ژولیدہ فکری اور خوئے غلامی کی ماری اس قوم کے لیے کیا نجات کا کوئی راستہ بھی ہے ؟ جی ہاں ، اس پروردگار کی رحمت سے، جس کے نام پر یہ ملک وجود میں آیا ۔ جس کا فرمان یہ ہے کہ مایوسی کفر ہے ۔
شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو
یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو
ڈاکٹر خورشید رضوی نے جب یہ کہا کہ سیاست ایسی سطحی چیز سے منیرؔنیازی کو کیا شغف ہوتا تو ان کی بات مجھے خوش نہ آئی۔ ایک بار جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی یہ کہا تھا: سیاست سے مجھے کراہت ہے ۔ اقبالؔ اس سے بھی زیادہ بیزار تھے ۔ شیطان کی زبان سے انہوں نے یہ کہا تھا ۔
جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہِ افلاک
اس کا مگر کیا کیجیے کہ قوموں کا مقدر طے کرنے میں سیاست کا کردار بنیادی ہے۔یہ قوم کے کردار کا پھل ہوتا ہے ۔ اس کی قسمت کا مظہر اربابِ اقتدار ہی ہوتے ہیں ۔ بنیادی حقیقت اگرچہ وہی ہے ،سیاست کی کان میں نمک ہونے سے پہلے جس کا اظہار کبھی جواں سال سید ابو الاعلیٰ مودودی نے کیا تھا: زہریلے دودھ سے زہریلا مکھن ہی نکلتا ہے ۔ اخلاقی طور پر معاشرہ اگر پست ہو جائے تو بالیدہ قیادت کیسے نصیب ہو ۔
ٹیلی ویژن پہ ایک طرف ، سرکاری رکنِ قومی اسمبلی تھا، جو کچھ بھی کہہ سکتا ہے‘ اتنی غلیظ بات کہ آپ کو قے ہونے لگے ۔ دوسری طرف محترمہ فردوس عاشق اعوان تھیں ۔ آپ نے انکشاف کیا کہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے حمد بن جاسم کا بیان ریکار ڈ کر لیا ہے ۔ پھر رانا ثناء اللہ اور فواد چوہدری رونما ہوئے ۔ اس کے بعد دانیال عزیز اور طلال چوہدری ۔ کبھی یہ سب کے سب جنرل پرویز مشرف کے دست و بازو تھے۔ دست و بازو کیا،کیا، حاشیہ نشین اور دریوزہ گر ۔ طلال چوہدری کو چوہدری پرویز الٰہی کی جیپ کے سامنے بھنگڑے ڈالتے دیکھا گیا تھا ۔ ۔۔اب وہ فوج کو دھمکی دے رہے تھے اور سپریم کورٹ کو بھی۔ دانیال کبھی جنرل کی مونچھ کا بال تھے ۔ اب جمہوریت کے سپاہی ہیں، ایک عظیم حریت پسند ۔ نون لیگ کے ٹیپو سلطان!
جہاں میں ''اہلِ ایماں‘‘ صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
رانا ثناء اللہ کبھی پیپلزپارٹی کے کارکن تھے ۔ 1991ء میں شریف خاندان کے بارے میں ایسی بات انہوں نے کہی تھی کہ آج کوئی دوسرا کہے تو اس کا منہ نوچ لیں۔ خیر میاں محمد نواز شریف بھی تو جنرل محمد ضیاء الحق کے نفسِ ناطقہ تھے اور ان سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو ۔ فخرِ ایشیا، قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو ۔ آٹھ برس تک جو فیلڈ مارشل ایوب خان کے وزیر رہے ۔ 2جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب کے لیے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں فوجی حکمران کے متبادل صدارتی امیدوار ، حکمران کنونشن لیگ کے سیکرٹری جنرل ۔
افلاطون نے کہا ، کنفیوشس نے کہا اور سید نا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا کہ کارِ حکمرانی تاجروں کو نہیں سونپنا چاہیے ۔ افلاطون نے تو کہاتھا : جنرلوں کو بھی ہرگز نہیں ۔
دنیا بھر میں سیاسی پارٹیوں کی جمہوری تشکیل ہی سلطانی ٔ جمہور کی اساس ہے۔ کسی بھی جماعت کے سربراہ کا انتخاب اس کے کارکن کرتے ہیں ۔ کسی بھی حلقہ ٔ انتخاب میں امیدوار کاچنائو مقامی طور پہ ہوتاہے ۔ مملکتِ خداداد پاکستان میں قرینہ ہی دوسرا ہے ۔ ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے نمائندوں کا انتخاب میاں محمد نواز شریف فرمائیں گے۔ ''السیّد ‘‘ آصف علی زرداری یا عمران خان مدظلہ العالی۔ کپتان نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اب کی بار ٹکٹ وہ خود جاری کریں گے ۔ تقریباً مکمل طور پر قائدِ اعظمؒ پہ مسلم برصغیر کا اتفاقِ رائے ہو گیا تھا ، بنگال سے چترال تک۔ اس کے باوجود یہ جسارت وہ کبھی نہ کر سکے ۔ اب ایسے لیڈروں سے ہمیں واسطہ ہے ، جوآدمی نہیں دیوتا ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف تو اکثر یہاں تک کہہ گزرتے تھے '' میں تمہاری تقریر بدل دوں گا‘‘ مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں ججوں کی بحالی کے ہنگام ایک رکنِ اسمبلی نے یہ کہا تھا '' میاں صاحب ! اس طرح کے کا م تو پیغمبروں کے زمانے میں ہوا کرتے تھے ‘‘ ۔
ساحر لدھیانوی کی ایک نظم میں جاگیردار کے طرزِ احساس کا بیان یہ ہے :
ان کی محنت بھی مری ، حاصل محنت بھی مرا
ان کے بازو بھی مرے ، قوّتِ بازو بھی مری
میں خداوند ہوں اس وسعتِ بے پایاں کا
موجِ عارض بھی مری نکہتِ گیسو بھی مری
قائدِ اعظمؒ اور اقبالؔ کی خط و کتابت میں ، جو مشرقی پاکستان کے مسلم لیگی لیڈر محمود علی نے مرتب کی تھی ، بانی ء پاکستان کا ایک جملہ یہ ہے : سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو غریبوں کا خون چوسنے کی اجازت نہ دی جائے گی ۔ یا رب! اب تو عوام کے خون ہی پر وہ پلتے ہیں ۔
سندھ کے جاگیردار جناب آصف علی زرداری کی قیادت میں متحد ہیں ۔ ان کا فیصلہ یہ ہے کہ ایک ایک گوٹھ ، ایک ایک گائوں اور تعلقے کا فیصلہ پاکستان کے نیلسن منڈیلا فرمائیں گے ۔ کل شب ہوائی اڈے پر شوگر انڈسٹری کے ایک منصب دار سے ملاقات ہوئی ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ سندھ میں شکر کا کارخانہ چلایا نہیں جا سکتا، زرداری صاحب
کے ہاتھ پہ اگر کوئی بیعت نہ کرے ۔ خیر، یہ تو کوئی راز نہیں ۔ ذوالفقار مرزا سے ان کا جھگڑا بھی ایک شوگر مل پر ہوا۔ سب جانتے ہیں کہ سندھ میں کوئی شوگر فیکٹری گنا خریدنے کی جسارت نہیں کر سکتی ، شاہی خاندان کی اجازت اگر نہ ہو۔ سرکاری احکامات کی دھجیاں اڑا کر ،وسطی پنجاب سے شریف خاندان اپنی فیکٹریاں اکھاڑکر جنوبی پنجاب لے گیا ۔ یہی نہیں بھارت سے کاریگر بلوائے اور رمضان شوگر مل میں مدتوں وہ مقیم رہے ؛تاآنکہ بات پھیل گئی۔ سرکاری مہمانوں کا پروٹوکول انہیں دیا گیا اور اس کے باوجود دیا گیا کہ بھارت پاکستان میں تخریب کاری کے د رپے رہتاہے ۔ جمہوریت کے نام پر چیخ و پکار بہت ہے ۔ ضرورت پڑے تو آئین کا غلغلہ بھی برپا ہوتاہے ۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں یہ سوال کبھی اٹھایا گیا ؟ کیا کبھی کسی عدالت نے حکمران خاندان کے اس کارنامے کا جائزہ لینے کی جسارت کی ؟ کپتا ن کے اردگرد بھی ابن الوقتوں نے گھیرا ڈال رکھا ہے ۔ کل ٹی وی پر زیادہ تر فردوس عاشق اعوان نے پی ٹی آئی کی نمائندگی فرمائی۔ اسد عمر، جہانگیر ترین اور اسحٰق خاکوانی کیا ہوئے؟
بدھ کو جے آئی ٹی کی کارروائی میں محترمہ کی حاضری کے بعد ایک بات نون لیگ کے نمائندوں نے واضح کردی۔ان پر قانون نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو عدالت کی خیر نہیں،فوج اور ملک کی بھی نہیں۔
ژولیدہ فکری اور خوئے غلامی کی ماری اس قوم کے لیے کیا نجات کا کوئی راستہ بھی ہے ؟ جی ہاں ، اس پروردگار کی رحمت سے، جس کے نام پر یہ ملک وجود میں آیا ۔ جس کا فرمان یہ ہے کہ مایوسی کفر ہے ۔
شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو
یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو
پسِ تحریر: امریکہ ، برطانیہ اور فرانس تو کجا، بھارت کا نریندر مودی ، افغانستان کا اشرف غنی اور بنگلہ دیش کی حسینہ واجد بھی ، بیرونِ ملک اربوں کے کاروبار کا تصور بھی کر سکتی ہیں ؟ خواب بھی دیکھ سکتی ہیں ؟