سٹیفن ہاکنگ کی موت پہ جو مباحثہ برپا ہوا، ایک بار پھر اس نے آشکار کیا کہ علم کی کائنات میں، ہیجان کے مارے معاشروں کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ بھی نہیں !
قرآنِ کریم میں اللہ کے بہترین بندوں کی تعریف یہ ہے : اٹھتے بیٹھتے اور پہلوئوں کے بل لیٹے، وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی تخلیق میں غور کیا کرتے ہیں۔ چند اوّلین عشروں کے بعد قرآنِ کریم پہ مسلمانوں کا یقین سرسری اور سطحی ہونے لگا ورنہ بہت سی چیزیں شاید مغرب سے پہلے وہ دریافت کر لیتے۔ ایک مغربی محقق درویش کے پاس پہنچا کہ کیا آسمانی کتابوں سے تخلیقِ کائنات کے وقت کا تعین ہو سکتا ہے ؟ انجیل اور ویدانت وغیرہ کے مطالعے سے وہ مایوس تھا۔ فقیر نے کہا، میں قرآنِ کریم کی چند آیات آپ کو سناتا ہوں۔ ''اولم یر الذین کفرو ان السماوات و الارض کانتا رتقا ففتقناھما‘‘ میرا انکار کرنے والوں نے کیا دیکھا نہیں کہ زمین و آسمان باہم جڑے تھے، پھر ہم نے پھاڑ کر انہیں الگ کر دیا۔ پھر اس کے لیے ترجمہ کیا۔ It was all one big mass, We tore it apart ۔ فرطِ جذبات سے وہ چلایا: بگ بینگ، O God! this is Big Bang۔
علم کی عظمت و اہمیت سے بے خبر معاشروں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ غور و فکر کی صلاحیت وہ کھو بیٹھتے ہیں۔ سچائی سے خوفزدہ، ان کی ساری توانائی خلطِ مبحث اور خود شکنی میں لٹتی ہے۔ زیاں بہت ہے، اس کائنات میں زیاں بہت ہے۔ بقولِ اقبالؔ:
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد؟
نادرِ روزگار سائنسدان سٹیفن ہاکنگ اپنی زندگی ہی میں ایک لافانی لیجنڈ بن چکے تھے۔ فلکیات اور طبیعات میں جس نے پیہم ریاضت کی اور سراغ لگایا کہ بلیک ہول میں ستارے فقط فنا نہیں ہوتے، جنم بھی لیتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے : ستاروں کے مقامات کی قسم۔ اگر تم سمجھ سکو تو یہ بڑی قسم ہے۔ قرآن مجید میں تو اور بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ مسلمان سائنسدان اگر اس پر غور کرتے تو ان کی آنکھیں کھل جاتیں۔ مگر وہ جو اقبالؔ نے کہا تھا:
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
قرآنِ کریم سائنس کی کتاب نہیں مگر کتابِ تخلیق تو ہے۔ نگاہ ہو تو آرزو مند پہ موجودات کے ربط اور منطق کو آشکار کر دیتاہے۔ مثلاً یہ کہ ''زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں، جس کا رزق اللہ کے ذمّے نہ ہو‘‘۔ ستاسی لاکھ قسم کی مخلوقات کے لیے رزق کا اہتمام۔ کیا یہ پروردگارِ عالم نے کیا یا سائنسدانوں اور حکمرانوں نے۔ فرمایا : اس وقت سے ہم تمہیں جانتے ہیں جب ہم نے تمہیں زمین کے دامن میں رکھا۔ یہ 80 کروڑ سال پر پھیلی ہوئی اس داستان کا آغاز ہے جو حضرت آدمؑ پہ منتج ہوئی۔ لگ بھگ چالیس ہزار برس پہلے جن کی اولاد نے کرّ ۂ خاک پہ خیرہ کن تنوع میں حیات کا آغاز کیا‘ جو آج بھی جاری ہے اور جاری رہے گی، تا آنکہ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑا دئیے جائیں۔
سٹیفن ہاکنگ کو ادراک تھا۔ اس نے کہا تھا کہ لگ بھگ سو برس کے بعد زمین پر زندگی کا وجود مٹ جانے والا ہے۔ کئی اور سچائیوں کا بھی سراغ لگایا۔ اس کا مطلب مگر یہ کیسے ہو گیا کہ اس کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات حتمی حقیقت تھی ؟ کم از کم تین بار اس کے دعوے نا درست ثابت ہوئے۔ مثلاً 1975ء میں مشہور سائنسدان کپ تھورن کے ساتھ اس نے شرط لگائی کہ فلاں مقام بلیک ہول میں تبدیل نہیں ہو گا۔ تھورن کا کہنا تھا، ضرور ہو گا۔ 1990ء میں ہاکنگ کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔ 1997ء میں جان پریسکیل کے ساتھ شرط باندھی کہ Gravitational Collapse کی وجہ سے ماضی کی سب معلومات ضائع ہو جائیں گی۔ 2004ء میں حریف پریسکیل جیت گیا۔
ہیجان کے اس ماحول میں ایک جملے نے آگ بھڑکا دی ہے۔ ''مغرب سٹیفن ہاکنگ کے عہد اور ہم مولوی خادم حسین رضوی کے زمانے میں جی رہے ہیں۔‘‘ اہلِ ایمان کی غیرت جاگ اٹھی۔ بعض نے مغرب کی وحشت انگیز ناکامیوں کا ذکر کیا۔ اس کا برباد خاندانی نظام، مادہ پرستی، چین، روس، دو عالمگیر جنگوں اور اہلِ یورپ کے ہاتھوں آسٹریلیا اور امریکہ میں بیس پچیس کروڑ انسانوں کی ہلاکت۔ ایک آدھ زیادہ پرجوش مولوی نے، ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ بالکل ایک عام ہی سا سائنسدان تھا، گویا کوئی مستری سا۔ معذوری کی وجہ سے اس پہ ترس کھایا گیا؛ چنانچہ مقبولیت اس کی بڑھ گئی۔ ایک فلسفہ یہ تراشا گیا کہ انکارِ خدا پہ دنیا بھر کے ملحد اس کے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔ یہودیوں نے بھی اس کی پشت پناہی شروع کر دی۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ سائنس میں فنکارانہ عظمت کے علاوہ اس کی خیرہ کن پذیرائی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اذیت ناک معذوری کے باوجود عزم برقرار رہا۔ سائنسدانوں میں ممکن ہے، ایسا اور کوئی نہ گزرا ہو لیکن زندگی کے ہر میدان میں ولولہ مند موجود رہے ہیں۔ اپنے آپ کو تسلیم کرانے کی جبلی آرزو میں کارنامے انجام دینے کی تمنا ازل سے آدمی کے ساتھ ہے اور ابد تک رہے گی۔ جنگی تاریخ میں خالدؓ بن ولید، چنگیز خان، تیمور اور نپولین ایسے لوگ اس کی مثالیں ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
جوشِ کردار سے شمشیرِ سکندر کا طلوع
کوہِ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز
کتنا ہی صدمہ پہنچے اور کتنی ہی اذیت ہو، واقعہ یہ ہے کہ امانتِ عقل و علم پہلے عرب سے عجم میں منتقل ہوئی اور پھر عجم سے مغرب میں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا : علم کسی ستارے پر بھی ہو گا تو خدا کی قسم کوئی عجمی اسے اتار لائے گا۔ قرآنِ کریم قرار دیتا ہے کہ درجات علم کے ساتھ ہیں۔ بنیادی طور پر تو اس کا مفہوم یہی ہے کہ زندگی اور کائنات کے بھید اسی پر آشکار ہوں گے، کامل انہماک اور سائنسی طرزِ عمل کے ساتھ جو غور و فکر کرے گا۔ ایک جہت شاید یہ بھی ہے کہ برتری انہی اقوام کو حاصل ہو گی، جو علم و معرفت کی رسیا ہوں گی۔ ایک ہزار برس ہوتے ہیں، کس قلق کے ساتھ مسلم معاشرے کو زوال پذیر پا کر اپنے عہد کے سب سے بڑے مفکر شیخِ ہجویرؒ نے کہا تھا: تمام علوم میں سے اتنا تو حاصل کر لو کہ خدا کو پہچان سکو۔ اللہ کے ابدی قوانین میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دانش و حکمت پہ انحصار کرنے والوں کو عطا کرتا ہے۔ جذبات اور تعصب کے ماروں کو نہیں۔
پینتیس برس ہوتے ہیں، جنرل محمد ضیاء الحق نے سائنسدانوں کی ایک ٹیم سے شہد کے بارے میں قرآنِ کریم کی اس آیت پر غور کرنے کے لیے کہا : اس میں انسانوں کے لیے شفا ہے۔ کچھ دن میں وہ ایک چارٹ بنا کر لے آئے کہ اس میں فلاں فلاں وٹامن اور معدنیات پائی جاتی ہیں۔ جنرل ہنسا اور کہا: یہ سب تو پہلے سے معلوم تھا۔ کھانے پینے کی کسی ایک چیز کا اللہ کی کتاب میں اگر ذکر ہے تو کیا یہ غیر معمولی بات نہیں۔ کیا اس پہ غور نہ کرنا چاہئے کہ ختم المرسلین ؐ ہر روز شہد کا ایک چمچ کیوں کھاتے تھے؟ کیا آپؐ کے اس قول پہ مسلم سائنسدانوں کو غور نہ کرنا چاہئے تھا کہ کائنات سے زمین کا تناسب وہی ہے جو ایک انگشتری کا جنگل سے۔
سٹیفن ہاکنگ کی موت پہ جو مباحثہ برپا ہوا، ایک بار پھر اس نے آشکار کیا کہ علم کی کائنات میں، ہیجان کے مارے معاشروں کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ بھی نہیں!