سنتے ہیں مگر سن نہیں سکتے۔ دیکھتے ہیں، مگر دیکھ نہیں سکتے۔ گونگے، اندھے اور بہرے ہیں کہ لوٹ کر نہیں آ سکتے۔ رہائی نہیں پا سکتے!
یہ تو ظاہر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قومی زندگی میں میاں نواز شریف کا کردار محدود سے محدود تر ہوتا جائے گا؛ حتیٰ کہ معدوم۔ الیکشن وہ لڑ نہیں سکتے۔ سپریم کورٹ تاحیات پابندی لگا چکی۔ یہ امکان بھی ہے کہ جیل بھیج دیے جائیں۔ صاحبزادی محترمہ مریم نواز بھی۔ ایک ہی کشتی میں دونوں سوار ہیں۔ ایک ساتھ ابھریں گے یا ڈوب جائیں گے۔ ان کے اقتدار سے ہمکنار ہونے کا راستہ یہ ہے کہ عدلیہ اور فوجی قیادت کو الگ کر دیا جائے۔ عمران خان سیاست سے دستبردار ہو جائیں اور میاں صاحب سے اختلاف رکھنے والے دوسرے رہنما بھی۔ صرف یہی نہیں، میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خاں سمیت اختلاف کے مرتکب سب دوسرے لیڈر بھی اپنے موقف سے رجوع کر لیں۔ نون لیگ کا گہرائی سے جائزہ لینے والے اخبار نویس کہتے ہیں کہ ان کی تعداد 90 فیصد ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کے ذرائع بھی یہی کہتے ہیں۔
آخر جولائی میں سپریم کورٹ سے وزیرِ اعظم کی نا اہلی کا حکم صادر ہونے سے چھ ہفتے قبل ''دنیا‘‘ میں The Party is Over کے عنوان سے ایک کالم شائع ہوا، اس میں کہا گیا کہ وزیرِ اعظم کے سرخرو ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ گاہے اخبار نویس سیاست دانوں سے بہتر تجزیے پر قادر ہوتے ہیں۔ اگر تعصبات سے رہائی پا سکیں۔ اس تحریر میں پہلی بار مربوط انداز میں یہ بحث اٹھائی گئی کہ نون لیگ کی تشکیل، اسٹیبلشمنٹ سے تصادم کے لیے موزوں نہیں۔ الفاظ مختلف تھے، خلاصہ یہی کہ لیڈر تو کیا، کارکن بھی 'سٹیٹس کو‘ کے لوگ ہیں۔ نظامِ زر و ظلم سے فیض یاب ہونے والے۔ کالم چھپنے کے چار دن بعد تاجکستان کے دورے پر جاتے ہوئے میاں صاحب اخبار نویس کو ساتھ لے گئے۔ راستے میں شکوہ کیا اور پوچھا کہ وہ ناراضی کا شکار کیوں ہے۔ ناراض وہ قطعاً نہیں تھا۔ اس نے کہا: میاں صاحب میں نے تو آپ کو حقیقتِ حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ میاں صاحب خوابوں کی جنت میں بسیرا کیے تھے۔ وقفوں وقفوں سے، 35 سال سے برسرِ اقتدار چلی آتی پارٹی کے طاقتور سربراہ کا خیال یہ تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے اقتدار سے الگ نہیں کر سکتی۔ اپنی غلطیوں اور خامیوں پہ کبھی غور نہ کرنے والا آدمی 1993ء کے موسمِ بہار اور 1999ء کے موسمِ خزاں میں حکومت سے نکالا گیا۔ پہلی بار صدر غلام اسحٰق خاں نے آٹھویں ترمیم کے خنجر سے رسّی کاٹ دی۔ دوسری بار فوج نے تختہ الٹ دیا، جس کے سربراہ کو وزیرِ اعظم نے بیرونِ ملک سے واپس آتے ہوئے معزول اور گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔ مہنگائی، بے روزگاری، بد امنی اور بے یقینی، دونوں بار وہ اس قدر نا مقبول تھے کہ احتجاج کی کوئی بڑی لہر نہ اٹھی۔ دوسری بار تو ان سے ہمدردی رکھنے والے گیلپ پاکستان نے سروے بھی کیا۔ 70 فیصد پاکستانی فوجی اقدام پر شاد تھے۔ 20 فیصد وزیرِ اعظم کے حامی اور 10 فیصد کنفیوژن کا شکار تھے۔ ہر بار زندگی کا ایک بنیادی نکتہ ہی میاں صاحب بھول گئے: آدمی کی قدر و قیمت ہنر کے مطابق ہوتی ہے۔ اپنے استحقاق سے بڑھ کر اسے طلب نہ کرنا چاہئے اور انہی آرا پہ اصرار کرنا چاہئے، جن کی قبولیت کا کچھ نہ کچھ امکان ہو۔
اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھی کر تو بہ اندازۂ رعنائی کر
جنرل جیلانی، جنرل محمد ضیاء الحق، جنرل حمید گل اور جنرل اسلم بیگ تو ان کے سرپرست تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے سوا، جو مٹی اوڑھ کر سو گئے، سبھی سے میاں صاحب کے مراسم کشیدہ ہوئے۔ بعد میں آنے والے ہر سپہ سالار سے بھی۔ پاکستانی فوج میں جنرل قمر جاوید باجوہ سے بڑھ کر وزیرِ اعظم نواز شریف کا کبھی کوئی وکیل نہ تھا۔ جنرل باجوہ نہ صرف سول حکومت کی بالادستی کے وعدے پر
چیف آف آرمی سٹاف بنائے گئے بلکہ وہ افغانستان اور بھارت کے بارے میں وزیرِ اعظم کے ایجنڈے سے بھی کسی قدر متفق تھے۔ برسوں سے چلے آتے رواج کے برعکس، صوفے پر ساتھ ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کی بجائے، نئے سپہ سالار کو وزیرِ اعظم نے میز کی دوسری طرف، چھوٹی کرسی پر بٹھایا۔ اس سے پہلے انہیں حفاظتی دروازے (Metal Detector) سے گزارا مگر وہ بد مزہ نہ ہوئے۔
جیسا کہ منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں ان کے روّیے سے واضح ہوا، جنرل باجوہ ایک کشادہ مزاج اور خوش طبع آدمی ہیں۔ ہمیشہ ہر شخص کو ملاقات کے لیے میسر اور ہر ممکن حد تک دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کرنے والے۔ فوج کا سربراہ مقرر ہونے کے بعد اپنے ساتھیوں کو انہوں نے قائل کرنے کی کوشش کی کہ افغانستان اور بھارت سے کشیدگی کا خاتمہ خود پاکستان کے بھی مفاد میں ہے۔ انہی دنوں ایک تقریب میں، اتفاق سے آمنا سامنا ہوا تو یہی بات انہوں نے اس ناچیز سے بھی کہی۔ عرض کیا، اگر ایسا ہو سکے تو اس سے اچھی بات کیا ہے۔ سول اور فوجی قیادت میں ہم آہنگی بھی ملک کی خوش بختی ہو گی۔ بے موقع بات کرنے سے گریز کیا۔ اس نکتے کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھا کہ سول ملٹری ہم آہنگی ہو یا پڑوسی ممالک سے صلح جوئی، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ خرابی کا آغاز ڈان لیکس سے ہوا۔ وزیرِ اعظم انگریزی اخبار کو کردار کشی کے لیے غلط معلومات فراہم کرنے والے، پرویز رشید اور طارق فاطمی کو برطرف کرنے کے وعدے سے مکر گئے۔
اس بنیادی حقیقت کو دونوں ہی زعما نے نظر انداز کر دیا کہ پوری کی پوری فوج اور فعال طبقات کی اکثریت بھارت اور افغانستان کے بارے میں وزیرِ اعظم کے طرزِ عمل پہ تحفظات ہی نہیں، گہرے شکوک رکھتی ہے۔ افغانستان کے حکمران بھارت اور امریکہ کے بغل بچّے ہیں۔ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی گجراتی مسلمانوں کے قاتل اور پاکستان کو توڑنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے سرگرم کارکن رہے۔ وہ تنظیم، جو بھارتی مسلمانوں کو ہسپانیہ میں موجود عربوں اور بربروں جیسے انجام سے دوچار کرنا چاہتی ہے۔
میاں محمد نواز شریف کے طرزِ عمل کی تشکیل میں بظاہر دو عوامل کارفرما ہیں۔ پاک فوج کی قیادت سے ان کی ناراضی اور بھارتی صنعتکاروں سے ان کے کاروباری تعلقات، جن میں سے ایک، سجن جندال نے نیپال میں مودی سے ان کی خفیہ ملاقات کا بندوبست کیا۔ نریندر مودی کے جشنِ تاجپوشی میں شرکت کے لیے وزیرِ اعظم نئی دہلی گئے تو اپنے صاحبزادے حسین نواز کے ساتھ جندال کے گھر گئے۔ سفارتی اور سیاسی آداب کو بھلا کر، پاکستانی ہائی کمیشن کو مطلع کیے بغیر پاکستان دشمن بھارتیوں سے ملتے رہے۔ میاں صاحب کے دورِ حکومت میں 800 ارب روپے پاکستان سے بھارت منتقل کیے گئے ہیں۔ آج تک اس عمل کی کوئی توجیہہ نہیں کی گئی۔
یہ ایک ضدی آدمی کا روّیہ ہے۔ من مانی کی بے قابو خواہش۔ اپنی پارٹی کی وہ نہیں سنتے، چوہدری نثار اور اپنے بھائی شہباز شریف کی بھی نہیں۔ پارٹی لیڈر خطرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو وہ مسکراتے اور ارشاد فرماتے ہیں ''فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ کیا کچھ طاقتور ممالک نے انہیں سرپرستی کا یقین دلایا ہے؟ وہ جو پاک فوج اور سیاستدانوں میں تصادم چاہتے ہیں؟
رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے پاکستان کا سیاسی ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے۔ سب دیکھ سکتے ہیں۔ مگر وہی نہیں، جس کو بربادی کا اندیشہ ہے۔ آنکھوں اور کانوں پہ پردے ڈال دئیے جاتے ہیں۔ سنتے ہیں مگر سن نہیں سکتے۔ دیکھتے ہیں، مگر دیکھ نہیں سکتے۔ گونگے، اندھے اور بہرے ہیں کہ لوٹ کر نہیں آ سکتے۔ رہائی نہیں پا سکتے!