تو قدرت سزا دیتی ہے اور دیتی رہتی ہے ؎
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
اشتراکی فلسفہ یہ ہے کہ تضادات تند ہوتے ہیں تو تحلیل ہوا کرتے ہیں۔کیا یہ ایک اصول ہے اور کیا یہ حتمی ہے؟ تاریخ کے عالم ہی حکم لگا سکتے ہیں۔
حالات بہت بگڑ گئے۔ برصغیر میں عام آدمی کی زندگی کبھی آسودہ نہ تھی۔ دنیا بھر میں اکثر کہیں بھی نہیں۔ شاذشاذ‘ کبھی کبھی۔ پیغمبروں کے ادوار‘ کبھی کوئی نوشیرواں عادل‘ کبھی کوئی ابرہام لنکن‘ کبھی کوئی صلاح الدین ایوبی‘ کبھی کوئی ٹیپو سلطان۔شاعر نے کہا تھا:
جب جب اسے سوچا ‘ دل تھام لیا میں نے
انسان کے ہاتھوں سے انسان پہ کیا گزری
ہزاروں برس کی جدوجہد کے بعد آدمیت نے جمہوری نظام تشکیل دیا۔ اپنی خامیوں کے باوجود کہ ڈاکو اور درویش کا ووٹ ایک برابر ہے‘ عام آدمی کے لئے تحفظ کا کچھ سامان بھی اس میں ہے۔ قوم تعلیم یافتہ ہو اور اس کی تربیت ہو سکے تو اچھے حکمران وہ چن سکتی ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا: آدھی جنگ اچھے لیڈر کے انتخاب سے جیت لی جاتی ہے۔ معاشرہ جہل میں مبتلا ہے بلکہ جہل مرکب میں۔ چھوٹی بڑی پارٹیوں میں لوگ بٹے ہیں۔ اپنے لیڈروں کو وہ دیوتا سمجھتے ہیں۔ بینظیر بھٹو کی حکومت میں ایک مولوی صاحب نے ڈیزل کے پرمٹ سے کروڑوں کمائے۔ ان کی مجلس عاملہ میں کسی نے سوال اٹھایا تو ارشاد کیا: پرمٹ کی آمدنی میں نے مجاہدین کی خدمت میں پیش کر دی تھی۔ ایسا بوتا کس میں تھا کہ تفصیل طلب کرتا‘ ثبوت مانگتا۔
گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف نے بے دردی سے ٹکٹ بانٹے۔سب سے بڑے ذمہ دار خود عمران خان تھے۔ معلومات جمع کرنے کا کوئی نظام ہی نہیں تھا۔ پارلیمانی بورڈ خود امیدواروں پر مشتمل تھا۔ ان میں ایسے بددیانت بھی تھے ‘ روپے کے عوض سفارش کرنے میں رتی برابر جنہیں تامل نہ تھا۔ ایک آدمی بالکل ناقص اور نالائق امیدوار کے حق میں دلائل دیتا تو دوسرے اکثر خاموش رہتے۔ معلومات ان کے پاس تھیں ہی نہیں۔بعض صورتوں میں انہیں معلوم ہوتا کہ مجوزہ لیڈر جیت نہ سکے گا اس کے باوجود دوسرے خاموش رہتے کہ خود انہوںنے بھی یہی کام کرنا تھا۔ مثلاً مظفر گڑھ کے ایک حلقے میں ایک ایسے شخص کو مسترد کر دیا گیا جو نیک نام تھا۔ کئی کتابوں کا مصنف۔ سول سروس میں کامران‘ بین الاقوامی اداروں میں کامیاب‘ غیر ممالک میں تدریسی فرائض انجام دینے والا۔ علاقے کا بڑا زمیندار‘ ہزاروں بچوں کو جس نے اپنے وسائل سے تعلیم دلائی۔2008ء کے الیکشن میں دو سو ووٹوں سے ہارا تھا۔ وہ بھی مبینہ طور پر اپنی حلیف محترمہ حنا ربانی کھر کی بے وفائی سے۔وہ مسترد کر دیا گیا اور ایک ایسا آدمی چنا گیا جس کے بارے میں کپتان سے میں نے کہا: آدمی کو نہیں بوسکی کے کرتے کو آپ نے ٹکٹ دیا ہے۔ واحد خوبی اس کی یہ تھی کہ شاہ محمود کا نیاز مند تھا۔ حلقۂ انتخاب سے اس کا تعلق تک نہ تھا۔ نیم خواندہ‘ ناتراشیدہ۔ شاہ محمود نے تجویز کیا تو جاوید ہاشمی خاموش رہے۔ خود انہیں بھی ایسے کئی گنواروں کی تائید کرنا تھی۔ شاہ محمود سے وہ امید رکھتے تھے کہ ایسے میں وہ بھی چپ رہیں گے۔نتیجہ یہ نکلاکہ یہ صاحب دوسرے مجوزہ امیدوار کے مقابلے میں ایک تہائی ووٹ بھی نہ لے سکے۔
امیدواروں کی فہرست پیش کی جاتی تو عمران خاں سوال کرتے: کیا کوئی کم عمر امیدوار موجود نہیں؟ابھی چند روز قبل‘ ان سے عرض کیا: چاروں صوبوں میں مؤثر پارلیمانی بورڈ چاہئیں۔ کہا: بالکل موجود ہیں۔ عرض کیا:تو چکوال میں ایسا شخص کیسے نامزد ہوا‘ جس سے بہتر امیدوار موجود تھے۔ بولے: یہ تو ضلعی پارٹی کا متفقہ فیصلہ ہے۔ گزارش کی: پارٹی میں ہمیشہ دو یا دو سے زیادہ گروپ ہوتے ہیں۔اسلام آباد سے دو گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ مجھ سے کہا ہوتا ‘چند گھنٹے میں بتا دیتا کہ مقبول امیدوار کون ہے۔یہ بھی نہیں تو ایاز امیر کو فون کرتے۔ ایک آدھ دن میں وہ تجویز کر دیتے۔ پھر میں نے سوال کیا۔ تمہارے خیال میں‘ ایاز امیر دیانتداری سے مشورہ دیتے؟ اس نے کہا: یقیناً۔
گجر خان کا قصہ کئی بار بیان کر چکا ہوں۔ گوجرانوالہ میں ایک آدھ کے سوا کوئی ڈھنگ کا امیدوار نہ تھا۔سیالکوٹ میں اب کی بار ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور منڈی بہائوالدین میں نذرمحمد گوندل ایسوں کو ٹکٹ دئیے گئے تو پورے وسطی پنجاب پہ منفی اثرات مرتب ہوں گے اور وسطی پنجاب ہی پر تحریک انصاف کے مستقبل کا انحصار ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے عہد کی بدنظمی و دہشت گردی اور اے این پی کی ہولناک کرپشن سے اکتائے ہوئے پختونخوا کے ووٹر 2013ء میں تحریک انصاف کی پشت پہ آ کھڑے ہوئے۔ امیدوار اکثر و بیشتر وہاں بھی ناقص تھے۔ ان میں سے ایک ایسا ہے‘ جسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اصحاب رسولؐ اور اولیائِ کبار سے جب سوال کیا جاتا تو جواب میں وہ درود اور بسم اللہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ جب پڑھنا ہو ایسے میں ''بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ جی میں پڑھا جاتا ہے اور درود زیرِ لب۔ وہ برا مان گئے۔ اب ان سے وقت بھی پوچھیں تو پہلے بسم اللہ پڑھتے ہیں‘ پھر درود اور اس کے بعد جواب عنایت کرتے ہیں ''اللہ کے فضل و کرم سے شام کے پانچ بجے ہیں‘‘احسن اقبال نے ممکن ہے مبالغہ کیاہو کہ صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اکثر نمائندے باغی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کچھ تو ہیں اور کچھ برائے فروخت بھی۔ اس پر بھی کوئی نظام تشکیل دینے کی بجائے‘ خان صاحب ارشاد کرتے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں خودوہ ٹکٹ عنایت کریں گے۔
یہی بات حضرت آصف علی زرداری نے ارشاد کی تھی‘ پارٹی کے لیڈر جب بلاول بھٹو کی طرف راغب ہونے لگے۔فرمایا:ٹکٹ تو میں جاری کروں گا۔ 2002ء کے طوفانِ بلاخیز میں فیصل آباد ڈویژن سے نون لیگ نے اکثریت حاصل کی تو وفاشعار میجر نادر پرویز کی جرأت و جسارت ایک قندیل تھی۔2008ء کے الیکشن کا دن آیا تو میاں محمد نواز شریف نے خود انہی کو ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا۔ وہ سبب پوچھتے رہے۔ فرمایا:مجھے مجبور سمجھیے۔ میجر صاحب سے میں نے پوچھا کہ ان کے خیال میں حادثہ کیوں ہوا۔ بولے:جنرل پرویز مشرف سے ذاتی مراسم تھے۔ اس کے باوجود کہ میں ان کا نقاد تھا اور ڈٹ کر پارٹی کے ساتھ کھڑا رہا‘ خاندان کی ایک شادی میں انہیں مدعو کرنے کی گستاخی کر بیٹھا۔ پنجاب کے سابق نیک نام گورنر میاں محمد اظہرکا واقعہ اور بھی دلچسپ ہے۔ صاحب زادے کا بیاہ تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو غلطی سے دعوت نامہ بھیج دیا گیا۔ میاں صاحب ایسے بگڑے کہ خدا کی پناہ۔1970ء کے عشرے میں شریف خاندان پہ افتاد پڑی تو میاں اظہر کا خاندان ان کا سب سے بڑا پشت پناہ تھا۔ ایک روایت کے مطابق پچاس لاکھ اور دوسری کے مطابق ایک کروڑ روپے قرضِ حسنہ خوش دلی سے دیا تھا۔ 1993ء میں غلام اسحاق خان نے شریف حکومت برطرف کی تو خان صاحب سے بہترین مراسم کے باوجود‘ احتجاجاً وہ مستعفی ہو گئے۔ پھر بھی میاں نواز شریف برہم کہ استعفیٰ دینے سے پہلے انہیں اطلاع کیوں نہ دی۔ خان صاحب کا ظرف یہ تھا کہ میاں محمد اظہر کو فون کیا اور یہ کہا: جب کبھی اسلام آباد آپ تشریف لائیں تو خدمت کا موقع دیجئے گا۔
ایک کے بعد اپنے دوسرے عہدِ اقتدار میں پولیس‘ پٹوار اور سول سروس کو اور بھی زیادہ برباد کرنے والے میاں محمد نواز شریف اب تحریکِ عدل برپا کرنا چاہتے ہیں۔ درحقیقت عدلیہ اور فوج کو پامال اور پسپا کرنے کے لئے۔ ہمیشہ عرض کیا کہ جمہوریت کا بنیادی ستون پارلیمنٹ نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں‘ جن کی تشکیل جمہوری خطوط پر ہو۔ یہی تاریخ کا سبق ہے مگر یہ بھی تو ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ قوم کو تعلیم سے محروم رکھنا محض لاپروائی اور عدمِ توجہ کا نتیجہ نہیں۔حماقت نہیں یہ سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ پولیس اور پٹوار کے ذریعے رعایا کو ریوڑ کی طرح ہانکا جا سکے۔ جب سیکھنے سے ہم گریز کرتے ہیں تو قدرت سزا دیتی ہے اور دیتی رہتی ہے۔
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف