اس امت کو یہ بتایا گیا تھا کہ اخلاص کے ساتھ غوروفکر اور حکمت و دانش ہی ظفرمندی کی واحد کلید ہے‘ عصبیت ‘شخصیت پرستی ‘ جذبات اور جنون کو اس نے اپنا مذہب بنا لیا ۔آسمان کو بھول گئی اور خاک آلود ہوئی۔
الیکشن دراصل الیکشن سے پہلے لڑا جاتا ہے۔ پوری احتیاط سے امیدواروں کا چنائو، جو ظفر مند ہو سکتے ہوں۔ میسر لوگوں میں سے بہترین۔ 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور میں عمران خان کے تاریخی جلسۂ عام کے بعد خفیہ ایجنسیوں نے سروے کیے تو معلوم ہوا کہ 90 سیٹیں وہ جیت سکتے ہیں۔ چھ ماہ تک تحریکِ انصاف مقبول ترین پارٹی تھی۔ پندرہ بیس سابق اراکینِ اسمبلی اور سینیٹرز پر مشتمل جہانگیر ترین والا گروپ انہی دنوں تحریکِ انصاف میں شامل ہوا۔ اس سے پہلے عمران خان کے ساتھ وہ ایک سمجھوتے کے آرزومند تھے۔ ہمایوں اختر اور حامد ناصر چٹھہ کی قیادت میں قاف لیگ کے ہم خیال گروپ کا منصوبہ بھی یہی تھا مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
انہی دنوں ہارون خواجہ اور ان کے دوست بھی آمادہ ہو گئے۔ وہ غیر معمولی ریاضت اور ترتیب کے آدمی ہیں ۔ فیصلہ کر چکے تو موڈیز انٹرنیشنل اور بعض دوسرے اداروں کی مدد سے انہوں نے خود بھی ایک سروے کیا۔ پھر نہایت بشاشت کے ساتھ بتایا کہ عمران خان اگر کچھ بھی نہ کریں تو 90 سیٹیں جیت لیں گے ۔ یہ الگ بات کہ سبوتاژ کر کے انہیں پارٹی سے الگ کر دیا گیا۔
طوفان پھیلتا جا رہا تھا کہ ایک تاریخی غلطی کا خان نے ارتکاب کیا ۔ پارٹی الیکشن کا اچانک اعلان۔ باقی تاریخ ہے۔ جہاندیدہ لوگوں سے مشورہ کرنے کی بجائے ، جو ہر کامیاب لیڈر کا شعار ہوتا ہے، ارد گرد کے ایسے لوگوں سے وہ پوچھتے ہیں، جن کی نظر میں خان صاحب قائدِ اعظم ہیں۔ 2014ء کے دھرنے میں یہی ہوا تھا۔ ابھی اعلان نہ ہوا تھا کہ میں ان کے گھر پہنچا ۔ محمود شام اور کچھ دوسرے لوگوں کی موجودگی میں عرض کیا کہ زمانہ بدل چکا۔ کرکٹ میچ بھی لوگ اب ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔ پانچ لاکھ مظاہرین جمع کرنا مشکل نہیں ، ناممکن ہو گا۔ بات تو خان صاحب نے تحمل سے سنی مگر ہمیشہ کی طرح یہ کہا : میں تمہیں کر کے دکھا دوں گا۔ مایوس میں وہاں سے اٹھا اور بوریت کے شدید احساس کو دور کرنے کے لیے، جس نے اس بحث میں جنم لیا تھا، انعام اکبر کی گاڑی میں لاہور روانہ ہو گیا۔ رتّی برابر شبہ نہ تھا کہ یہ کوشش ناکام رہے گی۔ تجربات سے ہم سیکھتے ہیں اور جو نہیں سیکھتے ، وہ ناکام اور نامراد رہتے ہیں۔ قدرت اپنے اصول اور زندگی اپنے تیور نہیں بدلتی ۔ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی، آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔ نواز شریف کی حکومت کو ابھی ساڑھے چودہ ماہ ہی گزرے تھے۔ ابھی خلقِ خدا مہلت دینے پر انہیں آمادہ تھی لیکن جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا، بعض نے انہیں بھڑکایا تھا۔
14 اگست 2014ء کو پتّے کا آپریشن کرانے کے لیے میں سی ایم ایچ راولپنڈی میں داخل تھا ۔ عمران خاں اور طاہرالقادری کے کارواں جب لاہور سے روانہ ہوئے۔ ہسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے، ایک ایسے ذریعے سے ، جی ایچ کیو کے بارے میں جس کی اطلاع کبھی غلط نہیں ہوتی، صرف ایک سوال کیا: کیا اس مہم کو پاکستان آرمی کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف کی تائید حاصل ہے؟ دو ٹوک اور واضح جواب یہ تھا: بالکل نہیں ، قطعی نہیں۔
لاہور سے روانہ ہونے والے مظاہرین کی تعداد مایوس کن تھی۔ دریائے راوی تک پہنچنے میں آٹھ گھنٹے انہوں نے بتا دیے کہ ہجوم بڑھ جائے۔ ناکامی اظہر من الشمس تھی۔ انگریزی میں انہیں provocateurs یعنی اکسا کر ترغیب دلانے والے کہا جاتا ہے ، جنہوں نے کپتان کو کامیابی کا یقین دلایا تھا ۔ کبھی میں پوری تفصیل بھی لکھ دوں گا۔ اس گروہ کے لیڈر سے جب یہ کہا گیا کہ جنرل راحیل اس کھیل میں شامل نہیں تو اس کا جواب یہ تھا: ابھی وہ نئے ہیں۔ سامنے کی بات یہ تھی کہ کپتانی سے نہیں ، عمر بھر کی ریاضت سے لیفٹیننٹ جنرل کا عہدہ جیتنے کے بعد وہ پاکستانی فوج کے سربراہ بنے تھے۔ ناچیز کے تبصروں پہ عمران خان ناراض تھے اور چھ سات ماہ ناراض رہے؛ تا آنکہ غلطی کے نتائج بھگت لیے۔ ہر تین چار برس کے بعد تین چار ماہ کے لیے وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔
2013ء میں بھی، ٹکٹوں کی تقسیم کے ہنگام جب وہ کاسہ لیسوں کے نرغے میں تھے۔ نام نہاد پارلیمانی بورڈ کے اجلاس پہ پہرہ تھا لیکن میں داخل ہو گیا۔ ششدر کر دینے والا منظر تھا۔ جب کوئی لیڈر کسی ناقص کا نام تجویز کرتا تو دوسرے خاموش رہتے۔ چند منٹ میں بات واضح ہو گئی؛ چنانچہ اظہار بھی کر ڈالا۔ جاوید ہاشمی اس پر لپکتے ہوئے آئے اور کہا: تم گڑ بڑ کر رہے ہو۔ گڑ بڑ میں نہیں ، وہ کر رہے تھے۔ ان میں ایسے بھی تھے، ووٹ خرید کر جو پارٹی کے عہدے دار بنے تھے اور اب تک خان صاحب کے دائیں بائیں دیکھے جا سکتے ہیں۔ جسٹس وجیہ الدین کی رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے پارٹی الیکشن اگر کالعدم کر دیے جاتے۔ وقتی طور پر نامزدگیوں سے کام چلایا جاتا تو نتیجہ شاید مختلف ہوتا لیکن ضد، لیکن نرگسیت، چنانچہ جعلی اعتماد۔
پے در پے تحریکِ انصاف نے ٹھوکریں کھائی ہیں اور بہت کم سیکھا ہے۔ اب بھی شعار وہی ہے۔ خلوت میں اتفاق کرتے ہیں لیکن پھر ان میں سے کوئی ہاتھ جھٹک کر کہتا ہے: آپ خان صاحب کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں ۔ روزِ اوّل کی طرح ، خان کا المیہ وہی ہے۔ خود سیاست کی حرکیات کو وہ سمجھتا نہیں اور مشیر اس کے ناقص ہیں۔ ماضی میں بارہا قیمت اس نے چکائی ہے۔ چلن یہی رہا تو آئندہ بھی چکائے گا۔ شنید یہ ہے کہ اب کی بار پارٹی سے باہر کے کچھ لوگ ٹکٹوں پر نظرِ ثانی کریں گے۔
تین برس پہلے مراد سعید پر امتحانات میں جعل سازی کا الزام لگا۔ بدھ کی رات پتا چلا کہ عدالت نے باعزت اسے بری کر دیا ہے۔ خوشی ہوئی لیکن پھر خود اس کے اپنے ٹویٹ نے حیرت زدہ کر دیا۔ یارب ، یہ لوگ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ اس میں کہا گیا تھا ''قوم کو ایک اور certified صادق اور امین مبارک ہو‘‘۔ فوراً ہی اس کی خدمت میں عرض کیا: حضور! پوری تاریخ میں صادق اور امین کا لقب صرف رسولِ اکرمؐ کے لیے برتا گیا ، پوری تاریخ میں جناب!
وہ تو خیر خاموش رہا اور پارٹی کے دوسرے لیڈر بھی لیکن جوش و جنون کے مارے کارکنوں نے سمجھانا شروع کیا۔ میں کیا سمجھتا۔ اس لیے کہ سچائی تو سورج کی طرح سامنے چمک رہی تھی۔ پوری انسانی تاریخ میں آپؐ کے سوا کبھی کسی کو صادق اور امین نہ کہا گیا۔ پہلی بار کوہِ صفا کے مجمع میں مکّہ کے سب مکینوں نے اجتماعی طور پر، جب آپؐ نے نبوت کی خبر دی۔ یہ الگ بات کہ مزاجوں کی سرکشی نے روشنی کا راستہ روک دیا۔ پھر بھی امانتیں انہی کے پاس رکھی جاتیں۔ مکمل بھروسہ انہی پر تھا۔
23 برس میں تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ سکھانے سے لوگ سیکھتے ہیں ، خود بخود نہیں۔ اگر شخصیت پرستی اور جنون کا درس دیا جائے تو سیکھنے سمجھنے کا کیا سوال۔ کسی ایک پر کیا موقوف، تمام سیاسی پارٹیوں بلکہ مذہبی جماعتوں کا حال بھی یہی ہے۔ تعلیم نہیں، جذبات کا استحصال۔ بھٹکتے پھرتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسری ٹھوکر کھاتے ہیں۔ دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھلتے جاتے ہیں لیکن اصلاح پہ آمادہ نہیں۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ ان سب گروہوں کی تقدیر میں موت لکھی ہے۔ اس امت کو یہ بتایا گیا تھا کہ اخلاص کے ساتھ غوروفکر اور حکمت و دانش ہی ظفرمندی کی واحد کلید ہے‘ عصبیت ‘شخصیت پرستی ‘ جذبات اور جنون کو اس نے اپنا مذہب بنا لیا۔ آسمان کو بھول گئی اور خاک آلود ہوئی۔