کبھی شاعر ایک عظیم سچائی کو پا لیتا ہے۔ منیرؔ نیازی نے کہا تھا: جس قبیلے کے سب لوگ بہادر ہوں، موت اس کا مقدر ہوتی ہے۔ ایک تھوڑی سی بزدلی جنابِ والا، کچھ دیر کے لیے تھوڑی سی بزدلی، ذرا سا غور و فکر، مختصر سی سوچ بچار!
بقا جمہوریت میں ہے مگر ایسی جمہوریت، جو محض حکمران طبقے اور درباریوں کو نہیں، عام آدمی کو تحفظ عطا کر سکے۔ ظلم سے بچا سکے۔ کوئی بھی قوم ایک کم از کم اتفاقِ رائے میں زندہ رہتی اور نشوونما پاتی ہے۔
ہر ملک کے لیے سلطانیء جمہور کا ایک الگ ماڈل ہوتا ہے۔ ہم ملائیشیا، چین یا سنگا پور کی تقلید نہیں کر سکتے مگر امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور جاپان کی بھی نہیں ۔ افراد کی طرح ، معاشروں کے مزاج بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ انہیں ملحوظ رکھے بغیر کوئی پائیدار نظام تشکیل نہیں دیا جا سکتا ۔
ملک کو صدارتی نظام سازگار ہے اور چھوٹے صوبے ، جن کے گورنر براہِ راست منتخب ہوں ۔ ہم ایک شخصیت پرست قوم ہیں ۔اگرصدارتی نظام میں تیس پینتیس صوبے کارفرما ہوں تو شخصیت پرستی کے جذبے کی تسکین ہو سکتی ہے ۔نفسیاتی طور پر آسودگی پا کر رفتہ رفتہ، بتدریج رواداری کی طرف ہم مائل ہو سکتے ہیں ۔ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے مقامی قیادت ہر کہیں ابھر سکتی ہے ۔ اسی میں سے سرد وگرم چشیدہ وہ قومی رہنما بھی ، تنگ نظری سے جو پاک ہوں ۔ جو یہ ادراک رکھتے ہوں کہ زندگی کو خالق نے تنوع میں پیدا کیا اور ہمیشہ وہ ایسی ہی رہے گی ۔ معاشرے کے مختلف طبقات میں آہنگ پیدا کیے بغیر ، امن اور انصاف کا حصول ممکن نہیں۔ موجودہ نظام میں ، اگر اسے نظام کہا جا سکتا ہے، قوم کی تمام تر توانائیاں خود شکنی میں کھپتی رہیں گی۔
معاشرہ منقسم ہے اور بری طرح منقسم ۔ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا لشکر ہیں ۔ بقا کی فطری انسانی جبلت میں، ہر کہیں خوف گھل گیا ہے۔ ایک سیاسی قبیلے کو صرف دوسرے کی موت میں اپنی زندگی کا امکان دکھائی دیتاہے ۔ کیا یہ زندہ رہنے اور نمو پانے کا قرینہ ہے؟
ہیجان ایسی چیز ہے کہ بہترین صلاحیت والے ایک فرد کی زندگی بے ثمر کر ڈالے۔ ایک پورا معاشرہ اس کے ساتھ کیسے فروغ پا سکتا ہے؟
تحریکِ انصاف، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو پامال کر کے اقتدار کی آرزومند ہے۔ نون لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے علاوہ عدلیہ اور عسکری قیادت کو روند کر۔ بلاول بھٹو امید رکھتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف اور عمران خان ایک دوسرے کو تباہ کر دیں تو ان کی مراد بر آئے۔ امریکہ ، بھارت اور ان کے زیرِ سایہ افغانستان سے در آنے والے دہشت گردوں سے نبرد آزما پاک فوج تذبذب کا شکار ہے۔ کردار کشی کی مہم سے اعلیٰ عدالتیں دبائو کا۔
انکل سام نے کہ بھارت کا حلیف ہے، اس ادراک کے باوجود کہ دہشت گردی کی جنگ پاکستان کے بغیر جیتی نہیں جا سکتی ، افغانستان میں اور برصغیر میں امن کا حصول ممکن نہیں، باقی ماندہ اعانت بند کر دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قبائلی پٹی اور بلوچستان کے بعض حصوں پر بمباری کے منصوبے زیرِ غور ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خاں نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ خوبیاں خامیاں الگ مگر وہ اکثر سے زیادہ جانتے ہیں ، اکثر سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ سرِ راہے یہ بھی کہ اگر وہ جماعتی آویزش سے اوپر اٹھ کر سوچ رہے ہیں تو اس خطرے کی نوعیت سے قوم کو آگاہ کر دینا چاہئے۔ موجودہ حالات میں یہی سب سے بڑی خدمت ہے، جو وہ انجام دے سکتے ہیں۔ کیا عجب کہ اس عمل سے قوم کی آنکھیں کھلیں، وحشت کے عالم میں جو بارودی سرنگوں کی جانب سرپٹ ہے۔
دربارِ رسالت کے شاعر حسان بن ثابتؓ کا ایک شعر یہ ہے: ہماری اونٹنیوں کے پہلوئوں پر پیاسے نیزے رکھے ہیں اور بادلوں کی طرح وہ بھاگی چلی جاتی ہیں۔ وہ تو قدوسیوں کا لشکر تھا، تاریخ کے بدترین جہلا سے جو نبرد آزما ہونے جا رہا تھا۔ ہمارے لشکر خود اپنے سوا کس کے خلاف میدان میں ہیں؟
بھارتی قیادت نے ایک دن کے لیے بھی پاکستان کو قبول نہ کیا تھا۔ اب امریکہ بہادر کی سرپرستی اسے حاصل ہے۔ نریندر مودی نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ افغانستان اور ایران سے آویزش ہے۔ اپنی پیدا کردہ دلدل میں دھنسے عرب بھی ہم سے خوش نہیں۔ گوادر میں چین کی موجودگی نے مغرب کو چونکا دیا ہے۔ اس کا بس چلا تو ہمیں وہ معاف نہ کرے گا۔ استنبول اور بیجنگ کے سوا، ہمارا کوئی دوست دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ اس حال میں ایسی خوفناک داخلی محاذ آرائی کا نتیجہ کیا ہو گا۔
اندازہ یہ ہے کہ شریف خاندان پسپا ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے کیا ملک کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ دوسرا امکان یہ ہے کہ نون لیگ میں جمع جاگیردار اور صنعت کار درمیانے طبقات میں زیادہ مقبولیت رکھنے والی پی ٹی آئی کو ہرا دیں۔ پھر کیا عمران خان کو نجات دہندہ سمجھنے والے، گھروں سے نکل آنے والے چالیس پچاس لاکھ نوجوان لمبی تان کر سو جائیں گے، نظامِ زر و ظلم سے جو شاکی ہیں۔ مان لیجیے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو ادھیڑ ڈالیں۔زرداری صاحب تخت پر براجمان ہو جائیں تو؟ اندازے مختلف ہیں، پانچ سالہ حکومت میں 1200 ارب سے لے کر 2 ہزار ارب تک ان کی یافت رہی۔ اب کیسے وہ مختلف ہو جائیں گے؟
1970ء کے سے حالات ہیں۔ 1971ء کے سانحہ سے پیدا ہونے والے خوف نے فوراً بعد ذوالفقار علی بھٹو کے لیے حکمرانی کا جواز اور سہولت پیدا کر دی تھی۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔ الیکشن کے بعد بھی نون لیگ اور تحریکِ انصاف کے لشکر گھروں کو نہیں لوٹیں گے۔ میڈیا آزاد ہے اور اتنا ہی غیر ذمہ دار۔ کوئی جنگ اب تمام نہیں ہو گی۔ چھوٹی پارٹیاں، جمعیت علمائیِ اسلام، پختون خوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم گندے پانی میں مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرتی رہیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ جناب فاروق ستار نے بیس ارب روپے کے وعدے پر جناب شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دئیے۔ تمام بلدیات کو اختیار ملنا چاہیے ۔ یہ ان کا حق ہے۔ کراچی کے شہری عذاب میں مبتلا ہیں ۔ مگر یہ سرمایہ کیا فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں کی صوابدید پر ہونا چاہئے ؟
تجارتی راہداری، گوادر کے نیلے سمندر اور سست کی پاک چین سرحد کے دونوں طرف پھیلے لا محدود امکانات، بلوچستان میں کم از کم پندرہ سو ارب
ڈالر یا سوات میں ایک ہزار ارب ڈالر کا سونا۔ سب سے زیادہ فی کس زیرِ کاشت زرعی زمین۔ دو کروڑ گانٹھ کپاس اگا کر، صنعتِ پارچہ بافی کی برآمدات کو جو 20 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچا سکتی ہے۔
امکانات بے شمار ہیں مگر اتنے ہی خطرات۔ کوئی یہ بتائے کہ امن اور آہنگ کے بغیر، کبھی کسی ملک نے فروغ پایا ہے؟ کوئی یہ بتائے کہ جمہوری نظام میں کسی قوم کے ایک حصے نے دوسرے کو مغلوب کر کے سنہری مستقبل کی بنیاد رکھی ہے؟ اللہ کی کتاب کہتی ہے: جسے حکمت دی گئی ، خیرِ کثیر اسے بخشا گیا۔ ہم کہتے ہیں کہ بالکل نہیں، پاگل پن سے ہم ایک نیا درخشندہ جہاں تعمیر کریں گے۔ کوئی غیبی آواز پوچھتی ہے: اَلیس منکم رجل رشید؟ کیا تم میں ایک بھی دانا آدمی نہیں؟
کبھی شاعر ایک عظیم سچائی کو پا لیتا ہے۔ منیرؔ نیازی نے کہا تھا: جس قبیلے کے سب لوگ بہادر ہوں، موت اس کا مقدر ہوتی ہے۔ ایک تھوڑی سی بزدلی جنابِ والا، کچھ دیر کے لیے تھوڑی سی بزدلی، ذرا سا غور و فکر، مختصر سی سوچ بچار!