اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: اتنا اور اس طرح مجھے یاد کروجس طرح اپنے اجداد کو بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ اقبالؔ نے یہ کہا تھا:
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
پھر ان کا ذکر چھڑا، جن کی یاد سے چراغ جل اٹھتے ہیں تو ماں جی بے طرح یاد آئیں۔ حافظے کی راکھ کو بہت کریدا مگر چک نمبر 42 جنوبی سرگودھا میں ان کی تصویر متشکل نہ ہو سکی‘ جہاں 1959ء تک اپنے پاکباز فرزند، اپنی دونوں صاحبزادیوں‘ پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی فوج ظفر موج پہ ان کا سایہ تھا۔ پلٹ کر دیکھنے کی جب بھی کوشش کرتا ہوں تو امانت کالونی رحیم یار خان میں دکھائی دیتی ہیں۔ گھر کے صحن میں لکڑی کے ایک چھوٹے سے تخت پہ براجمان ۔ بخدا یہ تختِ شاہی تھا۔ کچی اینٹوں سے بنے کمروںکی دہری قطار اور دونوں طرف پختہ برآمدے۔ دن کے اجالے میں سارا وقت وہ تسبیح رولتیں یا نماز پڑھتی رہتیں۔ بس ضروری گفتگو ہی کرتیں، تکیے سے ٹیک لگا کر نہیں بلکہ وہ سیدھی بیٹھتیں۔ تلاوت، دیر تک تلاوت۔ اوراد و وظائف اور دیر تک اوراد و وظائف؛ حتیٰ کہ شام کے سائے اترنے لگتے۔ سرما کی دھوپ کجلاتی اورگرما کے دنوں میں صحرا کی ٹھنڈی ہوا گلیوں اور گھروں میں داخل ہو کر تھپکیاں دینے لگتی۔ وہ مہربان ہوا، اقبالؔ نے جسے مخاطب کیا تھا:
اے بادِ بیابانی‘ مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی‘ سرمستی و رعنائی
ماں جی کی ساری زندگی خاموشی و دل سوزی میں بیت گئی۔ نانا جی نسبتاً جواں عمری میں انہیں اکیلا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ دو بیٹے، دو بیٹیاں، چند ایکڑ زمین اور پہاڑ سی زندگی۔ میاں خود ایک طلسماتی کہانی تھے۔ ہوش سنبھالا تو ندی کنارے بھوانی پور نام کے اپنے گائوں سے اچانک ایک دن غائب ہو گئے۔ برسوں تک کوئی خبر نہ ملی۔ ایک دن لوٹ کر آئے تو بتایا کہ حج کرنے گئے تھے‘ پیدل۔ بات ویسے ہی کم کیا کرتے۔ اب اور بھی چپ رہنے لگے۔ مہربان اور شگفتہ مگر اب وہ ایک اور طرح کے آدمی تھے۔ کھیتوں میں اگر مصروف نہ ہوتے تو محوِ عبادت۔ نوافل نہیں تو تسبیح۔ گائوں کی زندگی میں حقہ نوشی اور گپ شپ ہی سے تنہائی آباد ہوتی ہے۔ حاجی صاحب دونوں سے مفرور۔ غیبت تو دور کی بات ہے، سننے کے روادار بھی نہ ہوتے۔ توجہ ہٹا لیتے‘ ادھر ادھر دیکھنے لگتے۔ بڑے بوڑھے باہم شرط لگاتے کہ کسی نہ کسی طرح اکسا کر ایک آدھ جملہ کسی کے خلاف کہلوا لیں گے۔ ان کے ہم عمر میاں محمد شفیع نے ایک دن طول طویل کہانی کہی کہ عمر دراز آپ کے خلاف افسانے تراشتا اور حسد کا مارا الزام تراشی کرتا ہے۔ بے توجہی سے سنا کیے۔ چہرے پہ کوئی تاثر نہ تھا۔ آخر کو فقط یہ کہا: اگر وہ سچا ہے تو اللہ مجھے ہدایت دے۔ اگر نہیں تو اس کو۔ رفتہ رفتہ سبھی نے ہار مان لی۔
گائوں کے امام مسجد کا انتقال ہوا تو برادری کے ایک وفد نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا: حاجی صاحب امام مسجد کن عادات و خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔ ٹھہر ٹھہر کر بولتے ہوئے‘ اپنی رائے حاجی صاحب نے بیان کر دی۔ جیسے ہی گفتگو تمام ہوئی‘ بیک زبان وفد نے کہا‘ یہ خوبیاں تو صرف آپ میں پائی جاتی ہیں۔ حاجی عبدالغنی بہت دیر مزاحمت کرتے رہے۔ ملاقاتی ٹھان کر آئے تھے‘ منوا کر اٹھے۔
ریاست کپورتھلہ کا مہاراجہ غیر مسلم تھا‘ مگر دانا اور ہوش مند آدمی‘ مسلم رعایا کو آسودہ رکھتا۔ ہر گائوں کے امام مسجد کو ایک ایکڑ زمین مستقل ملکیت کے طور پہ دی جاتی۔ حاجی صاحب نے انکار کر دیا۔ کہا: عبادت کا معاوضہ کیسا؟ اب ایک اور افتاد پڑی۔ پٹواری سے سازباز کر کے خود ان کی آبائی زمین پہ ایک مقدمہ کسی نے دائر کر دیا۔ لگ بھگ ایک تہائی کھیت۔ صرف شرعی قانون کے حاجی صاحب قائل تھے‘ انگریزی عدالت کے خلاف۔ رشتے داروں اور دوستوں نے سمجھایا مگر عدالت جانے پہ وہ آمادہ نہ ہوئے۔ شاد رہتے‘ شکوہ و شکایت ان کا شعار نہ تھا۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: مشقت کرنے والا جسم‘ ذکر کرنے والی زبان‘ شکر گزار دل اور وفا شعار شریکِ حیات جسے حاصل ہو‘ اور کسی چیز کی اسے ضرورت نہیں۔ حاجی صاحب ان سب سے سرفراز تھے۔
کسی گائوں میں کوئی وبا پھیلی تو بہت سی زندگیاں چاٹ گئی۔ ایک وسیع و عریض خاندان میں سبھی پیوندِ خاک ہوئے۔ چھوٹا سا ایک لڑکا بچ رہا۔ ایک دن حاجی عبدالغنی کی انگلی تھامے وہ گھر میں داخل ہوا ''آج سے یہ ہمارا بیٹا ہے‘‘ انہوں نے کہا اور ماں جی کے حوالے کر دیا۔
نظم و ضبط میں ماں جی بہت سخت گیر تھیں۔ ان کے وجیہہ و شکیل اور عالم فاضل فرزند کا شمار شہر کے معزز ترین لوگوں میں ہوتا۔ ایسے کڑے تیور کہ ایک دن رحیم یار خان کے شاہی روڈ پر بلدیہ کے چیئرمین کو چھڑی سے پیٹ ڈالا۔ چپ چاپ وہ کھڑا مار کھاتا رہا۔ کبھی ماں جی انہیں آواز دیتیں ''محمد نذیر!‘‘ مؤدب وہ سامنے آ کھڑے ہوتے‘ اس فرمان کی تصویر کہ بوڑھے ماں باپ سے ''اُف‘‘ بھی نہ کہو۔ ''یہ کیا وتیرہ ہے‘ ہر روز بچوں کے لئے گوشت بھجواتے ہو؟ انہیں بیمار کرنے کا ارادہ ہے کیا۔ ہفتہ میں دو دن سے زیادہ کبھی نہیں‘‘ اس دن کے بعد‘ اس گھر میں کبھی دو دن سے زیادہ گوشت نہ پکا۔ ماں جی کی وفات کے بعد بھی نہیں۔ ماحول میں ایک آسودگی اور آہنگ تھا جو پوری آزادی اور پورے ڈسپلن کے ساتھ بروئے کار آتا ہے۔ بایں ہمہ بچے شرارت سے باز تو نہیں رہ سکتے۔ شرارت نہیں تو شوخی ہی۔ ایسے میں ماں جی کی آواز بلند ہوتی تو سناٹا چھا جاتا۔ کسی اور سے بحث کی جا سکتی‘ کسی اور کو ٹالا جا سکتا مگر ماں جی کو کبھی نہیں۔
ہمارا گھر دوسری گلی میں تھا۔ ماں جی شاذ و نادر ہی کبھی تشریف لاتیں۔ جب والدہ محترمہ‘ بی بی جی کسی تقریب میں شرکت کے لئے دوسرے کسی قصبے یا گائوں میں ہوتیں۔ ان کی موجودگی میں ایسا اگر ہوتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی حادثہ رونما ہوا یا ہونے کا اندیشہ ہے۔ کوئی بچہ بگڑ گیا ہے اور اب آخری تنبیہہ درکار ہے۔
حادثہ پھر کوئی بستی میں ہوا ہے شاید
شام روتے ہوئے جنگل کو ہوا آئی ہے
یا یہ کہ کوئی بہت اہم فیصلہ صادر ہونا ہے۔ تب مشورے کے جھنجھٹ میں ماں جی نہیں پڑتی تھیں۔ پہلے ہی سے معلومات ان کے پاس ہوتیں۔ قطعیت کے ساتھ وہ حکم صادر کرتیں۔ اپنی صاحبزادی اور اپنے داماد کو‘ جو ان کے بھانجے بھی تھے۔ یا نواسے‘ نواسیوں میں سے کسی کو۔ ''اپنی زبان پہ تم قابو رکھا کرو‘‘ ایسے ہی ایک موقع پر مجھ سے انہوں نے کہا‘ جب میں آٹھویں یا نویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ ''میں نے کیا کیا ہے‘‘ روہانسا ہو کر میں نے کہا۔ ''تمہیں خود اس پہ غور کرنا چاہیے‘‘ انہوں نے کہا اور اسی تمکنت کے ساتھ صحن سے گزر کر گلی میں داخل ہو گئیں‘ جس کے ساتھ کمرے میں قدم رکھا تھا۔
ہر عید پر ایک چوّنی وہ عنایت کیا کرتیں۔ 1960ء کے عشرے میں یہ خاصی معقول رقم دکھائی دیتی تھی جبکہ ایک دونی ہفتہ وار جیب خرچ کے طور پر ملا کرتی تھی۔ 1970ء کی دہائی میں بھی‘ جب میری تنخواہ سات سو روپے تھی‘ عید کی سویر پلّو سے کھول کر وہی چوّنی عطا کی تو ہکا بکا میں تخت شاہی کے سامنے کھڑا رہا۔
اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: اتنا اور اس طرح مجھے یاد کروجس طرح اپنے اجداد کو بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔اقبالؔ نے یہ کہا تھا:
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
(خود نوشت ''ناتمام‘‘سے ایک ورق)