کبھی ایک آدھ بار ہی میاں صاحب نے سوچا ہوتا کہ ملک اور قوم لیڈر کے لیے نہیں بلکہ لیڈر ملکوں اور قوموں کے لیے ہوتے ہیں۔
عدلیہ اور فوج کے خلاف میاں محمد نواز شریف کی تحریک سے انہیں کیا حاصل ہوگا؟ شاید کچھ بھی نہیں۔ پھر ایک ہنگامہ کیوں انہوں نے اٹھا رکھا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کے سوا وہ کریں بھی کیا؟ اور کون سی راہِ عمل باقی ہے؟ کیا خاموشی سے‘ خود کو وہ قانون کے حوالے کر دیں؟ اپنے جرم کا اعتراف کرلیں؟ مان لیں کہ خفیہ طور پر‘ سمندرپار پندرہ بیس‘ کاروباری ادارے وہ چلاتے رہے۔ پاکستان کا وزیر اعظم ہونے کے باوجود‘ دبئی کی ایک کمپنی کے اوّل چیف ایگزیکٹو اور پھر ملازم رہے۔ ایک عرب ملک کا اقامہ انہوں نے حاصل کیا کہ کالا دھن سفید کرنے کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں؟۔
قصوروار ہونے کا اعتراف کرلیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ کھربوں روپے کی وہ دولت بھی خطرے میں ہوگی‘ جو خاندان کی تیس سالہ تاریخی جدوجہد کا ثمر ہے۔ وہ دنیا کے واحد حکمران ہیں‘ جن کی اولاد اور دولت بیرون ملک آسودہ ہوتی ہے۔ احتیاطاً کچھ پاکستان میں بھی۔ کارخانے اس لیے کہ مزید دولت اگر کمائی جا سکتی ہو تو کما لی جائے۔ خوش بختی سے پھر سے اقتدار کا ہما اگر جاتی عمرہ کا رخ کرے تو پھر سے کوس لمن الملک بچانے کی کوشش کی جائے۔ پھر سے عدالتوں کو زیر کرنے اور پاک فوج کو پنجاب پولیس بنانے کی تدابیر کی جائیں۔
''قوم کو مبارک ہو کہ فوجی انکل نے واہگہ کی سرحد پر‘ ایشیا کا سب سے بڑا قومی پرچم لہرا دیا ہے۔ مہنگائی کا اب خاتمہ ہو جائے گا اور دہشت گردی کا بھی۔ کشمیر اب آزاد ہو جائے گا‘‘۔ یہ ان کے مدّاحوں میں سے ایک نے لکھا ہے۔ ان کے دل ٹوٹ گئے ہیں۔ جو اپنے لیڈر کی طرح‘ بیوہ عورتوں کی طرح سینہ کوبی میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی آرزو یہ محسوس ہوتی ہے کہ وزیراعظم کی برطرفی کے چند روز بعد طلوع ہونے والے یوم آزادی کو ان کی خاطر‘ سوگ کا دن بنا دیا جاتا۔
کوئی دن جاتا ہے کہ واقعات رونما ہوں گے اور سوالات اٹھیں گے۔ گرد بیٹھ چکے گی تو استفسار کرنے والے استفسار کریں گے۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا قائد اپنے ملک کے سنگین مسائل اور محروم عوام کے بارے میں کیوں نہیں سوچتا؟ اپنی ذات کے سوا‘ اپنے خاندان کے سوا‘ باقی چیزوں کو اکثر بھول کیوں جاتا ہے؟ اپنی قوم کے درد پر غوروفکر اور اظہار خیال کیوں نہیں کرتا؟ اپنے غم میں اس قدر مبتلا کیوں ہے کہ سب دوسروں کے غم اسے بھول گئے۔ اپنا زخم اس کے لیے اتنا اہم کیوں ہے کہ کوئی دوسرا زخم اسے دکھائی نہیں دیتا‘ سنائی نہیں دیتا۔
جی ٹی روڈ پر چار روزہ مارچ کے دوران‘ چند ایک موضوعات ہی پر بات کرنے کی توفیق اسے ہو سکی۔ وہ بھی ذاتی حوالے سے‘ وہ بھی سرسری انداز میں۔ مثلاً دہشت گردی کے بارے میں عظیم کارنامے انجام دینے کا دعویٰ کیا۔ فرمایا کہ ان کی قیادت میں عفریت کا خاتمہ ہونے والا تھا۔ یہ دعویٰ انہوں نے اس ٹرالر میں براجمان ہو کر کیا‘ دہشت گردوں کے ممکنہ حملے میں جو انہیں گولی اور بم سے محفوظ رکھتا؛ اگرچہ ہزارہا پولیس والے ان کی حفاظت پہ مامور تھے۔ پاکستانی فوج کی قربانیوں کے ذکرسے گریز کیا‘ قبائلی پٹی‘ بلوچستان اور کراچی میں‘ جس کے چھ ہزار افسر اور جوان‘ اس بلا کی بھینٹ چڑھ چکے۔ کیا کراچی میں سندھ پولیس‘ بلوچستان میں سرداروں کی نگرانی میں کام کرنے والی لیویز اور وزیرستان میں پنجاب پولیس کے دستوں نے سفاک قاتلوں کا سامنا کیا ہے؟۔
بلوچستان میں جاری دہشت گردی کا ذمہ دار کون ہے؟ بلوچستان لبریشن آرمی کے تربیتی کیمپ کس ملک میں قائم ہیں؟ وطن فروشوں اور قاتلوں کو اسلحہ‘ رقوم اور خفیہ معلومات کون فراہم کرتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایک بچہ بھی افغانستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا نام لے گا‘ مگر میاں محمد نوازشریف مدظلہ العالی نہیں۔ ان کے حلیف مولانا فضل الرحمن‘ محمود اچکزئی اور ڈاکٹر فاروق ستار بھی نہیں۔ حتیٰ کہ کل بھوشن یادیو کا نام بھی ان لوگوں کی زبان پر کبھی نہیں آتا۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا‘ سوالات اجاگر ہوتے چلے جائیں گے۔
احتجاجی مارچ میں درجن بھر تقاریر کیں مگر ایک بار بھی کشمیر کی تحریک آزادی کو خراج تحسین پیش نہ کیا۔ اس وقت جب نون لیگ کے قائد‘ اپنی فوج اور عدلیہ کو بدنام کرنے کی مہم پر تھے‘ کشمیری عوام‘ اپنے گھروں کی خاموشی اور تاریکی میں‘ پاکستانی پرچم مرتب کر رہے تھے تاکہ 14 اگست کو پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر‘ یوم پاکستان منائیں۔ ستر برس کے بعد‘ وہ وقت قریب آ پہنچا ہے کہ جب صبحِ آزادی کی وہ امید کر سکتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ بالآخر خون آلود وادیء کشمیر ان کے محبوب وطن پاکستان کا حصہ بنے گی۔ نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ اقتدار میں نہیں رہیں گے۔ سکڑتا ہوا امریکہ رفتہ رفتہ اور سکڑ جائے گا۔ دنیا بھر میں اس کی مرضی کے فیصلے صادر نہ ہو سکیں گے۔ تھکی ماندی بھارتی افواج بالآخر نڈھال ہو جائے گی۔ کشمیریوں کے ساتھ آخرکار کوئی سمجھوتہ کرنا ہی پڑے گا۔ دوسروں کی طرح‘ سابق وزیراعظم بھی دیوار پہ نمودار ہوتی ہوئی تحریر پڑھ سکتے تھے‘ اگر وہ پڑھنا چاہتے۔ پھر کشمیری عوام کی حوصلہ افزائی کا خیال انہیں کیوں نہ آیا؟ وہ اپنا ہی رونا کیوں روتے رہے؟ فرض کیجئے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ پھر بھی کیا وہ واحد آدمی ہیں‘ جو ابتلا اور آزمائش کا شکار ہوئے؟ میاں صاحب مکّرم کے لیے ان کی ذات اس قدر اہم کیوں ہے کہ کشمیر کی وادیوں‘ میدانوں‘ بازاروں اور گھروں میں قتل کئے گئے 97 ہزار سے زیادہ شہیدوں کی یاد‘ ان کے قلب و دماغ پر کبھی نہیں اترتی؟ اس کے ٹارچر سیلوں میں دکھ جھیلتے جوان کبھی انہیں یاد نہیں آتے۔ پیہم گھیرائو اور پیہم ہراس میں زندگیاں گزارتی سری نگر کی عصمت مآب بیٹیوں کا خیال انہیں ایک بار بھی کیوں نہ آیا؟ اپنی اولاد کے لیے ان کا دل دکھتا ہے۔ اپنی آئندہ نسلوں کو خوشحال اور شادمان رکھنے کے لیے دن رات کیسی کیسی تدابیر وہ کرتے ہیں۔ کتنے کھرب ان کے لیے جمع کیے ہیں؟ خود اپنے بعد‘ انہیں تخت سونپنے کی تمنا کیسا انہیں بے تاب کیے رکھتی ہے۔ کشمیر اور پاکستان کی گلیوں‘ بازاروں میں گرد ہوتے کروڑوں بچوں کی فکر انہیں کیوں نہیں۔ وہ کہ جن کی گردنوں پر اربوں ڈالر کا مزید بوجھ ان کے چار برسوں میں لاد دیا گیا۔
اپنے لیے رونے دھونے کو کیسی فراواں مہلت انہیں میّسر ہے۔ ایک آدھ آنسو اس بچے کے لیے بھی بہایا ہوتا‘ جسے ان کے قافلے کی گاڑیاں کچلتے ہوئے گزر گئیں۔ آنسو نہ سہی‘ ایک آدھ جملہ ہی اس کے لیے ارزاں کیا ہوتا۔ بہت دن نہ سہی‘ ایک آدھ گھنٹہ ہی اس کے شکستہ دل والدین کے ساتھ بتایا ہوتا۔ اپنی ذات سے اس قدر محبت؟ اپنے آپ پہ اس قدر فدا؟ ازل سے لیڈر اور سردار‘ رہبر اور قائد اپنی قوموں پہ فدا ہوتے آئے ہیں۔ یہ ایک عجیب لیڈر ہے‘ جو یہ چاہتا ہے کہ اس کی قوم اس پر قربان ہو جائے۔ اس کی آنکھ سے سپنے دیکھے۔ اس کے خوابوں کو متشکل کرے۔ اس کی بدلتی ہوئی ضرورتوں کے مطابق‘ نظریات کے مطابق‘ خود کو ڈھال لیا کرے۔
اللہ کی اس وسیع و عریض کائنات میں‘ ان کی ذات گرامی کے سوا بھی بہت کچھ ہے‘ کروڑوں اربوں انسان‘ ان کی کروڑوں اربوں تمنائیں‘ حسرتیں‘پیاس‘ بھوک‘ دکھ درد اور ابتلائیں۔ انہیں مگر ایک ہی گیت یاد ہے‘ ''مجھے کیوں نکالا‘ مجھے کیوں نکالا؟‘‘
کبھی ایک آدھ بار ہی میاں صاحب نے سوچا ہوتا کہ ملک اور قوم لیڈر کے لیے نہیں بلکہ لیڈر ملکوں اور قوموں کے لیے ہوتے ہیں۔
پس تحریر: میرا خیال ہے کہ محترم دوستوں کو مغالطہ ہوا۔ صدارتی نظام کے دور دور تک آثار نہیں۔ اگر کبھی وہ نافذ ہوا تو کم از کم ایک قومی اتفاق رائے کے ساتھ ہوگا۔ بلوچستان‘ سندھ اور پختون خوا کی شرکت سے ہوگا۔ کوئی عارضی‘ کوئی نگران یا کوئی مخلوط حکومت اتنا بڑا فیصلہ صادر نہیں کر سکتی۔ فی الحال یہ محض ایک نظری اور علمی بحث ہے۔