قسم ہے زمانے کی
بے شک انسان خسارے میں ہے
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے
حق کی نصیحت کی اور صبر کی ۔
یہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں کہ صداقت اور تحمل کی تلقین اسی کو زیبا ہے‘ کسی نہ کسی درجے میں جو خود بھی اس پر عمل پیرا ہو۔چیخنے‘ چلّا نے والے نہیں۔تعصبات اور مفادات کے بندے نہیں۔
پیر کے دن‘ جناب اسحٰق ڈار کی گریہ وزاری سے آشکار ہوا کہ میاں محمد نوازشریف اور ان کی ٹیم ہار گئی ہے۔ اس بری طرح ہاری کہ قابل رحم ہوگئی۔ ان کے لوگ تلملا رہے ہیں‘ رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ فریاد کر رہے ہیں۔ ان پراللہ کرم فرمائے‘ ایسا لگتا ہے کہ کوئی دن میں عبرت کا نمونہ بننے والے ہیں۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔بادشاہ جب تکبر کا شکار ہوتے ہیں تو وبال انہیں آ لیتا ہے۔ پھر ان کا حال بھکاریوں سے بدترہوا کرتا ہے۔
آدمی خواب دیکھتا‘ تدبیر اور جستجو کرتا ہے۔ ایک قدسی حدیث یہ کہتی ہے کہ پھر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دیکھنے والوں کی نگاہ میں ‘انجام نا آشنا دانش میں اس کی تمنائیں سپھل ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ طاقت‘ اقتدار اور رسوخ وہ حاصل کرتا ہے لیکن آخرکار اپنی عظیم الشان کامیابیوں کے ساتھ‘ وہ تنہا‘ بے بس اور لاچار نظر آتا ہے۔ زندگی اپنا قرض واپس مانگتی ہے۔ اپنے ناولٹ ''ندّی‘‘ میں اس نادر روزگار افسانہ نگار عبداللہ حسین نے لکھا تھا: وہ سب کچھ جو خالص اور خوبصورت ہے‘ خام اور بھدّا بن جاتا ہے‘ ٹوٹ کے گر پڑتا ہے‘ پیچھے رہ جاتا ہے اور بھلا دیا جاتا ہے۔ ہمیشہ سے آدمی کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا۔باقی صرف وہ چیز بچتی ہے ‘جس کی بنیاد مضبوط اور استوارہو۔وہ شجر جس کی جڑیں گہری اور ٹہنیاں آسمان تک پھیل جاتی ہیں۔
اس لافانی ادیب اور شاعر‘ شیکسپیئر کو اقبالؔ نے‘تاریخ ِانسانی کے منفرد لوگوں میں سے ایک قرار دیا تھا‘ وقت جنہیں زندہ رکھتا ہے‘ ایسے لوگ جو قدرت استثنیٰ کے طور پر پیدا کرتی ہے کہ اس کی عظمت کے گواہ ہوں۔
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
صدیوں سے جیتے جاگتے ‘اس کے تمام ڈراموں کا یہی ایک موضوع ہے۔ چالاکی اور بے رحمی کے ساتھ کس طرح فاتحین ایک کے بعد‘ دوسری منزل سر کرتے چلے جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ وقت اپنی میزان گاڑ دیتا ہے۔ قدرت کا اَن دیکھا ہاتھ بروئے کار آتا اور فیصلہ صادر کرتا ہے۔ پھر کسی سیزر کی لاش پر کھڑا کوئی انطونی پکارتا ہے۔ ''All thy greatness, glories and Trumphs are Shrunk to this Measure?‘‘ یہ ہے‘ تمہاری تمام خیرہ کن فتوحات‘ عظمتوں اور کامیابیوں کا انجام ؟
آخری فیصلہ صادر ہونے سے پہلے خدا کی اس زمین پر‘ کوئی کامیابی‘ کامیابی ہوتی ہے اور نہ کوئی ناکامی‘ ناکامی ہوا کرتی ہے۔
تین ہزار برس ہوتے ہیں‘ اپنے عہد کے سب سے بڑے فاتح بالطشتنر نے‘ عالم خواب میں لکھا ہوا دیکھا: ''تجھے تولا گیا اور تو کم نکلا‘‘۔ یہ وہی آدمی ہے‘ لبنان‘ اردن‘ فلسطین اور موجودہ سیریا پر مشتمل بلادِ شام کو جس نے ایک ویرانے میں بدل ڈالا تھا۔روتے پیٹتے ‘ گریاں اور پامال‘ قافلوں کے قافلے اس سرزمین سے نکلے۔ ان میں کچھ اصفہان میں براجے‘ کچھ نے خراسان کے اس حصے کا قصد کیا‘ جو بعد میں افغانستان کہلایا۔ کچھ نے دنیا کے سب سے اونچے میدان کثیر کا رخ کیا‘ جو اب وادیٔ کشمیر کہلاتا ہے۔ جہاں شاید آنے والی کل کے تاریخی عوامل ڈھل رہے ہیں۔ وہ جو مشرق کے فقیدالمثال فلسفی نے کہا تھا۔
کھول کر آنکھیں‘ مرے آئینہ گفتار کی
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
اپنے حریف کو جناب اسحٰق ڈار نے جھوٹا‘ جواری‘ جعل ساز‘ ٹیکس چور اور بزدل کہا۔ عمران خان فرشتہ نہیں۔ بعض الزامات‘ جزوی یا کلی طور پہ شاید درست بھی ہو سکتے ہیں۔ آئینے کے مقابل کھڑے ہو کر‘ ڈار صاحب اگر خود سے سوال کر یں تو ممکن ہے کہ ان میں سے بعض خطابات کے‘ مخاطب سے زیادہ وہ خود‘ ان کے رفیق یا رہنما مستحق ہوں۔ مثال کے طور پر کھلاڑی اور ملازمت پیشہ لوگ‘ ٹیکس چور اور جعل ساز نہیں ہوتے۔ہو سکتے ہی نہیںکہ اختیار ان کا محدود ہوتا ہے بلکہ تاجر‘ صنعت کار اور حکمران۔ بزدل بھی عمران خاں بہرحال نہیں‘ کم از کم ان کے مقابلے میں تو ہرگز نہیں۔ کبھی اس کا مؤقف غلط اور کبھی اس کا کردار ناقص بھی ہوتا ہے‘ مگر پینتالیس برس سے‘ زندگی کے میدان میں وہ ڈٹ کر کھڑا ہے۔ کھیل میں‘ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی ایسے اداروں کی تعمیرکے کٹھن مراحل میں۔ اور اب بیس برس سے سیاست کے خارزار میں۔ سرمایہ داروں‘ سیاسی طفیلیوں‘ لے پالک اخبار نویسوں کے ریوڑ اور شعبدہ باز میڈیا گروپوں کی پشت پناہی کے باوجود‘ سخت جان کھلاڑی نے انہیں زچ کردیا ہے۔ اور وہ رو پڑے ہیں۔محترم وزیرخزانہ کے برعکس اعدادوشمار میں فریب دہی کا الزام اس پر کبھی عائد نہ کیا گیا۔ رہی بزدلی تو اس کے بدترین دشمن بھی کبھی اس کا مرتکب اسے نہ ٹھہرا سکے۔ جناب اسحٰق ڈار کی طرح وہ کبھی وعدہ معاف گواہ نہ بنا۔ شریف خانوادے کی طرح معافی مانگ کر کبھی جلاوطنی گوارا نہ کی۔ ڈار صاحب تو خود مانتے ہیں کہ مجسٹریٹ کی عدالت میں‘ جہاں کوئی بندوق ان کی کنپٹی پہ دھری نہ تھی‘ کانپتے ہونٹوں سے‘ نا کردہ گناہوں کا انہوں نے اعتراف کر لیا تھا۔ اپنے ہی نہیں ‘اپنے محسن کے بھی۔
فرض کیجئے‘ اپنے مخالف پہ سب کے سب الزامات ڈار صاحب کے درست ہوں‘ ہرگز جو درست نہیں تو بھی ڈار صاحب اور ان کے آقا بری نہیں ہوتے۔ مقدمہ یہ نہیں کہ عمران خاں جعلساز ہے یا نہیں۔ مقدمہ یہ ہے کہ لندن کی سرزمین پر جگمگ کرنے والا شریف خاندان کا مال طیب ہے یا آلودہ۔ قومی خزانے میں نقب زنی سے حاصل کی جانے والی کمائی ہے‘ یا خون پسینے کی۔ عمران خاں کو نہیں‘ الیکشن کے دن ووٹ کی پرچی ڈالنے والوں کو نہیں بلکہ عدالت کو اس مقدمے کا فیصلہ کرنا ہے۔ اور عدالت اپنا فیصلہ دلائل و شواہد کی بنا پر صادر کرے گی۔ اگر یہ ایک جھوٹا فیصلہ ہوا تو دریابرد کردیا جائے گا‘ روند ڈالا جائے گا۔ جعلی اور جھوٹا مگر کیوں ہوگا؟۔ ججوں کا ماضی آلودہ ہے اور نہ تفتیش کرنے والوں کا؛ اگرچہ منشیوں اور محرّروں کی ایک بڑی تعداد یہ ثابت کرنے میں لگی ہے۔ وہ لوگ جن کے مفادات حکمران خاندان سے وابستہ ہیں یا جو ذہنی اور فکری ژولیدگی کا شکار ہیں۔ حکمران کو ہمیشہ گواہ میسر آتے ہیں،خواہ یزید ہی کیوں نہ ہو۔ دربار کے مخالف پر تبرّیٰ کیا جاتا ہے‘خواہ سیدہ فاطمۃ الزاہراؓ کے لخت جگر ہی کیوں نہ ہوں۔ ملاّ اور منشی لوگ ہمیشہ اس کارِخیر کے لئے میسر اور مہیا ہوتے ہیں... باافراط!
آدمی کا پتہ آزمائش میں چلتا ہے۔ ابتلا کا کبھی کوئی دن آیا توشریف خاندان اور اس کے حواری کبھی جم کر کھڑے نہ رہ سکے۔ کبھی سرنگوں ہوئے‘ کبھی بھاگ گئے اور کبھی رو پڑے۔ کس بری طرح اسحٰق ڈار تلملائے اور تڑپے ہیں۔ خود ترّحمی کی ایک عبرت ناک تصویر۔ شکست انہوں نے تسلیم کرلی ہے اور اس آدمی کے ہاتھوں‘ قوت اور وسائل میں ‘ جس سے ان کا کوئی موازنہ ہی نہیں‘ کبھی نہ تھا۔ تقریباً خالی ہاتھوں سے‘ اس نے ایک لشکر جرّار کو پست کردیا ہے... اور یہ ایک مقام عبرت ہے۔ کل من علیہا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔ اس زمین پر جو کچھ ہے‘ فنا ہونے والا ہے اور باقی رہے گا‘ تیرے رب کا چہرہ‘ لامتناہی عظمت اور بے کراں بزرگی والا۔
قسم ہے زمانے کی
بے شک انسان خسارے میں ہے
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے
حق کی نصیحت کی اور صبر کی ۔