دوست روٹھ بھی جائیں تو کیا؟ آخر اپنے دوست ہیں۔ بس اتنا یاد رہے کہ ''میں وہی ہوں مومنِ مبتلا‘‘۔
وہی پینتیس پنکچر والا قصہ ہے۔ معاملے کو اجاگر کرنے کے لیے جتنا زور بیان میں دکھا سکتا تھا‘ دکھایا۔ آخر کو مگر کپتان نے کہہ دیا کہ یہ تو ایک سیاسی بیان تھا۔ اس پر نجم سیٹھی سے میں نے تحریری طور پر معافی مانگی۔ اس کے سوا کیا کرتا؟۔ سب جانتے ہیں کہ سیٹھی صاحب سے کچھ زیادہ حسنِ ظن میں نہیں رکھتا‘ مگر ایک غلط الزام کی تصدیق پر قائم کیسے رہتا؟
وکی لیکس کے معاملے میں ایسی ہی سخت بات جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بارے میں کہہ دی۔ سب جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ اس ناچیز کے مراسم بہت خوشگوار تھے۔ بہت صدمہ انہیں ہوا۔ مجھے یاد کیا اور وضاحت کی۔ پوچھا کہ میرا مؤقف معلوم کیے بغیر‘ ایسا الزام کیوں لگایا‘ حقیقتِ حال سے دور کا تعلق بھی‘ جس کا نہیں تھا۔
میرا احساس یہ ہے کہ آئی بی کے سربراہ آفتاب سلطان کے باب میں بھی‘ ایسی ہی غلطی مجھ سے سرزد ہوئی۔ جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کے لیے‘ خاص طور پر وہ لندن گئے۔ حساس معلومات انہیں فراہم کیں۔ محض قیاس اور گمان کی بنیاد پر ان کی مذمت کیسے کی جا سکتی ہے۔ آفتاب سلطان کو میں نہیں جانتا۔ کبھی ان سے ملا نہیں۔ ان کے بعض رشتہ داروں اور ہم جماعتوں سے ملاقاتیں ضرور رہیں۔
بدھ کی شام ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ سبکدوش افسر ہیں۔ نوکر شاہی کی رگ رگ سے آشنا۔ ایک دیانت دار‘ مستعد اور محنتی منتظم کی حیثیت سے‘ دنیا بھر میں ان کا چرچا ہے۔ ابھی ابھی لندن سے لوٹ کر آئے تھے‘ جہاں بعض سرکاری تقریبات میں مدعو تھے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں تجارتی راہداری کے موضوع پر ایک لیکچر بھی دیا۔ کہا: میرے علم میں ہے کہ آفتاب سلطان کا دورہ برطانیہ بہت پہلے سے طے تھا۔ ایسے وہ ہرگز نہیں کہ خاص طور پر میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے دور دراز کا سفر کرتے۔ ساری عمر احتیاط سے بسر کی ہے۔ اب یکایک اس قدر سستے وہ کیونکر ہو سکتے ہیں؟ بتایا جاتا ہے کہ اس آدمی نے ملازمت کا بیشتر عرصہ انٹیلی جنس میں گزارا۔ فیصل آباد کے ایک نواحی گائوں سے جس کا تعلق ہے۔ خاندان کے کئی افراد قومی اسمبلی کے ایوان تک پہنچے‘ مثلاً محترمہ سروری سلطان‘ سول سروس میں بھی بعض اعلیٰ عہدوں تک۔ مالی طور پہ آسودہ ہیں۔ رزق حرام سے کراہت رکھتے ہیں۔ عزتِ نفس کا شعور اور دربار داری سے گریزاں۔
مدتوں پہلے وہ خوشاب کے ڈی ایس پی بنے۔ ٹوانہ‘ لک‘ ملک اور کئی دوسرے ممتاز خاندانوں کا دیار۔ نیا افسر اپنے دفتر میں جما بیٹھا رہا اور کسی دیہہ خدا کے ڈیرے کی زیارت نہ کی۔ اس پر یہ لوگ بگڑے اور ان کا تبادلہ کرا دیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ ان کی جگہ عملش خان بھیجے گئے۔ ایف آئی اے کی سربراہی سے پچھلے دنوں جو سبکدوش ہوئے۔ جن کا ''کوئی آقا‘‘ کبھی ان سے خوش نہ ہوا۔ عملش خان کے تقرر پر آفتاب سلطان نے قہقہہ لگایا اور یہ کہا: میں تو پھر بھی کچھ لحاظ کر لیتا ہوں۔ اب وہ مولوی صاحب کو بھگتیں۔
اپنے اقتدار کو جواز عطا کرنے کیلئے‘ جنرل پرویز مشرف نے ریفرنڈم کا ڈرامہ رچایا تو ماتحتوں کو ذمہ داریاں سونپیں۔ پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول اس سلسلے میں سرگودھا گئے۔ آفتاب سلطان جہاں ڈی آئی جی کے منصب پر فائز تھے۔ سرکاری افسروں کی ''رہنمائی‘‘ کا الاپ شروع کیا تو چھوٹتے ہی آفتاب سلطان نے کہا: حضور! ہم تو قاعدے قانون کے لوگ ہیں ۔ ریفرنڈم سے ہمارا کیا تعلق۔ امن و امان ہماری ذمہ داری ہے۔ گورنر صاحب اس پہ ناشاد ہوئے تو پولیس افسر خلاف معمول بھڑک اٹھا۔ اس نے کہا: تو پھر آپ مجھے نیب کے حوالے کر دیجئے۔ جنرل کے ظرف کو داد دینی چاہئے کہ اس پر وہ خاموش رہے۔ یہی نہیں‘ آفتاب سلطان اپنے منصب پر بھی قائم رہے۔
اس سے بھی پہلے ، اسی طرح کا ایک واقعہ‘ لاہور میں رونما ہوا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو لاہور کے لیے ایک سخت گیر ایس ایس پی درکار تھا۔ آفتاب سلطان کی شہرت اچھی تھی کہ کبھی کسی مجرم سے رعایت نہیں برتتے۔ دوسروں کے ساتھ چنانچہ وہ بھی بلائے گئے۔ خادمِ پنجاب ان دنوں مولا جٹ بنے ہوئے تھے۔ ایک کے بعد دوسرے اشتہاری مجرم کے قتل کی اطلاع آتی۔ آفتاب سلطان نے صاف صاف کہہ دیا: قتل میں کسی کو نہیں کروں گا۔ شہباز شریف اس جسارت پہ حیرت زدہ رہ گئے۔ لاہور کا ایس ایس پی ان دنوں بڑی اہمیت کا حامل ہوا کرتا‘ خاص طور پر وزیراعلیٰ کے گھنے سائے میں۔ وزیرِ اعلیٰ نے کہا : باہر لوگ قطار بنائے کھڑے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک سفارش لائے ہیں۔ دھیمے انداز میں آفتاب نے جواب دیا: میں نے تو کسی سفارش سے آپ کو زحمت دی اور نہ قطار میں کھڑا ہوا۔ آپ نے یاد کیا تو حاضر ہو گیا۔
بر سبیل تذکرہ ملتان میٹرو میں شہباز شریف پہ لوٹ مار کا الزام بھی اتنا ہی بے بنیاد ہے۔ ان کا اندازِ حکومت اور باقی کارنامے اپنی جگہ۔ اس الزام کا ادنیٰ سا ثبوت بھی فراہم نہ ہو سکا۔ ایس ای سی پی نے تحقیقات میں کوتاہی کی یا کسی اور نے بے قاعدگی کا مظاہرہ بے شک کیا ہو۔ شہباز شریف کا دور کا تعلق بھی اس سے نہیں۔ راوی وہ ہے‘ 22 برس سے جسے میں جانتا ہوں۔ اپنا نام لکھنے کی وہ اجازت نہیں دیتا اور ستائش پر تو بگڑ ہی جاتا ہے۔ مگر میں گواہی دیتا ہوں کہ اپنے روحانی پیشوا اور گرامی قدر والد تک کی سفارش کبھی آسانی سے اس نے تسلیم نہ کی۔ اس معاملے سے وہ متعلق تھا۔ مالی معاملات کا نگران۔ روپے پیسے کے باب میں ایسا سخت گیر شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ اس کمپنی کا کوئی تعلق پاکستان سے تھا ہی نہیں۔ اس منصوبے کے وہ ٹھیکیدار نہ تھے، جزوی طور پر بھی نہیں ۔ جب وہ شامل ہی نہ تھے تو کرپشن کیسے ہوئی اور وزیر اعلیٰ کو حصہ کیونکر ملا۔
اوّل اوّل یہ بات کھلی تو شہباز شریف پریشان تھے۔ پارسا تو وہ قطعی نہیں۔ البتہ اپنی شہرت کے باب میں حساس بہت ہیں۔ چیف سیکرٹری سمیت متعلقہ افسروں کا اجلاس بلایا گیا۔ سیر حاصل بحث ہوئی۔ ایس ای سی پی سے رابطہ ہوا۔ اس کے بعد دو ممتاز افسروں کو چین بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ بیجنگ میں وزارت خارجہ کے حکام سے وہ ملے۔ انہوں نے وضاحت کی ۔پاکستانی نہیں ،بنیادی طور پر یہ ایک چینی کمپنی ہے؛ اگرچہ اسی نام سے‘ پاکستان میں بھی کاروبار کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان کے ہاں بڑی رقوم کا سراغ ملا تو تفتیش کی گئی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ملتان میٹرو سے یہ رقم انہوں نے کمائی ہے۔ چین میں کرپشن پر قوانین سخت اور موت کی سزا عام ہے۔ اگرچہ شہباز شریف اور سینیٹر مشاہد حسین کے تعریفی خطوط انہوں نے پیش کیے۔ تحقیق ہوئی تو جعلی نکلے۔ متعلقہ دفتر سے پاکستانی افسر ملاقات کے متمنی تھے مگر چینی تامل کا شکار تھے۔ ''یہ ہماری بنیادی پالیسی ہے کہ غیر متعلق لوگوں کو‘ سرکاری رازوں میں ہم شریک نہیں کرتے‘‘۔ یہ ان کے جواب کا خلاصہ تھا۔ پاکستانی افسر مگر ڈٹے رہے۔ اپنے طور پر شہباز شریف بھی کوشش کرتے رہے۔ آخرکار ایک ملاقات ہوئی۔ چینی حکومت کی طرف سے جس کے بعد سرکاری طور پر وضاحت کر دی گئی۔ اس کے باوجود ہمارے بعض دوست مصر ہیں۔ ان کا طرزِ احساس یہ ہے کہ شریف خاندان ذاتی منفعت کے بغیر کوئی کام کر ہی نہیں سکتا۔ بجا ارشاد‘ مگر کوئی ثبوت‘ کوئی شہادت۔ استثنیٰ بھی ہوتا ہے، حضور۔ And exceptions confirm the rules۔
جانتا ہوں کہ میری گزارشات پسند نہ کی جائیں گی مگر کیا کیجیے ۔ اب مگر دل پر بوجھ رکھ کر جینے کو جی نہیں چاہتا۔ تقریباً بلاناغہ نون لیگ والے دشنام دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو اس قدر کہ حیرت ہوتی ہے۔
دوست روٹھ بھی جائیں تو کیا؟ آخر اپنے دوست ہیں۔ بس اتنا یاد رہے کہ ''میں وہی ہوں مومنِ مبتلا‘‘۔