محض اقتدار کی جنگ نہیں، یہ زر گری کا کاروبار بھی ہے، جس میں سب کچھ دائو پہ لگ جایا کرتا ہے۔ میرؔ صاحب نے یہ کہا تھا
ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں
نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا
کسے خبر ہے کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ صدارت تو دور کی بات ہے، ابرہام لنکن دو بار سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے ٹکٹ سے محروم رہے تھے۔ پھر وہ صدر بنے اور امریکی تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔ امریکی اپنے اجداد کی اخلاقی عظمت کا گیت گاتے ہیں تو سب سے بڑھ کر لنکن مراد ہوتے ہیں۔ اسی زمانے کے برصغیر میں ایک عظیم شخصیت نے جنم لیا۔ اس کی تقدیر میں شہادت لکھی تھی اور مسلم برصغیر کے لیے محرومی۔ اس آدمی کا نام ٹیپو سلطان تھا۔ اقبالؔ نے کہا تھا کہ ایک بہترین مسلمان حکمران کی تمام اعلیٰ اخلاقی صفات اس کی ذات میں جمع ہو گئی تھیں۔
اخلاقی طور پر برصغیر زوال کا شکار تھا۔ فقط انگریزوں ہی سے مقابلہ درپیش نہ تھا۔ آخری جنگ میں مرہٹوں کے علاوہ نظام حیدر آباد کی افواج بھی اس سے نبرد آزما تھیں۔ مسلم برصغیر خود شکنی پہ تلا تھا۔ تاریخ کا سبق یہ بھی ہے کہ اقلیت تا دیر اکثریت پہ حکومت نہیں کر سکتی۔ اقبالؔ نے یہ کہا تھا:
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ ایک عارضی شے تھی
نہیں دنیاکے آئین مسلّم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی‘ کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
شاید وہ آخری بادشاہ تھا، جو سائنسی اندازِ فکر کا حامل بھی تھا۔ برصغیر کا پہلا اور آخری حاکم جس نے سوشل سکیورٹی سسٹم نافذ کرنے کی کوشش کی۔ جنگ اور اس کی تباہیوں میں بھی خلقِ خدا کی بھلائی سے جو کبھی غافل نہ ہوتا۔ سڑکیں تعمیر ہوتی رہتیں، نہروں کی کھدائی کا عمل جاری رہتا اور ضلعی عدالتوں کے ذریعے بے روزگاروں کے لیے بلا سود قرضوں کا اجرا بھی۔
آج کا پاکستانی معاشرہ بھی خود شکنی کا شکار ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ زوال کا عمل کہاں جا کر تھمے گا۔ ملک میں ایک بھی ایسی جماعت اور ایک بھی ایسا لیڈر موجود نہیں، جس کی بصیرت اور دیانت پر بھروسہ کیا جا سکے۔ عمران خاں دیانت دار مانا جاتا ہے۔ نوجوان نسل کا اعتماد اسے حاصل ہے مگر وہ سیاست کے تقاضوں سے آشنا ہے اور نہ کاروبارِ حکومت کے مطالبات سے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کو اہم ترین منصب دے کر ایک بار پھر زرداری صاحب نے پیغام دیا ہے کہ اقتدار ان کے نزدیک من مانی کا دوسرا نام ہے‘ اپنی انا کوگنے کا رس پلانے کا۔ میاں محمد نواز شریف ہر روز واضح کرتے ہیں کہ اپنی ذات کو وہ اپنی قوم سے کہیں زیادہ افضل سمجھتے ہیں۔ اپنی ہی حکومت کو وہ ناکارہ قرار دیتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ایوانِ اقتدار میں اگر ذاتی طور پر وہ موجود نہ ہوں تو اس قوم کا کوئی حال ہے اور نہ مستقبل۔ اس کی تقدیر ان کے ساتھ جڑی ہے۔ گویا اگر وہ دنیا سے چلے جائیں کہ سبھی کو جانا ہے تو ملک کے مقدر کا ستارہ ڈوب جائے گا۔
نواز شریف اقتدار میں واپس نہیں آ سکتے؛ الّا یہ کہ سپریم کورٹ اپنا ہی فیصلہ بدل ڈالے۔ اپنے بھائی کو انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ شہباز شریف اور ان کی اولاد ذہنی طور پر اقتدار کے لیے تیار تھے۔ ان کا طرزِ احساس یہ تھا کہ مستقل طور پر نواز شریف سبکدوشی اختیا رکر لیں۔ فوج سے مفاہمت کر لی جائے اور وہ کوسِ لمن الملک بجایا کریں۔ حمزہ شہباز نے کہا تھا: تایا جان کو ہم سمجھا لیں گے۔ اب ہر بے گھر شہری سے مکان کا وعدہ کر کے وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اگر دو تہائی اکثریت مل جائے تو آئین میں ترمیم کر کے چوتھی بار وہ وزیراعظم بنیں گے۔ بھائی کے باب میں اگر وہ یکسو ہوتے تو اپنے اعلان کا بار بار اعادہ کرتے۔ اپنی یکتائی پہ انہیں اصرار ہے۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
شاہد خاقان عباسی ہجوم تو کیا، تنہائی میں بھی خوشامد کے خوگر نہ تھے۔ اب ڈنکے کی چوٹ پہ کہا کہ خود کو نہیں، نواز شریف کو وہ وزیراعظم سمجھتے ہیں... آرزو ان کی اب پوشیدہ نہیں کہ (ن) لیگ اگر ظفریاب ہو سکے تو پانچ سال کے لیے انہی کو وزیراعظم بنا دیا جائے۔ کہنہ سال راجہ ظفر الحق بھی خواہشمند ہیں۔ خاقان خاندان سے عداوت چلی آتی ہے۔ 1985ء کے انتخابات میں وزیراعظم کے والد خاقان عباسی نے جنرل محمد ضیاء الحق کے وزیرِ اطلاعات کو شکستِ فاش سے دوچار کیا تھا۔ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد، جنرل پرویز مشرف نے جس پہلے آدمی کو شرکتِ اقتدار کی پیشکش کی، وہ راجہ ظفر الحق تھے، مگر وہ ہمت جمع نہ کر سکے۔ یہ خواب ایک بار دیکھ لیا جائے تو عمر بھر کے لیے قلب میں جاں گزین رہتا ہے۔
متاعِ دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی
اقتدار سے بڑا کوئی نشہ نہیں۔ جہانگیر نے اکبر اور شاہجہاں نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اورنگزیب عالمگیر ایسے زاہد و متقی نے اپنے بھائیوں کو تہہِ تیغ کیا تھا۔
بغاوت کا بوتا شہباز شریف میں نہیں۔ وزارتِ اعلیٰ انہیں خیرات میں ملی تھی اور وزارتِ عظمیٰ بھی خیرات ہی میں مل سکتی تھی۔ بیک وقت بڑا بھائی، اسٹیبلشمنٹ اور عدالتِ عظمیٰ‘ اگر ان پہ مہربان ہو جائیں۔ دس ہزار روپے کے عوض ایک پیر صاحب سے وزیراعظم بننے کے لیے تعویز انہوں نے ضرور لیا تھا۔ اس سے زیادہ کی سکت وہ نہیں رکھتے۔ پارٹی میں حمایت ایسی نہیں کہ اپنے بل پہ کرتب دکھا سکیں۔ زیادہ سے زیادہ چوہدری نثار علی خان یا اب خواجہ سعد رفیق۔ نواز شریف سے کھلے عام اختلاف کر کے چوہدری صاحب اپنا کردار محدود کر چکے۔
خواجہ سعد رفیق سمجھ میں نہیں آئے۔ ایک باخبر سے پوچھا تو وہ ہنسے اور کچھ تفصیلات بیان کیں۔ کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق ساٹھ ہزار کنال پر مشتمل ایل ڈی اے سٹی بنیادی طور پر خواجہ صاحب کا خواب ہے۔ حمزہ شہباز اور ان کے گرامی قدر والد اس منصوبے کے خوابیدہ شریکِ کار ہیں۔ ہر چند بائیس ہزار فائلیں فروخت کی جا چکیں۔ گیارہ ہزار مزید بیچنا ہیں لیکن ابھی ایک تہائی زمین ہی خریدی جا سکی ہے۔ نیب تحقیقات کرے تو حقائق واضح ہوں۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو خواجہ صاحب متحمل نہیں کہ شہباز شریف اقتدار سے دستبردار ہو سکیں۔ دوسری طرف محترمہ مریم نواز ہیں۔ گورنر سندھ زبیر عمر کے علاوہ دانیال عزیز اور طلال چوہدری جن کے بازوئے شمشیر زن ہیں۔ سب سے بڑھ کر ان کے والدِ گرامی۔ (ن) لیگ میں قرعۂ فال آخر کس کے نام پڑتا ہے، یہ اللہ ہی جانتا ہے۔اسے اقتدار ملتا بھی ہے یا عمران خان لے اڑتے ہیں؟ مذکورہ بالا اطلاعات درست ہیں تو محض اقتدار کی جنگ نہیں، یہ زر گری کا کاروبار بھی ہے، جس میں سب کچھ دائو پہ لگ جایا کرتا ہے۔ میرؔ صاحب نے یہ کہا تھا
ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں
نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا