ہتھیلی پہ سرسوں نہیں جمتی۔ سب جانتے ہیں۔ خاقان عباسی کیوں نہیںجانتے؟
''جنگ ایک ہنڈولا ہے‘‘ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا ''کبھی اوپر جاتا ہے اور کبھی نیچے‘‘۔ سیاسی طور پر ملک حالتِ جنگ میں ہے۔ غیر متوقع واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ ایک عائشہ گلالئی ہی کیا‘ ایک ناز بلوچ ہی کیا۔ کئی اور لیڈر تحریکِ انصاف کو الوداع کہہ سکتے ہیں۔ پانی ڈھلوان میں مرتا ہے۔ اصول نہیں‘ کوئی اعلیٰ آدرش نہیں۔ معدودے چند کے سوا‘ ہر ایک کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی فتح آئندہ الیکشن میں یقینی دکھائی دیتی ہے۔ ناز بلوچ کو اسی کا انتخاب کرنا تھا۔ کم از کم فی الحال صوبے میں پی ٹی آئی کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ 2013ء میں ٹکٹ جاری کرتے ہوئے تحریک انصاف نے معلومات مرتب کرنے کا کوئی نظام تشکیل نہ دیا تھا۔ پارٹی کے عہدوں میں بھی یہی ہوا۔ ٹی وی پر ترجمانی کرنے والوں میں بھی چرب زبان ہی غالب آئے۔ 42 سال کی عمر میں عمران خان سیاست میں داخل ہوئے۔ پاکستانی معاشرے کی ساخت کو وہ زیادہ نہیں سمجھتے۔ ہر ایک پہ اعتبار کر لیتے ہیں۔ ان کا اندازِ فکر ایک سیاستدان کا نہیں۔ مردم شناسی کا ہنر انہیں بخشا نہیں گیا۔ میاں محمد نواز شریف‘ آصف علی زرداری‘ اسفند یار ولی خان‘ محمود احمد خان اچکزئی کی طرح پارٹی پہ ان کی گرفت نہیں۔ جماعت کی جس جمہوری تشکیل کے وہ آرزومند ہیں‘اس ملک میں مرحلہ وار ہی وہ ممکن ہے۔ آئندہ الیکشن سر پہ کھڑے ہیں۔ جہاں کہیں‘ کسی کے مفاد کا تحفظ ہو گا‘ جہاں سے ٹکٹ ملنے کا امکان زیادہ ہو گا‘ جہاں کسی کے سینگ سمائیں گے‘ چلا جائے گا۔
تیرے لان میں کوئی بیل ایسی نہیں
جو دیہاتی پرندے کے پر باندھ دے
جنگلی آم کی جان لیوا مہک
پکارے گی جب بھی چلا آئوں گا
یہ 2002 نہیں‘ اسٹیبلشمنٹ جب ننگی مداخلت کرتی۔ اکثریتی ارکان کی تائید حاصل نہ ہونے کے باوجود‘ جنرل پرویز مشرف نے من پسند حکومت قائم کر لی تھی۔ آزاد ارکان کی تائید اور پیپلز پارٹی کے محب وطن (Patriot) گروپ کی مدد سے‘ جعلی اکثریت تشکیل دینے میں کامیاب رہے تھے۔ آزاد ارکان تو الگ‘ کھلم کھلا نہیں مگر اندر خانہ مولانا فضل الرحمن بھی دل و جان سے جنرل کے ساتھ تھے۔ وردی اتارنے کا وعدہ کرکے‘ آئینی ترمیم انہوں نے منظور کرا لی۔ پھر صاف وہ مکر گئے تو حضرت مولانا بلکہ پوری کی پوری متحدہ مجلس عمل گونگے کا گُڑ کھائے بیٹھی رہی۔ الیکشن 2002ء سے قبل‘ حضرت مولانا سے جنرل نے تعاون چاہا تو انہوں نے کہا تھا: مملکتی سیاست میں ہم آپ کی بھرپور مدد کریں گے‘ مگر انتخابی سیاست میں نہیں۔ آپ کو اس سے نقصان پہنچے گا اور ہمیں بھی۔ الیکشن کے بعد ہماری خدمات مستقل طور پر آپ کے لئے حاضر ہوں گی۔
انگریزی محاورے کے مطابق‘ یہ ایک مائع صورت حال ہے‘ پیہم ایک تغیر پذیر ماحول۔ پیش گوئی کرنا سہل نہیں کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ چھوٹے بڑے حادثات ہوتے رہیں گے۔ بدلتے حالات میں مفاد پرستوں کی بن آئے گی۔ نون لیگ چونکہ سب سے بڑی مافیا ہے‘ پنجاب میں اس کی حکومت برقرار ہے‘ مرکز میں بھی پھر سے بحال ہو گئی ہے؛ چنانچہ سب سے زیادہ وکالت اسی کی ہو گی۔ دو تین میڈیا گروپ تو پوری طرح اس کی جیب میں ہیں‘ اشتہارات کی بارش ہے۔ جو کھلا سکتا ہے‘ گیت اسی کا گایا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے معزز ججوں پر تنقید کی جاتی رہے گی‘ جن کی توفیق زیادہ ہے‘ شکوک و شبہات پھیلائیں گے‘ کردار کشی کریں گے‘ جو زیادہ چھچھورے ہیں‘ وہ گالی بھی دیں گے۔ درجہ بہ درجہ انعام پائیں گے۔
دو چار سو نہیں‘ دو چار ہزار نہیں‘ لاکھوں افراد کے مفادات مافیا سے وابستہ ہیں۔ یونین کونسلوں کی سطح تک۔ شریف حکومت کی برطرفی کیسے وہ گوارا کر سکتے ہیں‘ جو انہیں معزز بناتی ہے۔ ووٹر کی بات نہیں۔ دوسری وجوہ سے بھی وہ کسی لیڈر یا پارٹی کی تائید کر سکتا ہے‘ مثلاً یہی کہ کون سی جماعت یا رہنما زیادہ تجربے کا حامل ہے۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ کسی سماج میں ادراک کی سطح کیا ہے۔ اس کی سیاسی تربیت کتنے ماہ و سال کو محیط ہے۔ گمراہی پیدا کرنے والا‘ ایک اور سنگین پہلو یہ ہے:
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے‘ قوموں کی زندگی میں
وہ جو پرسوں پرلے روز عرض کیا تھا‘ Path dependency‘ آسان راستوں پہ چلتے چلے جانا۔ چوہدری نثار علی خان کو فیصلہ کرنے میں دشواری ہے تو عامیوں کا طرزِ احساس کیا ہو گا؟ قوموں کی عادات صدیوں میں تشکیل پاتی ہیں‘اور آسانی سے نہیں بدلتیں۔ شخصیت پرستی معاشرے کی سرشت میں ہے۔ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کا تصور ہمارے ذہنوں میں جڑ نہیں پکڑ سکا۔ وزیر اعظم ابھی تک ہمارے ہاں نہیں ہوتا‘ بادشاہ ہوتا ہے اور بادشاہ ظلِّ الٰہی ہے‘ اللہ کا سایہ۔ کبھی وہ خطاکار نہیں ہوتا‘ حتیٰ کہ سرکاری خزانہ ہڑپ کر جانے کے باوجود۔
سپریم کورٹ نے خود یہ بے رحمانہ‘ حتیٰ کہ ظالمانہ تنقید کی اجازت دے رکھی ہے‘ معلوم نہیں کیوں؟ عسکری قیادت نے تحمل کا عزم کر رکھا ہے ‘ یہی اسے کرنا چاہیے۔ مگر کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ صاف ستھری عدلیہ کو گالی دے کر اور دہشت گردی سے نبردآزما ملک کے محافظوں کی کردارکشی کرکے‘ شریف خاندان کا اقتدار بحال کیا جا سکتا ہے‘ تو معاف کیجئے وہ احمقوں کی جنت میں بستا ہے۔ دوبئی کے اقامہ پر نہیں‘ صریح کذب بیانی پر‘ ڈٹ کر کی جانے والی کرپشن پر وزیراعظم برطرف ہوئے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری عدالتی کارروائی‘ ہرگزرتے دن کے ساتھ سچائی آشکار ہوتی جائے گی۔ مغالطوں کے مارے یا بھارت نواز عناصر کی بات دوسری ہے‘ باقی لوگ پیچھے ہٹتے چلے جائیں گے۔ مفاد پرست نئی حکومتوں سے جا ملیں گے... اور صداقت کے متلاشی‘ سچائی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ یہی فطرت کا یہ قانون ہے۔ بالآخر اسی کو بروئے کار آنا ہوتا ہے۔ جاء الحق و زھق الباطل‘ ان الباطل کان زھوقا۔ باطل چلا جاتا ہے اور حق غالب آتا ہے۔ باطل کے مقدر میں معدوم ہونا ہی ہوتا ہے۔
ابھی ابھی نئے وزیر اعظم کا پہلا خطاب مکمل ہوا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی ستائش انہیں کرنا ہی تھی کہ انہی کے ایما پر یہ جلیل منصب انہیں ملا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی پر تنقید انہیں کرنا ہی تھی۔ 4.4 ڈالر کے بجائے 6.6 ڈالر فی یونٹ کے حساب سے‘ قطر سے 18 بلین ڈالر کی مائع گیس درآمد کرنے کا معاہدہ ہوا تو خاقان عباسی پٹرولیم کے وزیر تھے۔ کم از کم 30 فیصد زیادہ کیوں ادا ہوئے۔ لگ بھگ دو بلین ڈالر تو کمائے ہوں گے۔
حیرت اس ایجنڈے پر ہے‘ جو نئے وزیر اعظم نے پیش کیا۔ 45 دن میں خطرناک خود کار اسلحہ وہ کس طرح واپس لیں گے؟ تعلیمی نظام میں بہتری کیونکر لائیں گے؟ ایف بی آر اور حکمران طبقات کا گٹھ جوڑ تحلیل کرکے‘ ٹیکس وصولی کا نظام کس بل بوتے پر موثر بنائیں گے؟ شریف خاندان کے ہر دور اقتدار میں برباد ہونے والی زراعت کو بحال کیسے کریں گے؟
نئے وزیر اعظم خاقان عباسی کے عزائم بلند اور ایجنڈا قابل تحسین ہے‘ مگر ڈیڑھ ماہ میں‘ اس پر عمل وہ کیسے کریں گے؟ کوئی دن میں بات کھلے گی۔ دال میں کچھ کالا دکھائی دیتا ہے۔
ہتھیلی پہ سرسوں نہیں جمتی۔ سب جانتے ہیں۔ خاقان عباسی کیوں نہیںجانتے؟