"HRC" (space) message & send to 7575

وہی بات!

اور آخر میں وہی بات۔ دوسروں کی خامیوں پر نہیں‘ زندگی اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے۔
انقلابِ فرانس‘ انقلابِ روس‘ انقلابِ ایران...اس ایک عظیم انقلاب کے سوا‘ چودہ سو سال پہلے جو مدینہ منورہ سے طلوع ہوا تھا‘ سب کے سب ناکام کیوں رہے؟ اس لئے کہ دانش سے زیادہ‘ جذبات کی حدت سے وہ پیدا ہوئے‘ عقل و خرد کی آبیاری سے محروم۔
صحرا کی تندوتیز آندھی کا جس نے مشاہدہ کیا ہو‘ وہی جانتا ہے کہ کیسی اذیت ناک وہ ہوسکتی ہے۔ ایسی ہی ایک آندھی کے دن‘ رحمتہ اللعالمینؐ ابوجہل کے دروازے پر تشریف لے گئے۔ انس اور الفت کے ساتھ پروردگار پر ایمان لانے کی اسے دعوت دی‘ مکّہ والوں کو جس نے خوف اور بھوک سے بچا رکھا تھا۔ ابوجہل کے مقدر میں ایمان نہ تھا مگر سوال دوسرا ہے۔ تاریخ انسانی کی جیّد ترین ہستی‘ اپنے عہد کے تاریک ترین آدمی کے دروازے پر کیوں گئی؟
اپنے اصحاب کے درمیان تشریف فرما‘ سرکارؐ کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس خیال سے وہ خوف زدہ ہو گئے کہ کوئی بڑی گستاخی سرزد ہو گئی ۔ ڈرتے ڈرتے سوال کیا گیا تو ارشاد کیا : میں نے انہیں یاد کیا جو تمہارے بعد آئیں گے۔ مجھے انہوں نے دیکھا نہ ہو گا مگر اتنی ہی محبت مجھ سے کریں گے‘ جتنی کہ تم کرتے ہو۔
منکرین حدیث کی بات دوسری ہے۔ سرکارؐ کا کوئی قرینہ ایسا نہیں کہ حکمت و دانش کے دریا‘ جس میں لہلہاتے نہ ہوں۔ آپؐ کی چار ہزار سنتیں گننے والوں نے گنی ہیں۔ مثلاً کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو پورے پیکر کے ساتھ۔ قرآنِ کریم کہتا ہے کہ مومنوں کے لیے وہ حریص ہیں‘ ان کی خیرخواہی اور بالیدگی کے لیے۔
اپنے بھائی شاہ فرمان اور خوش اخلاق عون محمد کے ساتھ میں نے زیادتی کی۔ غیر مشروط طور پر‘ ان سے میں معذرت خواہ ہوں۔ کوئی تاویل‘ مگر مئودبانہ ایک دو نکات ہیں ان کی خدمت میں ‘ عرض ہیں۔ 
زوال کی صدیوں کا المیہ یہ ہے کہ حسن نیت سے زیادہ‘ اعمال کی فضیلت پر زور دیا جانے لگا۔ حکمت و بصیرت کی بجائے‘ ضد کو پروان چڑھایا جانے لگا۔ ایسے بدبخت مسلمانوں میں پیدا ہو گئے‘ جنہوں نے اعلان کیا کہ تصوف ایک الگ مذہب ہے۔ جنید بغدادؒ سے لے کر‘ خواجہ مہرعلی شاہؒ تک کو دین ہی سے نکال باہر کیا۔
ڈاکٹر محمود غازی کی اللہ مغفرت کرے‘ ایک بار ان سے گزارش کی کیا تصوف پر اس رائے سے وہ متفق ہیں؟ فرمایا :بارہ صدیوں پر پھیلے صوفیا کوالگ کر دیا جائے تو باقی بچے گا کیا؟ بیسویں صدی کے علمی مجدد اقبالؔ کا کیا ہو گا۔ شیخ ہجویر ؒکے بارے میں‘ ارشاد جن کا یہ ہے۔ 
سیّدِ ہجویر‘ مخدومِ امم
مرقد او پیر ِسنجر را حرم
خاکِ پنجاب از دم او زندہ گشت
صبح مااز مہر او تابندہ گشت
سید ہجویر‘ اُمتوں کے سردار ہیں‘ ان کا مرقد‘پیرِ سنجرکے لیے حرم ہے۔ خاک ِپنجاب‘ ان کے دم سے زندہ ہوئی۔ میری سحر اس کے مہتاب سے تابناک ہے۔
انقلابیوں نے اس دنیا کو کبھی کچھ نہیں دیا۔ آخری تجزیے میں وہ بدترین ظالموں سے بھی زیادہ ظالم نکلے۔ پانچ کروڑ روسیوں کو سٹالن‘ اس کے پیش روئوں اور پسماندگان نے قتل کر ڈالا۔ ایک کروڑ کو مائوزے تنگ نے۔ مساوات کے نعرے پر استوار معیشت نے آدمی کو افلاس کے سوا کچھ بھی عطا نہ کیا۔ سوویت یونین کے آخری برسوں میں‘ پانچ لاکھ افراد ڈبل روٹی کے لیے ماسکو کے شہر میںداخل ہوا کرتے۔
آدمی زعم کا شکار ہو جائے تو عقل اس کی خبط ہو جاتی ہے۔ 
رتی برابر مجھے اس میں شبہ نہیں کہ شریف خاندان کے اختتام کا وقت آ پہنچا۔ چند ہفتے‘ چند ماہ یا دو تین برس۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایوب خاں کا آخری عہد یاد آتا ہے۔ دس برس کے کارناموں کا جشن اس حال میں برپا تھا کہ ایک تہائی سے زیادہ لوگ مشتعل تھے۔
شریف خاندان کا عالم بھی یہی ہے۔ آئندہ مالی سال کے آخر تک‘ اسحٰق ڈار 32 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے وصول کر چکے ہوں گے۔ سیاستدان تو سوئے پڑے ہیں‘ ماہرین پریشان ہیں کہ دوتین برس نہیں تو خدانخواستہ چار پانچ سالوں میں ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ چار سال میں برآمدات 25 فیصد کم ہو گئیں۔ سمندر پار پاکستان کی ترسیلات زر میں کمی کا رجحان ہے۔ امسال سرکاری اخراجات کے لیے 15 ارب ڈالر قرض لیا جائے گا۔ اس سے اگلے برس شاید بیس ارب ڈالر۔ تجارتی راہداری کا چرچا بہت ہے۔ قوم کو مگر معلوم نہیں کہ چینی سرمایہ کاری کی شرائط کیا ہیں۔ شاہراہ ریشم کی تعمیر و مرمت کے اخراجات مارکیٹ سے چھ گنا زیادہ ہیں۔ بعض منصوبوں میں منافع کی شرح 30 فیصد سالانہ۔
کچھ بھی ہو‘ شریف خاندان آخر کار عوامی عتاب کی زد میں آئے گا۔خس و خاشاک کی طرح وہ اسے بہا لے جائے گا۔ پانامہ سے بچ نکلے تو یہ ایک معجزہ ہو گا۔ الیکشن جیت گئے تو اس سے بڑا معجزہ۔ مگر ملک کی معاشی بدحالی کے ہنگام‘ کوئی انہیں بچا نہ سکے گا۔
خود اپنی قبر کھودنے والوں کے خلاف چیخ و پکار کی ضرورت کیا ہے؟ ہر وقت عمران خان ان کی مذمت میں کیوں جتے رہتے ہیں؟ 
ضرورت تو بس ایک ہے کہ ابھی سے قوم کو بچالینے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ ہر سال پانچ سو ارب روپے‘ پی آئی اے‘ ریلوے‘ سٹیل مل‘ واپڈا میں ڈوب جاتے ہیں۔ ابھی تک اس سوال پر غور ہی نہیں کہ ان اداروں کا کیا ہو گا؟ برباد ہوتی معیشت کے ساتھ‘ دہشت گردی سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ کپتان اور اس کے ساتھیوں نے اس سے نمٹنے کی کبھی کوئی منصوبہ بندی فرمائی ہے؟
فخرِ ایشیا‘ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے عہد سے سول سروس کی تباہی کا آغاز ہوا۔ اصیل گھوڑے‘ خچر اور خچر سے گدھے بنا دیئے گئے۔ ایک جدید اور پائیدار سول سروس کی تشکیل کے لیے پی ٹی آئی کا لائحہ عمل کیا ہے؟ زراعت کو اکیسویں صدی کے خطوط پر استوار کرنے کے لیے بنی گالہ نے اب تک کیا کیا ؟ لاہور کے صنعت کار گھرانے کو فیصل آباد سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ پاکستان کی برآمدات میںٹیکسٹائل ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس کی خرابی کے ہمیشہ وہ درپے رہے۔ فیصل آباد کے بعض صنعت کاروں سے پوچھا کہ کیوں اسحٰق ڈار کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے۔ ''ایسی تحقیر وہ کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ‘‘۔ ان میں سے ایک نے کہا : گیس کی سپلائی روک دینے سے‘ وزیراعظم اپنے ارکان اسمبلی کو جو فیاضی سے عطا کرتے ہیں‘ سینکڑوں فیکٹریاں بند ہو چکیں۔ لاکھوں بے روزگار۔ کپتان اور اس کے ساتھیوں سے سوال یہ ہے کہ کیا اس بحران کا کبھی انہوں نے مطالعہ کرنے کی زحمت کی؟
ریاض میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب سے بارِدگر آشکار ہوا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ پاک فوج کے درپے ہے۔ کشمیر میں قتل عام کے باوجود‘ وزیراعظم قاتلوں کی برائے نام مذمت پر بھی آمادہ نہیں۔ عمران خان عنان اقتدار سنبھالنے کے آرزومند ہیں۔ مگر یہ تو فرمائیں کہ مظلوم کشمیریوں کے لیے خود انہوں نے کیا کیا؟ ایک سیمینار تک نہیں۔ کشمیر کمیٹی کومولانا فضل الرحمن سے نجات دلانے کے لیے‘ سیاسی رہنمائوں سے رسمی رابطے کی زحمت انہوں نے گوارا کی؟
اس اندازِ فکرکے ساتھ اوّل تو اقتدار وہ جیت نہ سکیں گے۔ خلق خدا ایک ذمہ دار لیڈر انہیں باور ہی نہ کرے گی۔ جیت گئے تو اس شعار کے ساتھ کامران وہ کیسے ہوں گے؟
اور آخر میں وہی بات۔ دوسروں کی خامیوں پر نہیں‘ زندگی اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں