سیاست دان وحشت میں مبتلا ہیں۔ اس بری طرح کہ نوشتۂ دیوار پڑھنے سے بھی قاصر ہو گئے۔ اللہ ان پہ رحم کرے، کوئی نیا گل نہ کھلا بیٹھیں۔
ایک کے بعد دوسرا بحران اور لیڈرانِ گرامی کو خود سے فرصت نہیں۔میاں محمد نواز شریف نے فرمایا کہ عمران خان نے ایک خاندان کو تباہ کر دیا۔ سابق شوہر سمیت پورا گھرانا عمران خان کا دفاع کررہا ہے۔ خان صاحب نے اگر دانائی کا مظاہرہ نہیں کیا تویہ ان کا ذاتی عمل ہے۔ اخلاقی اور شرعی اعتبار سے کوئی اعتراض ان پہ وارد نہیں ہوتا۔ ادھر خان صاحب نے کہا کہ زندگی کا بیشتر حصہ ذاتی مسرت سے وہ محروم رہے ہیں۔ سیاسی مخالف اور ایک میڈیا گروپ اب ان کی کردار کشی کے درپے ہے۔
میاں محمد نواز شریف سے کوئی پوچھے کہ حضور، خود آپ کے خاندان میں کتنے سکینڈل ہیں ؟ دوسروں کے تنکوں کی بجائے خود اپنی آنکھوں کے شہتیر وہ کیوں نہیں دیکھتے۔ رہے رانا ثناء اللہ، توان رفعتوں کو آپ نے چھو لیا ہے کہ اس سے آگے شاید کوئی مقام ہی نہیں۔نو ن لیگ کا حصہ بننے سے پہلے رانا صاحب شریف خاندان کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرماتے رہے، اگر وہ نقل کر دیا جائے ؟ گندے پوتڑے برسرِ بازار دھوئے ہی نہیں، لہرائے بھی جا رہے ہیں۔پھر سیاستدان شکوہ کرتے ہیں کہ ان کی کردار کشی ہوتی ہے۔اب کون کر رہا ہے کردار کشی؟
پیپلزپارٹی کی قیادت نے کچھ احتیاط برتی ہے؛اگرچہ اس کے بعض چھچھورے بھی کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ محترمہ مریم نواز نے پہلی بار اس طرح کی بحث میں شامل ہونے سے گریز کیا ہے۔ شاید انہیں ادراک ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ ان کا میڈیا سیل بہرحال سرگرم ہے اور پوری طرح سرگرم۔
حالات ایک بڑے بحران کا پتا دیتے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کی تائید سے علامہ طاہر القادری نے ایجی ٹیشن کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کے بقول حکومت کی برطرفی تک جو جاری رہے گی۔ ان کے پرجوش کارکن اگر بروئے کار آئے، دوسری جماعتوں کی محدود سی اعانت بھی اگر حاصل ہو گئی تو حکومت کا کاروبار چلانا سہل نہ رہے گا۔ 13جنوری کو مردِ بزرگ پیر صاحب سیالوی شریف کی قیادت میں مشائخِ عظام میدان میں اترنے والے ہیں۔ معاملہ نازک ہے اور اس قدر نازک کہ ہنگامہ بڑھا تو بہت مہنگا پڑے گا۔ بلوچستان کا بحران اس کے سوا ہے۔
یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کہ وزیرِ اعلیٰ کے مستعفی ہونے کی خبر آئی۔ وقت کم ہے۔ کالم کا حلیہ بگڑ گیا۔ اب کوشش حکومت کی یہ ہوگی کہ ناراض لیگیوں میں سے کسی کو وزیرِ اعلیٰ بنا دیا جائے۔ ایسا بھی یہ سہل نہیں۔ اس لیے کہ ایک نہیں، کئی پارٹیوں پر اس کا انحصار ہے۔ پارٹیاں بھی کیسی کہ اس لنکا میں ہر کوئی باون گز کا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن معاملہ سلجھاتے مگر جمعیت علمائِ اسلام کی صوبائی شاخ ان کی کچھ زیادہ پروا نہیں کرتی۔ پارٹی کے صوبائی لیڈر مولانا محمد واسع نے پیر کے دن پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا، اس سے واضح تھا کہ واپسی مشکل ہے۔ نواب ثناء اللہ زہری اور اچکزئی ہی نہیں، میاں نواز شریف کو بھی انہوں نے رگید ڈالا۔ جمعیت اب بھی شاید اپوزیشن بنچوں پر براجمان رہے۔ وزارتِ اعلیٰ کے لیے ہر چند وہ کوشش کریں گے۔ مولوی صاحبان کے باب میں بھی مسئلہ مگر وہی ہے، جو ثناء اللہ زہری اور اچکزئی کے معاملے میں تھا۔ وہ بھی ریوڑیاں آپس میں ہی بانٹنے والے ہیں۔
جمعیت علمائِ اسلام کے سوا تقریباً سب کی سب پارٹیاں شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ جمعیت کے ارکان پہ دبائو ڈالاجاتا تو وہ بھی زخمی ہوجاتی ؛چنانچہ مولانا فضل الرحمٰن اس سے گریزاں رہے۔یوں بھی کھلاڑیوں کے ذہن میں ترقیاتی فنڈز سے بڑھ کر، آئندہ انتخابات اور مستقبل کی سیاست ہے۔ باہمی انس و الفت کا رشتہ و پیمان نہیں، یہ سیاست ہے اور سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا کہ پلٹ کر پھر سے وفا کا رشتہ استوار کرنے کی تمنا کرے۔
مہرباں ہو کے بلالو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں کہ پھر آبھی نہ سکوں
بلوچستان کی صورتِ حال اس گہرے اخلاقی افلاس کا پتا دیتی ہے، ہمارا حکمران طبقہ جس کا شکار ہے۔میاں صاحب کے پرجوش حلیف مولانا فضل الرحمن تک توجہ دلاتے رہے کہ وزیرِ اعلیٰ اور اچکزئی ارکانِ اسمبلی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ میاں صاحب نے مگر سن کر نہ دیا۔ صوبے کو دو بخیل اور قبضہ گیر دانائوں، محمود خان اچکزئی اور ثناء اللہ زہری کے سپرد کیے رکھا۔ مجبوری کے سوا جو کسی کو مری ہوئی مکھی دینے کے روادار بھی نہیں تھے۔ اچکزئی کا خاندان تو کسی گہرے نفسیاتی مرض کا شکار ہے۔ ایک ممتاز فوجی افسر نے، جس کی شائستگی ضرب المثل ہے، یہ بتایا: محمود خان کے بھائی ایاز اچکزئی سے کسی تقریب میں ملاقات ہوئی تو وہ طنز اور تحقیر پہ اتر آئے۔ کہا : میں خاموش رہا۔ اس کے باوجود باز نہ آئے۔ان لوگوں کا اندازِ فکر یہ لگتاہے کہ نواز شریف کو چکمہ دے کر اقتدار اچک لینے میں ہم کامیاب رہے۔ لازم ہے کہ اپنے احساسِ کمتری کو ہم آسودہ رکھیں۔ ایک بار آنجناب کے ساتھیوں نے کوئٹہ کے ایک سیمینار میں ناچیز پہ مہربانی فرمانے کی کوشش کی تو عرض کیا : اپنے کام سے کام رکھیے۔ اس وقت آپ لوگ کہاں تھے، جب تین برس تک قومی بجٹ میں بلوچستان کا حصہ بڑھانے کے لیے میں چیختا رہا۔
ذہنی مریض ! اقتدار کو امانت اور ذمہ داری نہیں بلکہ وہ مالِ غنیمت سمجھتے ہیں۔ لوٹ مار پنجاب میں بھی ہوتی ہے۔ سندھ میں ترقیاتی رقوم کا ایک تہائی بھی صرف نہیں ہوتا۔ بلوچستان بھی نری اندھیر نگری ہے۔ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ کراچی سے گرفتار ہونے والے ثناء اللہ زہری کے پرنسپل سیکرٹری وزیرِ اعلیٰ کے ایما پر لوٹ مار کیا کرتے تو ممکن ہے کہ آخر کار موصوف کو جیل کا منہ بھی دیکھنا پڑے۔ تفتیش آگے بڑھی تو کچھ اور لوگوں کا بھی یہی انجام ہو سکتاہے۔ دوسروں کی کردار کشی کرنے والے شریف خاندان نے ایوانِ اقتدار میں کیا کیا ہیرے جمع کیے۔
ممکن ہے کہ بلوچستان کا بحران صوبے تک محدود نہ رہے۔ اب اس دعوے میں صداقت کا کچھ عنصر دکھائی دیتا ہے کہ ایک کے بعد دوسری صوبائی اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے۔جیسا کہ طے پایا ہے،ایم ایم اے کے عہدیدار طے ہونے کے بعد جمعیت مرکزی حکومت اور جماعتِ اسلامی صوبائی حکومت سے الگ ہو جائے گی۔پختون خوا اسمبلی توڑنے کے لیے جواز میسر آ جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو سینیٹ کے الیکشن کا کیا ہوگا؟ مخالفین اس پہ بغلیں بجائیں گے مگر جمہوریت کے لیے یہ نیک فال نہ ہوگی۔ سینیٹ کا الیکشن لازماً منعقد ہونا چاہیے۔ اس کے بعد صاف ستھرے عام انتخابات۔ اسی پر سیاسی استحکام کا انحصار ہے۔ میاں محمد نواز شریف کو مگر اپنی ذاتِ گرامی کے سوا کسی چیز کی پروا نہیں۔ وہ خود ترسی کا ایسا نمونہ ہو گئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایک ہی بات مسلسل دہرا رہے ہیں کہ اگر وہ نہیں ہوں گے تو سیاسی اور معاشی طور پر ملک تباہ ہو جائے گا۔ سارا وقت روتے پیٹتے رہتے ہیں۔ جمہوری معاشروں میں حکمران معزول ہوتے ہیں۔ انہیں مستعفی ہونے پر مجبورکیا جا تاہے۔انسانی تاریخ میں ایسا سیاپا کب کسی نے کیا ہوگا۔
امریکی دبائو شدید ہے۔ملک کے لیے آئندہ ایک برس فیصلہ کن ہوگا کہ واشنگٹن سے مصالحت ہو یا خارجہ پالیسی کے نئے خطوط طے کیے جائیں۔ سیاست دان مگر وحشت میں مبتلا ہیں اور اس بری طرح کہ نوشتۂ دیوار پڑھنے سے بھی قاصر ہو گئے۔ اللہ ان پہ رحم کرے، کوئی نیا گل نہ کھلا بیٹھیں۔