"HRC" (space) message & send to 7575

بخیہ گری

رفو گری میں ہم لگے رہتے ہیں ۔ تار تار اس پیرہن سے نجات کیوں نہیں پاتے، دراصل جو پیرہن ہی نہیں ۔ 
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا 
مہلت ہی نہ دی فیضؔ کبھی بخیہ گری نے 
ابھی ایک سمن پڑھا ہے ، جس میں رحیم یار خان کی ایک عدالت میں حاضر ہونے کا حکم ہے ۔ میرے نہیں ، یہ مقدمہ کسی اور کے نام ہے ۔ اس شخص کے خلاف ،ایک درویش نے جس کے بارے میں کہا تھا: شیطان کو اب اس آدمی سے کیا کام؟ ناچیز کو ایک گواہ کے طور پر طلب کیاہوگا ۔ خوشی سے میں حاضر ہوتا اور شہادت دیتا کہ میں کوئی نواز شریف تو نہیں ۔ عدالت کا اکرام واجب ہے ۔ عدالتی عمل سے بے نیازی کا مطلب انارکی ہوتا ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ مقدمے کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس اثنا میں عدالت سے التوا کی درخواست کرنا پڑے گی ۔
یہی ایک مقدمہ دردِ سر نہیں ۔ ایک صاحب نے خاندان کے 65لاکھ روپے دبا رکھے ہیں ۔ چار سال پہلے عدالت اس پہ حکم صادر کر چکی ۔ لاہور ہائی کورٹ میں اس نے اپیل دائر کر دی ۔ تین برس گزر جانے کے باوجود مقدمے کی کارروائی شروع نہیں ہو سکی ۔ سامنے کا سبب تو یہ ہے کہ ججوں پر کام کا بوجھ غیر معمولی ہے ۔ ایک وجہ یہ بھی ممکن ہے کہ اہلکاروں سے مل کر تاخیری حربے استعمال کیے ہوں ۔ 
سات برس ہوتے ہیں ، نیلامی میں کچھ زمین خریدی ، زرعی ترقیاتی بینک نے کسی قرض ادا نہ کرنے والے کی ضبط کر رکھی تھی ۔ ہائی کورٹ میں نیلامی منسوخ کرنے کی درخواست ان صاحب نے دائر کر دی ۔ وکیل کا کہنا یہ تھا کہ پہلی ہی پیشی پر خارج ہو جائے گی ۔ عدالتِ عالیہ کا نہیں ، یہ بینکنگ کورٹ کا دائرئہ کار ہے ۔ خارج تو کیا ہوتی ، اس کی کبھی سماعت ہی نہ ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دو برس کے بعد بینک سے خود ہی نیلامی منسوخ کرنے اور اداکردہ روپیہ واپس کرنے کی درخواست کی ۔ اللہ ان کا بھلا کرے ، کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین ذکا اشرف ،زرعی ترقیاتی بینک کے چیئرمین تھے۔ رئوف کلاسرا کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے آمادگی ظاہر کی مگر یہ کہا کہ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ جرمانہ ادا کیا اور اللہ کا شکر بھی ۔ 
اسی ہائیکورٹ سے خاکسار کے خلاف ایک حکم صادر ہوا ۔ ایک نوسر باز کے خلاف نچلی عدالت میں کیس دائر کیا تھا۔ وہ عدالتِ عالیہ تشریف لے گئے اور مدعی کے خلاف فیصلہ حاصل کر لیا۔ مجھے علم تک نہ ہو سکا ۔ سمن تو ظاہر ہے کہ جاری کیے گئے ہوں گے مگر وہ مدعا علیہ تک کبھی نہ پہنچے ۔ ظاہر ہے کہ یہ اہلکاروں کی کرامت تھی۔ اس پر بھی صبر کر لیا جاتا لیکن پھر انہوں نے ہرجانے کا نوٹس بھیجا۔ مبلغ چار کروڑ چالیس لاکھ روپے کا۔ جناب بابر اعوان سے ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اب اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنا ہوگا۔ رجوع کر لیا۔ زمانہ بیت چکا‘ سماعت کی نوبت آج تک نہیں آئی۔ 
وہ ان تین آدمیوں میں سے ایک تھا، جن کے توسط سے خاندان کے لیے راولپنڈی میں کچھ زمین خریدی تھی ۔ تینوں کا تعلق مذہبی جماعتوں سے تھا۔ ایک تبلیغی، دوسری جہادی اور تیسری مذہبی سیاسی جماعت۔ ایک نے معافی مانگ لی اور تلافی کا وعدہ کیا۔ دوسرے نے ، جس کا فرزند مقبوضہ کشمیر میں شہید ہوا تھا، چیک جاری کیے مگر بینک سے مسترد ہو گئے۔ جیل اس نے گوارا کی مگر ادائیگی سے انکار کر دیا۔ ایک بار پھر عدالتی نظام سے رجوع کیا۔ اپنے وکیل سے میں نے کہا : سماعت کرنے والے نو آموز جج کے تیور اچھے نہیں ۔ ایک دوسری عدالت سے ملزم کے خلاف فیصلہ صادر ہو چکا ۔ اس کے باوجود جج صاحب مخالف اور اس کے وکیل ہی کی سنتے ہیں ۔ التوا کی درخواست ہر بار قبول کر لیتے ہیں ۔ بہتر ہے کہ مقدمہ کسی دوسری عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست کی جائے ۔ نیک نام اور سادہ اطوار قانون دان نے کہا : بعض جج لب و لہجے میں تلخ ہوتے ہیں ۔ بدگمانی کا کوئی جواز نہیں ۔ اس اثنا میں وکیل بیچارہ بیمار ہو گیا اور بیماری بھی ایسی کہ بستر سے جا لگا۔ جگر خراب ہوا اور بھارت سے پیوند کاری کرانا پڑی ۔ بارہ لاکھ خرچ اٹھا ۔ اس کے ناپختہ نائبین معاملے کو سمجھ نہ سکے۔ موزوں شواہد پیش نہ کر سکے ؛چنانچہ غیر متوقع فیصلہ صادر ہوا۔ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ۔ ابھی تک سماعت کا آغاز ہی نہیں ہو سکا۔ سفارش چاہیے ، اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک کے بعد دوسرا دروازہ کھٹکھٹایا جائے ، تعلقات برتے جائیں تو پانچ سات برس میں شاید انصاف کا امکان پیدا ہو۔ ان بکھیڑوں میں کون پڑے۔ اتنا ملال وقت ضائع ہونے اور مالی نقصان کا نہیں ، جتنا یہ احساس کہ مملکتِ خداداد میں حصولِ انصاف کا کوئی راستہ ہی نہیں۔ اس پر بھی کہ پانچ کے پانچ جن نوسر بازوں سے واسطہ پڑا ، ان کا تعلق دینی گروہوں سے تھا ۔ ایک کے بارے میں اس کی پارٹی سے ثالثی کی درخواست کی گئی ۔ تحریری ضمانت انہوں نے مانگی : اس دوران قانون سے رجوع نہ کیا جائے گا ۔ تحریر لکھ دی اور وعدے کی پابندی کی ۔ ملزم نے موقع سے فائدہ اٹھا کر ضمانت کرالی۔ 
ثالثوں کی خدمت میں حاضر ہوا تو ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا: آپ نے اس عظیم سکالر کی شان میں کیوں گستاخی کی، جو ہماری تحریک کے بانی ہیں ۔ عرض کیا: بالکل نہیں کی۔ اخبار نے انٹرویو کیا تھا ، سرخی غلط جما دی ، سب جانتے ہیں کہ فکری اختلاف کے باوجود ان کے حسنِ کردار کا قائل ہوں ۔ وہ بولے: مجھے دیکھیے ، تحریکِ انصاف چھوڑ کر اسلام کی خدمت کے لیے اس پارٹی میں آگیا ہوں ۔ مراد یہ تھی کہ تم کیسے بدبخت ہو کہ اپنی آخرت کی فکر ہی نہیں ۔ ہمارے ساتھ مل کر اسلام کا علم کیوں بلند نہیں کرتے ۔ میں خاموش رہا اور شواہد پیش کیے ۔ بعد میں خود انہوں نے کہا کہ ان کے کارکن نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ فیصلہ ہمارے حق میں صادر کیا مگر اس سے کیا حاصل ہوتا۔ عدالت ضمانت لے چکی تھی ۔ اور بھی کتنی ہی داستانیں ہیں ، دوست اخبار نویسوں ، دانشوروں اور شاعروں کی ، جن کی شعبدہ بازی پہ آج تک حیران ہوں ۔ اللہ رسولؐ کے نام لیوا بھی، ترقی پسند بھی۔ ان میں سے تین ملک گیر شہرت رکھتے ہیں ۔ نون لیگ کے ایک سابق سینیٹر اوررکنِ قومی اسمبلی بھی، جنہیں ان کے حامیوں نے دھاوا بول کر تھانے سے رہا کرا لیا تھا۔ 
اپنے درد کی داستان سنانا مقصود نہیں ۔ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے بڑی برکت دی ۔ کاروبار کی طرح ملازمت میں بھی ۔ یہ توفیق بھی اللہ نے بخشی کہ حرام کیا، مشکوک رزق سے بھی بچائے رکھا۔دل دُکھتا ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑ چکا۔ اخلاقی طور پہ معاشرہ تباہ حال ہے ۔ایک ادارہ بھی نہیں ، جو ڈھنگ سے بروئے کار آتاہو ، جس سے کوئی امید وابستہ کی جا سکے۔پولیس نہ عدالت ، محکمہ مال اور نہ انتظامیہ کے اعلیٰ افسر اور حکمران سیاستدان۔ 
سارا وقت ہم سیاست میں الجھے رہتے ہیں ۔ لیڈروں کی مذمت و مدح میں۔ تعلیمی، اخلاقی اور فکری تعمیرِ نو کی پروا تک کسی کو نہیں ۔ زندگی کیکر کے درختوں پر لٹکتی دھجیوں ایسی ہو گئی ۔ 
رفو گری میں ہم لگے رہتے ہیں ۔ تار تار اس پیرہن سے نجات کیوں نہیں پاتے، دراصل جو پیرہن ہی نہیں ۔ 
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا 
مہلت ہی نہ دی فیضؔ کبھی بخیہ گری نے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں