مایوسی شیطان کا حربہ ہے۔ فرمایا: اے انسان کس چیز نے اپنے مہربان رب کے بارے میں تجھے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ اقبال ؔ نے یہ کہا تھا ع
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا خیال حادثے کے بعد آیا۔ چار دن ہوتے ہیں نصف شب کو‘ چاروں شانے چت زمین پہ آ رہا۔ فرش پہ کچھ روغن گر پڑا تھا۔ گمان تک نہ تھا کہ ایسا مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ اردن کے کچھ مہمان جو پنجاب گروپ آف کالجز کے مباحثے میں شرکت کے لیے پاکستان میں ہیں‘ قریبی کمروں میں تھے۔ ان میں سے ایک لپک کر آیا۔ عرض کیا‘ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ محفوظ ہوں‘ کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی۔ درد کش دوا کھائی اور گہری نیند سویا۔ دوپہر سابق خارجہ سیکرٹری جناب شمشاد احمد خاں اور سبکدوش بریگیڈیئر یوسف صاحب سے ملاقات تھی۔ درد پھر سے جاگا۔ ڈاکٹر وحیدالدین خان صاحب کو تلاش کیا۔ قصور سے وہ لاہور کو روانہ تھے۔ تشریف لائے‘ معائنہ کیا۔ تین جگہوں پہ چوٹ تھی۔ خوشگوار حیرت سے انہوں نے کہا۔ It`s a narrow escape۔ ایک بار پھر اللہ کا شکر ادا کیا۔ انہوں نے کہا: آپ کا ڈاکٹر اچھا تھا۔ موزوں درد کش دوا اور سپرے تجویز کیا۔ ڈاکٹر نہیں وہ ایک عامی تھا۔ اللہ کی رحمت شاملِ حال تھی۔ غالباً ایسے کسی تجربے سے گزرا ہو گا۔ اچھے حافظے کا آدمی‘ دوائوں کے نام اسے خوب یاد تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے برف سے ٹکور کی۔ کہا‘ دو دن کیجئے۔ اس کے بعد گرم ٹکور۔ چار پانچ دن کے لیے سفر کی ممانعت؛ چنانچہ گوادر یاترا منسوخ کی۔ تین دن خیریت سے بیت گئے۔ آج سہ پہر درد پھر جاگا‘ دوا پھر کھائی۔
سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری اسی طرح گرے تھے‘ لوٹ کے گھر آئے۔ لباس آلودہ‘ صاحبزادی رو دیں۔ کہا: اب یہی حال ہے۔ خود پہ قابو نہیں۔ فرمایا کرتے: اپنی سلطنت جسم تک محدود تھی۔ حسنِ سلوک اس کے ساتھ نہ کر سکے۔ اب اس کے احتجاج کا سامنا ہے۔ کیا عجب ہے کہ میرؔ صاحب کو یاد کرتے ہوں ؎
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
حیات کا کیا بھروسہ۔ اپنی پسند کا انجام‘ خال ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ عالمِ خواب میں ہی سہی‘ امام غزالیؒ سے ملاقات اگر ممکن ہو تو ان کے ہاتھ تھام لوں۔ نرم دل آدمی سے التجا کروں کہ نسخہ عنایت کریں۔
چونتیس سال کی عمر میں بغداد کے مدرسہ نظامیہ کی سربراہی کو خیرباد کہا اور ایک حادثے کے بعد۔ زبان خاموش ہوئی اور ایسی خاموش کہ ایک لفظ بول نہ سکتے تھے۔ ایک سوال دل میں ترازو تھا کہ آدمی اپنے آبائی عقائد پہ کیوں قائم رہتا ہے۔ پانچ سو دینار کا جبہ پہنے‘ عربی گھوڑے پہ سوار‘ اجنبی سرزمینوں کا رخ کیا۔ معلوم نہیں کہاں کہاں گھومے پھرے۔ بتاتے نہیں تھے۔ کوئی پوچھتا تو کہتے ''مضیٰ ما مضیٰ‘‘ جو بیت گیا سو بیت گیا۔ اس قدر معلوم ہے کہ کوئی دن دمشق کی جامع اموی میں مراقبہ فرمایا تھا۔ لوٹ کر آئے تو خچر پہ سوار تھے‘ پانچ دینار کی قمیض پہنے۔
شیخِ ہجویرؒ کو خواب میں سرکارؐ کی زیارت نصیب ہوئی۔ ایک نحیف و نزار بزرگ ان کے بائیں ہاتھ تھے۔ عرب کسی کو بائیں ہاتھ لیتے تو یہ پناہ دینے کا استعارہ ہوتا۔ کشف المحجوب میں لکھا ہے: میں نے آپؐ کے قدم لیے‘ سوال کی جسارت کی تو ارشاد فرمایا: یہ تمہارے امام ہیں‘ ابوحنیفہؒ۔ لاہور کے نصیب کیا خوب جاگے کہ انہیں اس دیار کا حکم صادر کیا۔ شاید غزنی کا محمود اسی لیے آنجناب کی خدمت میں بھیجا گیا۔ مزید برآں ان کے مرشد‘ ان کے گرامی قدر استاد جناب خطلی نے بھی تاکید کی۔
امام غزالیؒ کی وفات کا واقعہ عجیب ہے۔ ان کے بھائی احمد الغزالی سے پوچھا گیا کہ انتقال کیسے ہوا۔ کہا: کچھ بھی نہیں‘ فجر کی نماز پڑھی‘ کفن منگوایا‘ اسے بوسہ دیا اور کہا: اچھا میرے مالک‘ جیسے آپ کی مرضی۔ بستر پر لیٹ گئے۔ دیکھا تو روح پرواز کر چکی تھی۔ باون سال کی عمر تھی۔ جواندوختہ چھوڑ گئے ‘ آج تک بندگان خدا کو رحمت ہے۔ فارسی میں لکھی گئی‘ ان کی واحد کتاب ''احیاء العلوم‘‘ کے بارے میں یہ کہا گیا: خدا نخواستہ‘ اسلامی علوم کا سارا خزانہ برباد ہو جائے تو اس کتاب کی مدد سے‘ تشکیلِ نو ممکن ہے۔ ساڑھے چار برس ہوتے ہیں‘ ایران کے سفر سے لوٹ کر آیا تو ایک زخم ہمراہ تھا۔ سب انسان خطا کار ہیں اور اکثر خطائیں قابلِ معافی ہوتی ہیں۔ ایرانیوں کا یہ قصور مگر معاف نہیں کیا جا سکتا کہ غزالیؒ کے مزار کی حفاظت نہ کی۔ مشہد کے قریب‘ امام کی جائے پیدائش کے نواح میں‘ اپنے شاعر نصیر الدین طوسی کا شاندار مقبرہ تعمیر کیا ہے۔ فوارے گاڑ دیئے ہیں۔ سو فٹ اونچا مجسمہ ہے۔ غزالیؒ کا نام بھی اس کے نواح میں کسی کو معلوم نہیں۔ چراگاہوں میں گھوڑے آج بھی اسی طرح چرتے نظر آتے ہیں۔ سورج اسی طرح طلوع ہوتا اور اسی طرح مرغزاروں پہ ڈوب جاتا ہے۔ نو روز کا موسم اسی طرح نمودار ہوتا‘ اسی طرح دلوں میں گداز تخلیق کرتا ہے۔ اتفاق سے یہ نوروز کا موسم تھا۔ مشہد سے تہران تک‘ ہوا حال پوچھتی اور ستم ڈھاتی۔ ایک ایک ایرانی سے پوچھا کہ امامؒ کا مزار کہاں ہے۔ کسی نے ان کا نام تک نہ پہچانا۔ کیا خاک پہچانتے‘ وہ تو اپنی زبان تک بھول گئے۔ ایک نے مجھ سے پوچھا: اس روانی سے فارسی کے شعر آپ کیسے پڑھتے ہیں۔ مسافر حیرت زدہ کہ اسے چند سو اشعار ہی یاد ہیں۔ ہمارے ہاں تو ایسے بھی ہیں کہ حافظؔ و سعدیؔ ازبر ہیں۔ اہلِ ایران سعدیؔ کو بھول گئے‘ حافظؔ کو بھول گئے‘ بیدلؔ کو فراموش کر دیا۔ اقبالؔ کو حافظؔ و سعدیؔ فقط یاد ہی نہ تھے‘ اس نے ان کی زبان بھی لکھی۔ ازسر نو اس عہد کو زندہ کیا۔ دِلّی کے اس دیوانے سرمد شہید نے کہا تھا:
عمریست کہ آوازۂِ منصور کہن شد
من از سرِنو جلوہ دہم دار و رسن را
زمانے گزر گئے‘ منصور کی آواز پرانی ہو چکی۔ میں نے پھر سے دار و رسن کا جلوہ دنیا کو دکھا دیا۔ کیا وہ والٹیئر تھا‘ جس نے کہا تھا: ''Every word of a writer is an act of generosity‘‘ لکھنے والے کا ہر لفظ ایک عطیہ ہوا کرتا ہے۔
فرشِ خاک سے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوا اٹھا۔ ایک ذرا سی چوٹ ہے۔ ایک سادہ سی ہومیو پیتھک دوا سے ان شاء اللہ مندمل ہو جائے گی۔ نامور شاعر ظفر اقبال کے فرزند جنید اقبال پیر کو ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ یونہی بے خیالی میں‘ ان سے ذکر کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ زیادہ احتیاط کی جائے۔ سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے ہوئے ریلینگ کو تھام رکھنا چاہیے۔ عجیب بات ہے کہ دفتر میں اس کا التزام ہمیشہ کرتا ہوں۔ گھر میں بھی مگر لاہور والے مہمان خانے میں اکثر کوتاہی۔ ایک بہت مختصر سی دعا‘ رحمت اللعالمینؐ نے تعلیم فرمائی تھی۔ زینہ چڑھتے ہوئے ''اللہ اکبر‘‘ اور اترتے ہوئے ''سبحان اللہ‘‘۔ عارف کا کہنا یہ ہے کہ دعا وہ کام آتی ہے‘ بر وقت جو یاد آئے۔ دفتر میں بہت سی سیڑھیاں اترنی ہوتی ہیں اور بعض اوقات جلدی سے۔ اس لیے کبھی دعا یاد آ جاتی ہے۔ گھر اور مہمان خانے میں شاذ و نادر ہی۔ ممکن ہے کہ دعا ہی یاد کرانی ہو۔ کون جانتا ہے‘ آدمی کے نصیب میں کیا لکھا ہے۔ کون جانتا ہے کہ آنے والا کل اس کے لیے کیا لائے گا۔ دعا مگر قبول ہوتی ہے۔ جناب عمر فاروق اعظمؓ سے کسی نے پوچھا: قبولیت دعا کا اہتمام کیسے ہو۔ فرمایا: درود ہمیشہ قبول کیا جاتا ہے۔ آغاز اور اختتام پہ درود پڑھ لیا کرو۔ اصل الاصول یہ ہے کہ اللہ بندے کے لیے ویسا ہے‘ جیسا کہ وہ گمان کرے۔
مایوسی شیطان کا حربہ ہے۔ فرمایا: اے انسان کس چیز نے اپنے مہربان رب کے بارے میں تجھے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ اقبال ؔ نے یہ کہا تھا ع
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں