قرائن یہ ہیں کہ کشمیر کی آزادی کا وقت قریب آ لگا ہے ۔ بھارتی الٹے بھی لٹک جائیں تو تادیر سری نگر پہ مسلط نہیں رہ سکتے ۔ یہ الگ بات کہ قائدِ اعظم ثانی اپنے کشمیری بھائیوں سے زیادہ نریندر مودی کو آسودہ رکھنے کے آرزو مند ہیں ۔
سیّد صلاح الدین کہاں ہیں ؟ عید کی شام امریکہ نے انہیں عالمی دہشت گرد قرار دیا تو ان سے ملنے کو جی بہت چاہا۔ پندرہ برس ہوتے ہیں ، مظفر آباد میں تیسری یا چوتھی منزل پر ، ہوٹل کی سڑھیاں چڑھ کر تشریف لائے تو سانس قدرے ناہموار تھی ۔ بولے : ہارون صاحب آپ ہمیشہ بلندیوں پر ہی آشیانہ کیوں بناتے ہیں ؟ یہ عشا کی نماز کا وقت تھا۔ پھرتی سے ان کے ساتھیوں نے صفیں بچھا دیں اور وہ امامت کے لیے کھڑے ہوئے۔ اس آواز کی حلاوت آج تک کانوں میں رس گھولتی ہے ۔ ایسی ہی ایک نماز نومبر 1969ء میں مولانا غلام اللہ خان کے مدرسے میں مولانا احتشام الحق تھانوی کی اقتدا میں پڑھی تھی ۔ سیاست الگ، مولانا قرآن پڑھتے تو ایسا لگتا کہ آسمان سے نازل ہو رہا ہے ۔ مارچ 1991ء میں پاڑہ چنار سے اوپر، آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر حدّ نظر تک ، برف پر جہاں چاندنی جادو جگایا کرتی، کچھ نمازیں گلبدین حکمت یار کی امامت میں پڑھنے کا موقعہ ملا۔ فرائض کے بوجھ سے جھکا ہوا ، عدیم الفرصت آدمی فجر کی نماز میں دیر تک تلاوت کیا کرتا۔ کبھی ایسا لگتا کہ کائنات کی گردش تھم گئی ہے شجر و حجر دم سادھے اس الوہی آواز کی بازگشت میں گم ہیں؛ حتیٰ کہ آسمان اور اسے زینت عطا کرنے والے ستارے بھی۔
جلتے ہر شب ہیں آسماں پہ چراغ
جانے یزداں ہے منتظر کس کا
قدرے فراغت کی گفتگو میں ایک سہ پہر، جب میں نے ان کے مطالعے کی حدود جاننے کی کوشش کی تو بہت سے اہلِ علم کا حوالہ دینے کے بعد انہوں نے کہا ''مگر زندگی کے سب اسرار میں نے قرآن کریم سے سیکھے ہیں۔‘‘
حکمت یار کا حافظہ بلا کا تھا۔ ان گنت بکھیڑوں میں الجھے ہوئے‘ مگر گزرے وقتوں کی ایک ایک بات انہیں یاد رہتی۔ تیس برس پہلے زمانہ طالبِ علمی کا کوئی مکالمہ کبھی لفظ بہ لفظ دہرا دیتے۔ گن گن کر الفاظ خرچ کرنے والا یہ آدمی ٹھہر ٹھہر کر بات کرتا اور اپنے بارے میں تو بہت ہی کم۔ 1968ء میں پہلی بارگرفتار ہوا تو قرآنِ کریم کے 22 سیپارے حفظ کر لیے۔ پھر 1992ء کی خانہ جنگی میں فرصت ملی تو باقی آٹھ بھی۔
کہا جاتا ہے کہ صلاح الدین کو حکمت یار سے ایک نسبت ہے ۔ میں نے تو ان دونوں کو مختلف پایا۔ رومان پسندی کے باوجود حکمت یار ایک عملی آدمی ہیں ۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے، پھر اس سے سر مو انحرا ف نہ کرنے والے ۔ زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھنے اور اپنے فیصلے خود صادر کرنے والے ۔ اگر ان میں کچھ زیادہ لچک ہوتی تو ایک اور زندگی بسر کرتے ۔ گاہے یہ آرزو دل میں پھوٹتی ہے کہ وہ پاکستان آ سکیں تو کچھ اہلِ علم سے ان کی ملاقات کرائوں ۔ خوش گمانی یہ ہے کہ شاید ان کے اندازِ فکر میں بالیدگی بڑھ جائے۔ کچھ گرہیں شاید کھل جائیں ۔
صلاح الدین اور طرح کے ہیں ۔ بہت سادہ اطوار ، بہت پرتپاک ، گھل مل جانے والے ۔ ان میں دل موہ لینے والی اپنائیت ہے ۔ پیار سے ان کے ساتھی انہیں ''پیر صاحب‘‘ کہتے ہیں؛ حالانکہ ایک مقدس ہستی بننے کی تمنا ان میں دکھائی نہیں دیتی۔ اصل نام ان کا سید محمد یوسف ہے ۔ علم الاسما کے ماہرین یہ کہتے ہیںکہ ذرا سا بھی اچھا ماحول ملے تو یوسف ایک اچھا منتظم بن جاتا ہے۔ ایک جنگی کمانڈر ہونے کے باوجود، جو وہ مدتوں رہے، وہ عبادت و ریاضت اور وظائف و اوراد کے آدمی ہیں ۔ ایک گداز اور رچائو ہے۔ حیرت ہے کہ اس پڑھے لکھے آدمی نے اپنا حلیہ روایتی علما کا سا کیوں بنا رکھا ہے۔ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کا اصرار ہے کہ جس سنت کو اہلِ فسق اپنا لیں اس کا ترک اس کے اختیار سے بہتر ہے۔
تصوف سے صلاح الدین کو دلچسپی ہے ۔ ایک شب دریائے چناب کے کنارے ، جب مظفر آباد کے سر سبز پہاڑوں پہ قندیلیں روشن تھیں، سوال کیا تو انہوں نے کہا: اس کے لیے فرصت فراغت اور تنہائی درکار تھی‘ عمر بھر جو نصیب نہ ہو سکی۔
کیسے کیسے شہسوار تھے، جو سیاسی تنازعات کی دھند میں دیکھے گئے۔ کیسے کیسے امکانات تھے ، جو خاک بسر ہوئے۔ قرآنِ کریم ہی سچا ہے، جو اطلاع دیتا ہے کہ درجات علم کے ساتھ ہیں۔
ایک بار میرے ساتھ وہ درویش سے ملنے گئے۔ ان کے رفقا میں ایک نوجوان تھا۔ فقیر نے اچانک اس سے کہا ''ابراہیم، لیڈر بننے کی تمہیں ایسی جلدی کیا ہے ؟‘‘ صلاح الدین چونکے اور بے ساختہ کہا : ایسا ہی ہے ، بالکل ایسا ہی۔ ہمیشہ کے دھیمے لہجے میں درویش نے کہا: جو کچھ آپ کے بارے میں عرض کیا ، وہ بھی اتنا ہی درست ہے۔ سیّد صاحب کے بارے میں انہوں نے کہا تھا: آپ کی زندگی میں جذبات کا غلبہ رہا۔ پھر کچھ دعائیں تعلیم کیں۔ شائستگی ان میں یوں بھی بہت ہے۔ وادی کے مکینوں کا شعار بھی یہی ہے۔ جتنی دیر وہاں رہے، مودب رہے۔
امام یاد آئے ، امام اعظم ابو حنیفہؒ۔ راوی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادقؒ کی خدمت میں آپ حاضر ہوتے تو اتنے مودب نظر آتے کہ مرعوب۔ فرمایا کرتے: علم میں ان کا کوئی ہمسر دیکھا اور نہ زہد میں۔ ایمان جن کے دلوں میں رچ بس جاتا ہے ، ایسا ہی انکسار ان میں ہوتا ہے۔ وہ ہم ایسے گنوار نہیں ہوتے۔ یٰسین ملک سمیت کچھ دوسرے کشمیری لیڈر بھی بعد ازاں درویش سے ملے۔ آج بھی کوئی کٹھن وقت آئے تو یٰسین ملک دعا کی درخواست کے ساتھ انہیں پیغام بھیجتے ہیں۔ کشمیری لیڈروں میں سے ہر ایک سے عارف نے یہ کہا : بھارت خاک چاٹے گا اور آزادی انہیں نصیب ہو گی ۔ عسکریت اور قوم پرستی مگر اس کا راستہ نہیں ۔ جہاد کے تقاضے شدید ہیں ۔ دوسروں سے پہلے وہ اپنی اصلاح کی تلقین کرتا ہے ۔ یہی جہادِ اکبر ہے۔ ایک موقع پر سننے والوں کو جتلایا کہ جہاد کے موضوع پر قرآنِ کریم کی 28 آیات میں سے 20 کا تعلق تزکیہء نفس اور فقط آٹھ کا تعلق قتال سے ہے۔
نریندر مودی کی آرزو پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیّد کو اگر عالمی دہشت گرد قرار دیا ہے تو صدمے اور خوف کی کوئی بات نہیں۔ وہ عالمِ اسلام سے بغض رکھنے والے آدمی ہیں۔ اس لیے اسرائیل کے سوا، ہر کہیں نامقبول ہیں۔ ایک سطحی سیاستدان ، سرمایہ پرست اور وحشی۔ عالمِ اسلام کا مسئلہ اس کا اپنا انتشار و افتراق ہے، امریکہ یا مغرب نہیں۔ قرآنِ کریم میں فرمان یہ ہے: انتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ تمہی غالب رہو گے، اگر تم مومن ہو۔ مومن تو کیا، اب تو کوئی مسلمان بھی دکھائی نہیں دیتا۔
آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
وہ زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
بندوں کے اپنے فیصلے ہیں اور اللہ کے اپنے ۔ صلاح الدین بے نیازی کی گرد میں گم سے ہو چلے تھے کہ امریکہ نے یہ اقدام کیا۔ ان کے لیے اور کشمیریوں کے لیے یہ عید کا تحفہ ہے ۔ اب وہ اجاگر ہیں ۔ ان کی مقبولیت اب بڑھے گی۔
قرائن یہ ہیں کہ کشمیر کی آزادی کا وقت قریب آ لگا ہے۔ بھارتی الٹے بھی لٹک جائیں تو تادیر سری نگر پہ مسلط نہیں رہ سکتے ۔ یہ الگ بات کہ قائدِ اعظم ثانی اپنے کشمیری بھائیوں سے زیادہ نریندر مودی کو آسودہ رکھنے کے آرزومند ہیں۔