"HRC" (space) message & send to 7575

اقتدار کے بھوکے پاگل ہو رہے ہیں

انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے، جس قدر جلد ممکن ہو ، سپریم کورٹ کو فیصلہ صادر کرنا چاہیے۔ صف بندی کے دونوں طرف اقتدار کے بھوکے پاگل ہوتے جا رہے ہیں۔ 
تھانیدار اب دروازے پر بیٹھا منمنا رہا تھا ۔ منت سماجت کر رہا تھا۔ پھر اس کے سفارش کرنے والے آئے اور یہ کہا : آپ سے خوف زدہ، اب وہ ہمیشہ آپ کی بات مانتا رہے گا۔ براہِ کرم اسے بحال کرا دیجیے۔ 
اب بھی وہ بد بخت یہیں کہیں موجود ہو گا۔ یہ پندرہ برس پہلے کا واقعہ ہے۔ میری نورِ نظر ہسپتال میں تھی۔ ڈاکٹر نثار چیمہ کو اللہ اپنے امان میں رکھے۔ دن بھر وہ اور ان کے معالج دیکھ بھال کرتے رہتے۔ اللہ اللہ کر کے ٹوٹتی سانس جڑنے اور سنبھلنے لگی۔ محلے والوں کا ایک وفد اتنے میں آیا اور کہا کہ ایس ایچ او نے زندگی عذاب کر رکھی ہے۔ ٹیکسی پر سوار ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی سے میں روانہ ہوا کہ وزیرِ داخلہ معین الدین حیدر کے دروازے پر دستک دوں۔ جنرل حیدر میرے محترم چوہدری نثار علی خان کی طرح نہیں تھے کہ ملاقات کے لیے اسلام آباد کے آئی جی اور سیکرٹری داخلہ کو بھی ہفتوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا فرمان یہ ہے : تمام دانائی کا نصف خلق میں گھلنا ملنا ہے۔ 
جنرل کے پرنسپل سیکرٹری طارق محمود مجھے روکتے رہے کہ وزیرِ داخلہ تو کچھ دیر میں کراچی سے گھر پہنچیں گے ۔ میں نے کہا، طارق صاحب تو کیا؟ اتنے میں آپ کے ساتھ چائے کی ایک پیالی پیوں گا۔ جنرل صاحب پہنچے تو کچھ حیران کہ ایسی بھی تعجیل کیا تھی ۔ انہیں بتایا کہ تھانیدار نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ چوری کی ایک چھوٹی سی واردات ہو جائے تو درجنوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ جن کا وہ پڑوسی ہے ، جن جن کے ساتھ کبھی چائے پی، گپ شپ کرتے دیکھا گیا۔ پھر بیس پچیس ہزار روپے وصول کر کے رہا کیے جاتے ہیں ۔ طارق محمود نے لقمہ دیا ''ایس ایچ او کا بیٹا نیو یارک میں زیرِ تعلیم ہے۔ ایک لاکھ روپے ماہوار وہ اسے بھیجا کرتا ہے‘‘۔
اسی وقت بدقماش افسر کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا۔ نیک نام ناصر درانی اسلام آباد کے ایس ایس پی تھے۔ بعد ازاں جو خیبر پختون خوا کے انسپکٹر جنرل ہوئے اور ایک سنہری باب رقم کیا۔ وہ چیختے رہ گئے کہ انکوائری ہونی چاہیے۔ جنرل کو معلوم تھا کہ شکایت سچی ہے۔ اب اس کے سفارش کرنے والے مجھ ناچیز کے گھر براجمان تھے۔ علاقے کا ایک کروڑ پتی زمیندار بھی۔ گھن آنے لگی ۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں لوگ کس قدر دیوانے سے ہو جاتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ ایک گھٹیا تھانیدار کے رفیق۔ پھر اس پہ کیا تعجب کہ اخبار نویس ، وزرائِ اعلیٰ ، وزیرِ اعظم ا ور صدر کے قصیدے لکھتے ہیں۔ ان کے لیے دلائل تراشتے اور ان کے مخالفین کو گالی بکتے ہیں۔ کیسا کیسا دانشور ! لوہ سون، اس چینی مفکر نے کہا تھا : لکھنے والے کی مرضی ہے کہ بادشاہ بنے یا بھکاری ۔ 
غلبے کی قدیم انسانی جبلت۔ آدمی کی پوری تاریخ شاید اسی ایک محور کے گرد گھومتی ہے۔ اظہارِ ذات کی تمنا ، نمایاں ہونے کی خواہش ۔ دوسروں سے بلند و بالا ہونے کی آرزو۔ کیسی کیسی عقلیں، کتنی ہی اجلی ذہانتیں اس گلی میں خاک ہوتی ہیں ۔ اقبالؔ نے جب یہ کہا کہ ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیاست تو غالباً اسی پسِ منظر میں کہا تھا... اور بے مثل شاعر ملٹن نے یہ کہا تھا to reign is worth ambition though in Hell: Better to reign in Hell, than serve in Heaven. 
اپنی امت کے لیے سرکار ؐ نے حکمرانی کو خاکساری بنا دیا ۔ آدمی کی جبلت لیکن پھر پلٹ کر آئی ۔ خدا کی بستی میں ہمیشہ اسی کے ہاتھوں آدمی رسوا ہوا۔ ذاتی اور اجتماعی حیات دونوں میں ۔ صرف ملوکیت اور غلامی ہی نہیں ، نام نہاد جمہوریت میں بھی۔ 
کس قدر مکروہ اور اذیت ناک تماشا ہمارے سامنے برپا ہے۔ کل شام جناب مجیب الرحمٰن شامی نے ایک ٹویٹ کی: نواز شریف کے مخالفین کی سازش ناکام رہی، تصویر جاری کرنے سے حسین نواز نے الٹا ہمدردیاں سمیٹیں۔ ان کی خدمت میں سوال کیا: کیسے آپ کو معلوم ہوا کہ تصویر نون لیگ کے حریفوں نے شائع کی ہے؟ کافی معلومات کے بغیر حتمی رائے آپ کیونکر دے سکتے ہیں؟... اور اگر دیتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ ابھی تک ان کے جواب کا انتظار ہے۔ 
جوڈیشل اکیڈمی کی عمارت خفیہ ایجنسیوں کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے اختیار میں ہے۔ سپریم کورٹ کا ایک بنچ جس کا نگران ہے ۔ یہ فرض عدالت اور تحقیقاتی ٹیم کا ہے کہ تیزی سے تفتیش کر کے مجرم کو وہ بے نقاب کرے ۔ کھیل تماشا نہیں، یہ ایک بہت ہی نازک معاملہ ہے ۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک وزیرِ اعظم پہ بڑے پیمانے پر کالا دھن سفید کرنے اور بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں۔ سپریم کورٹ ہی اس کی تحقیقات کا موزوں ترین ادارہ ہے۔ وحشت زدہ، ان لوگوں پہ خدا رحم کرے ، انصاف کے اس عمل کو جو پٹڑی سے اتارنے کے درپے ہیں۔ اپنے اخلاق اور اپنی قوم کے دشمن! 
تحریکِ انصاف کے فواد چوہدری کو کس نے خبر دی کہ تصویر خود نون لیگ نے جاری کی ہے ؟ خود ترسی کے مارے مصدق ملک کیونکر یہ دعویٰ فرما رہے ہیں کہ اپوزیشن ذمہ دار ہے ۔ خواجہ سعد رفیق کو یہ الہام کیسے ہوا ؟ اللہ کے آخری رسولؐ کا ارشاد یہ ہے : کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کو اتنا ہی کافی ہے کہ سنی سنائی پھیلاتا رہے۔ یہ لوگ اس سے بھی آگے بڑھ گئے ۔ قوم کی رہنمائی کے یہ دعویدار ! 
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاںؐ گئی
موقعہ سے فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ تحقیقاتی ٹیم کو متنازعہ بنا رہے ہیں ، کچھ عدالت ہی کو۔ ایک میڈیا گروپ اس میں پیش پیش ہے ۔ ایک سال کے اندر دو سرکاری بینکوں سے جس نے تین ارب کے قرضے حاصل کیے۔ چھ ماہ ہوتے ہیں ، ان میں سے ایک بینک کا افسر فریاد کناں تھا: مزید ایک ارب جاری کرنے کے لیے ہم پر شدید دبائو ہے ۔ 
سب سے بڑا کارنامہ میاں محمد نواز شریف کے ایک فدائی نے انجام دیا ۔ سوشل میڈیا پر خدمتِ خلق کا فریضہ انجام دینے والے ایک گمنام آدمی کی مدح کرتے ہوئے آنجناب کا ارشاد اس نے نقل کیا ہے: نوے فیصد اخبار نویسوں کی پیدائش کا سبب سلطان راہی کا وہ مکالمہ ہے '' باہر آ او بے غیرتا‘‘ آخ تھو! کس ذہنیت کا آدمی ایسی بات کہہ سکتا ہے؟ کس ذہنیت اور مزاج کا دانشور اس پر داد دے سکتا ہے؟
انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، جس قدر جلد ممکن ہو ، سپریم کورٹ کو فیصلہ صادر کرنا چاہیے۔ صف بندی کے دونوں طرف اقتدار کے بھوکے پاگل ہوتے جا رہے ہیں۔

غلبے کی قدیم انسانی جبلت۔ آدمی کی پوری تاریخ شاید اسی ایک محور کے گرد گھومتی ہے۔ اظہارِ ذات کی تمنا ، نمایاں ہونے کی خواہش ۔ دوسروں سے بلند و بالا ہونے کی آرزو۔ کیسی کیسی عقلیں، کتنی ہی اجلی ذہانتیں اس گلی میں خاک ہوتی ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں