یہ کیسے لیڈر ہیں‘ جن میں سے ہر ایک سے لوٹ مار‘ کذب اور تکبرّکا اندیشہ رہتا ہے... اور بعض پر تو الزام ثابت بھی ہو چکا۔
دو آدمیوں کے توسط سے اس طالب علم نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو پہچانا۔ پہچان لیا تو ان کی محبت میں گرفتار ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو بڑھتی چلی گئی۔ الحمد للہ یہ عقیدت نہیں۔ گرامی قدر استاد کا قول یہ ہے کہ: عقیدت اور جہالت کا آغاز ایک ساتھ ہوتا ہے۔ یہ بھی ارشاد کیا تھا : عقل جہاں رکتی ہے‘ وہیں بت خانہ تعمیر ہوتا ہے۔ محمد علی جناح پر ایک طویل مضمون لکھنے کا ارادہ باندھتا ہوں‘ کمزور پہلوئوں کا بھی‘ جس میں ذکر ہو۔ شاید یہ اخبار میں نہیں چھاپنا چاہیے۔ لکھنے کو چند دن میں لکھا جا سکتا ہے مگر
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے
اللہ کو منظور ہوا تو اپنی خودنوشت کے لئے اٹھا رکھوں گا‘ اقبالؔ سمیت‘ جس میں گزشتہ پانچ صدیوں کے اکابر پر اس معمولی طالب علم کے تاثرات شامل ہوں گے۔بعض کی حیات کا مطالعہ کیا تو ان میں سے اکثر کو اس سے مختلف پایا‘ جیسے کہ بیان کیے جاتے ہیں۔
اٹھارہ برس ہوتے ہیں شعیب بن عزیز نے ایک شعر سنایا تھا۔ آج تک جی جان میں جاگتا ہے۔
عمر بھر کی تشنگی کے غم سے بڑھ کر ہے یہ غم
میرے حصے میں جو آیا وہ سبو میرا نہ تھا
ایک شعر اور بھی تھا.... اور بخدا اتنا ہی جاں گداز
خوف اور خواہش کے درمیاں نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسا بھی‘ اب یہاں نہیں رہنا
اللہ تعالیٰ رزق کا کوئی اور بندوبست کر دے تو صحافت کو خیرباد کہوں۔ ہفتے میں دو تین غیر سیاسی کالموں کے سوا اخبار کے لئے کبھی کچھ اور نہ لکھا کروں۔ ٹی وی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دوں۔ مہلت ملے تو اس ایک کے علاوہ بھی‘ تین چار کتابیں‘ لکھنے کی کوشش کروں جس پر آج کل کام کر رہا ہوں۔ صحافت سے اب اکتاہٹ سی ہونے لگی ہے‘ تکرار ہی تکرار ۔جس حال میں بندے کو خدا رکھتا ہے‘ وہی اس کے لئے موزوں ترین ہوتا ہے۔ عطیہ فیضی کے نام ایک خط میں مشرق کے عظیم شاعر نے لکھا تھا : اقبالؔ ایک لاش ہے‘ جس نے خود کو قدرت کے حوالے کر دیا ہے۔
اللہ کا شکر ہے‘ اللہ نے بہترین خاندانوں میں سے ایک خاندان بخشا اور بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک ادارہ۔ اس برادری اور اس سکول میں مگر ایک بھی ایسا نہ تھا‘ جو قائداعظم کا قائل ہوتا۔ گردوپیش میں سبھی رزق طیب کی تلاش اور عبادات میں محو رہا کرتے یا وعظ و تلقین میں۔
سال بھر کی تربیت کے بعد 1969ء میں شعبہ صحافت سے وابستہ ہونے لاہور آیا تو اشتراکیوں اور مولویوں نے آسمان سر پہ اٹھا رکھا تھا۔ قائداعظم ان سب کے معتوب تھے۔ یہ مایوس لوگ تھے۔ان کے نزدیک ملک کا کوئی مستقبل نہ تھا اِلاّ یہ کہ ان کے سپرد کر دیا جائے۔ بے لچک اور پُرجوش مگرمحب وطن مرحوم مجید نظامی کے نوائے وقت میں کبھی کبھی کوئی مقالہ قائداعظم پہ شائع ہوتا۔ وہ دن مگر ایسے تھے کہ فکروخیال کی گتھیاں سلجھانے کی بجائے‘پاپی پیٹ اور سر چھپانے کے لئے ٹھکانے کی فکر لاحق رہتی۔
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو
اس فقیر سے ملاقات کو ابھی طویل عرصہ باقی تھا‘ قرآن کریم کی آیت جس نے سنائی اور سمجھائی ۔ وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللَّہِ رِزْقُہَا۔ زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔
اقبالؔ سے محبت پندرہ برس کی عمر سے چلی آتی تھی‘ جب ایک مباحثے میں انعام کے طور پر ''بانگ درا‘‘ عطا ہوئی۔ بائیں بازو کے دانشوروں اور علماء کرام کی صحبت کے باوجود‘ اسی شدت سے یہ تعلق برقرار رہا۔ انہی کے توسط سے قائداعظمؒ کے عظیم الشان دیار پر‘ روشنی کا در کھلا اور اجالا سا ہونے لگا۔ اسی زمانے میں منیر احمد منیر سے ملاقات ہوئی۔ ان کی باتیں سنیں‘ ان کی کتابیں پڑھیں‘ پھر کچھ اور‘ پھر کچھ اور‘ حتیٰ کہ عارف سے ملاقات ہوئی۔ انکسار ہی انکسار اور الفت ہی الفت مگر کبھی ان کے تیور یہ بھی کہہ دیتے۔ ؎
اگر یک مشت پرداری‘ اگر یک قطرۂ خوں داری
بیابہ من کہ آموزم طریقِ شاہبازی را
اگر ایک مٹھی پر اور ایک قطرۂ خون رکھتے ہو تو آئو کہ تمہیں طریقِ شاہبازی سکھائوں۔ ادنیٰ صحبتوں میں بتانے والاشاہباز تو کیا ہوتا مگر اب زاغ و زغن سے نجات مل گئی۔ سدھرے یا نہ سدھرے‘ قلب و جاں میں گاہے اھدنا الصراط المستقیم کی صدا ضرور گونج اٹھتی۔ غزالیؒ کو پڑھا تو ملاّ سے نجات ملی۔ عصر رواں کے خبط عظمت اور زعم تقویٰ کے مارے‘ انبیاء کی وراثت کا دعویٰ کرنے والے علماء کرام سے فراغت نصیب ہوئی تو خواجہ کی چوکھٹ دیکھی۔
سچے سائیں ہمارے مہر علی شاہ
خواجہ! گھر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
کل ایک دوست نے کہا: نوازشریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان کی ہم بات کرتے ہیں‘ تو تم قائداعظم کو سامنے لا کھڑا کرتے ہو‘ ہم کیا کریں۔
فرمایا: زمانے کو برا نہ کہو‘ میں خود زمانہ ہوں۔ زندگی کے تلخ حقائق سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ انہی کے درمیان راہ تلاش کرنا ہوتی ہے۔ آدمی وگرنہ دیوانہ ہو جائے۔ نفسی علوم کے ماہرین اب یہ کہتے ہیں کہ ذہنی دبائو فقط نفسیاتی ہی نہیں‘ جسمانی امراض کا بھی ایک بڑا سبب ہے۔ ظاہر ہے کہ انبیاء اور ان کے براہ راست تربیت کردہ صدیقین سے کسی کا موازنہ ممکن نہیں۔ ان کے سوا آدمیت کی پوری تاریخ میں‘ صوفیا سے زیادہ آسودہ کوئی نہیں دیکھا گیا۔ خود اپنی آنکھوں سے بھی انہی کو شادمان پایا ہے۔ہوتے مگر وہ شاذ ہیں۔ ان کے آس پاس ہجوم ہوتے ہیں۔ پیہم تربیت سے‘ رفتہ رفتہ بتدریج نوجوان‘ گنوار سے مہذب اور پھر رفیع تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تزکیۂِ نفس‘ علم کی جستجو‘ خلق سے محبت اور ایثار۔ جیسا کہ بائبل میں لکھا ہے: یہی لوگ زمین کا نمک ہیں۔
طلب جن کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ راز اس نے پایا انہی کے جگر میں
ملاّ چیختے بہت ہیں۔ تاویل بہت کرتے ہیں۔ خواب دکھاتے اور بیچتے ہیں مگر قرارِ جاں کا کوئی نسخہ ان کے پاس کبھی نہیں ہوتا۔ اللہ کے آخری رسولؐ دعا مانگا کرتے۔ حسن الدنیا والآخرہ۔ دنیا میں بھی بہترین‘ آخرت میں بھی بہترین۔ یہ مشتعل اور غضب ناک لوگ‘ بہترین کیا‘ قابل برداشت بھی نہیں ۔ اس آدمی کو آپ دیکھتے ہیں‘ جس نے امریکی سفیر سے کہا تھا کہ وزیراعظم بننے میں اس کی مدد کرے؛ وہی آج کل نوازشریف کا سب سے بڑا وکیل ہے اور ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کا آرزومند۔
سپریم کورٹ میں کل ان لیڈروں کو دیکھا‘ جو بوڑھے ہو چکے‘ کچھ تو وقت سے پہلے ہی۔ چہروں پہ وحشت‘ ارب پتی‘ اقتدار کے بھوکے‘ طاقت کے پجاری۔ ایک عہد تمام ہوا اور دوسرا شروع ہونے والا ہے۔ کل کے جعل ساز چلے جائیں گے اور نئے شعبدہ باز آئیں گے۔ مغل بادشاہ اکبر اعظم کے شیخ الاسلام کو لاہور کے صوفی شاعر شاہ حسین نے لکھا تھا:
اندر آلودہ‘ باہر پاکیزہ تے توں شیخ کہاویں
راہ عشق دا سوئی دا نکّا دھاگا ہویں تاں جاویں
اندر آلودہ‘ باہر پاکیزہ اور تم شیخ الاسلام بنے بیٹھے ہو۔ عشق کا راستہ سوئی کے سوراخ کی مانند ہے۔ دھاگا بنو تو داخل ہو سکو۔
قائداعظم دھاگا تھے‘ ضبط نفس کے امین۔ سراپا دیانت‘ صداقت شعار‘ ریاضت کیش‘ صاحب عزم و بصیرت‘ متوکّل اور ایثار کیش۔ روز روز ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے۔ یہ تو مگر ممکن ہے کہ کاروبار حکومت ڈھنگ سے چلایا جا سکے۔جہلا کے سپرد نہ کیاجائے۔یہ کیسے لیڈر ہیں‘ جن میں سے ہر ایک سے لوٹ مار‘ کذب اور تکبرّکا اندیشہ رہتا ہے... اور بعض پر تو الزام ثابت بھی ہو چکا۔
پسِ تحریر: @haroon_natamam یہ ہے میرا صل ٹوئٹر اکائونٹ‘ باقی جعلی ہیں۔