر گزرے ،مخالفین جس کے آرزومند ہیں ۔ دو میں سے ایک قرینہ وہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اول یہ کہ پاناما لیکس میں شریف خاندان کو خطا کار ثابت کرنے پہ تل جائیں۔
مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ رعایت کے قائل نہیں۔ میری معلومات کے مطابق اور میرے ذرائع سو فیصد قابل اعتماد ہیں، ایک موثر وفاقی وزیر نے ان سے رابطہ کیا، عام طور پر اس طرح کے جھمیلوں میں جو نہیں پڑا کرتے ۔''کیا ارادے ہیں؟ ‘‘ انہوں نے سوال کیا۔ جواب ملا ''انصاف کا‘‘۔ایک آدھ رسمی سی بات وزیر صاحب نے مزید پوچھی اور مایوس ہو کر فون بند کر دیا۔دبائو ان پر ڈالا نہیں جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو عدالت کو وہ بتا دیں گے۔۔۔ اور یہ شریف خاندان کیلئے تباہ کن ہو گا۔
فوج اگر ان کی حوصلہ افزائی کرے ۔ثبوت فراہم کرنے پر تل جائے تو وہ عدالتی فیصلہ ممکن ہے، شریف خاندان کے مخالفین جس کے خواہش مند ہیں۔ کیا اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فوجی قیادت کو یہ کر گزرنا چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ بالکل نہیں اور قطعاً نہیں۔یہ سازش کی ایک شکل ہے اور سازش کا انجام ہمیشہ برا ہوتاہے ۔ ایک بحران سے نجات پانے کیلئے یہ ایک دوسرا بحران کاشت کرنے کے مترادف ہو گا۔فقط یہ کہ فوجی تفتیش کاروں کو پوری طرح انصاف پر قائم کرنے کے تاکید کی جائے۔اس سے زیادہ‘ نہ اس سے کم۔
جہاں تک جنرل باجوہ کو میں جانتا ہوں ، اپنی حدود سے وہ تجاوز نہ کریں گے ۔ان کا مزاج تو یہ ہے کہ اپنے پورے اختیارات بھی کم ہی وہ استعمال کرتے ہیں۔ ڈان لیکس میں بنیادی فیصلہ تو جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے کیا تھا مگر انہوں نے اسے برقرار رکھا۔ یہ کہ شاہی خاندان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔
ڈان لیکس کے ہنگام ان سے کہا گیا اور ایک آدھ نہیں‘ کئی لوگوں نے کہ وزیراعظم سے نجات حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ سب جانتے ہیں کہ فوج ایسے میں کیا کر سکتی تھی‘ مگر جنرل نے اس سے گریز کیا۔
وزیراعظم نے اس کی داد نہ دی۔ طے شدہ بات سے انحراف کیا۔ اسی لیے برہم ہو کر مسترد (Rejecte) کا لفظ برتا گیا۔ میں شاہد ہوں، اللہ کو حاضر ناظر جان کر میں گواہی دیتا ہوں۔ طے یہ پایا تھا کہ رپورٹ کے اٹھارویں پیراگراف پر عملدرآمد کا اعلان کرتے ہوئے‘ جنرل آصف غفور کے ٹویٹ کو غیرمتعلق (Irrelevent) قرار دیا جائے گا۔ آخری رسمی ملاقات میں وزیراعظم تل گئے کہ ان کی'' عزت بحال کرنے کے لیے‘‘ ٹویٹ واپس لینے کا اعلان کیا جائے۔ جنرل باجوہ اس پہ حیرت زدہ رہ گئے۔ مگر معلوم نہیں کیوں‘ وزیراعظم کی بات انہوں نے مان لی۔
ممکن ہے، دل سے وہ قائل ہوگئے ہوں ۔ اس لیے کہ بعدازاں‘ دہشت گردی کے خلاف جی ایچ کیو کے سیمینار میں، انہوں نے اس عمل کو جائز قرار دینے کی کوشش کی۔ اب انہیں ردّعمل کا سامنا ہے اور وسیع ردّعمل کا۔ وزارت داخلہ سوشل میڈیا پہ چڑھ دوڑی ہے‘ حالانکہ ناراضی کی فصل کہیں اور اگی ہے۔
فوج کا وقار بحال کرنے اور پاکستانی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے جنرل باجوہ کو لازماً کچھ اقدامات کرنا ہوں گے۔ وزیراعظم سے پہلے ہی وہ کہہ چکے‘ سر! ''میرا بھی ایک حلقہ انتخاب (Constituency) ہے‘‘۔ با ایں ہمہ ،یقین سے میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی سازش کا حصہ وہ نہیں بنیں گے۔ یہ ان کے مزاج اور افتاد طبع کا معاملہ ہے اور آدمی کی افتاد طبع ہی اس کی تقدیر ہوتی ہے‘ الّا یہ کہ حالات کا دبائو‘ کہیں اور اسے لے جائے۔
پاناما لیکس الگ‘ اور ابھی حتمی رائے اس پر دی نہیں جا سکتی۔ اس سے قطع نظر شریف خاندان سے نجات کا اب ایک ہی شائستہ، باوقار‘ قابل عمل اور معقول راستہ باقی رہ جاتا ہے۔ تحریک انصاف‘ نون لیگ کو شکست سے دوچار کر دے۔ نون لیگ ہرگز ایک مقبول جماعت نہیں۔ صرف جوڑ توڑ‘ صرف حکمت عملی میں ان کا ہاتھ بالا ہے۔
بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ عرض یہ کرنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کی بجائے‘ عمران خان اپنا‘ ایک حکمران کا امیج کیسے تراش سکتے ہیں، ورق تمام ہوا۔ کل انشاء اللہ اس پہ بات کریں گے۔
پسِ تحریر : ساہیوال میں وزیرِ اعظم کی تقریر سے ثابت ہوا کہ کپتان ان کے اعصاب پر سوار ہے ۔ ایک مرحلہ تمام ہوا ۔ دوسرے کی اسے تیاری کرنی چاہیے ۔