اقبالؔ نے کہا تھا: اس کی مراد کبھی بر نہ آئے گی‘ جس کے سینے میں دل تو ہے مگر کوئی محبوب نہیں۔
بھائی پہ جب بہت پیار آئیتو نجی محفلوں میں شہبازشریف کبھی کبھی کہتے ہیں: سیاست کار نہیں‘ 35 سال تجربے کے ساتھ‘ میاں نوازشریف ایک سیاسی مدّبر ہیں۔
مدّبر کا حال یہ ہے کہ گاہے اس کی سیاسی تدبیر چوبیس گھنٹے بھی برقرار نہیں رہتی۔ اس کے ساتھیوں کا عالم بھی یہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں سیاسی شعبدہ بازی کا جوسلسلہ شروع ہوا تھا‘ زرداری اور نوازشریف خاندان تک آتے آتے‘ وہ کس قدر سستا اور کیسا مضحکہ خیز ہوگیا ہے۔
میرِ سپاہِ ناسزا لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیرِ نیم کش‘ جس کا نہ ہو کوئی ہدف
بھٹو ایک پڑھے لکھے آدمی تھے‘ تردماغ۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی تھی۔ کتاب پڑھتے اور اظہار پہ قدرت رکھتے تھے۔ جوانی ہی میں کاروبارِ حکومت کی اعلیٰ ترین سطح سے آشنا ہوگئے۔ عالمی اداروں تک رسائی ہوگئی۔ قومی اور بین الاقوامی سیاست کی حرکیات کو سمجھ لیا۔ بین الاقوامی اور قومی قیادت کی کمزوریوں کو جان گئے۔ مگر آغاز کی طرح‘ ان کا انجام بھی بے ثمر تھا۔ خود کچھ حاصل کر سکے اور نہ اپنی قوم کے لئے کوئی لافانی کارنامہ انجام دے سکے۔ آئین ضرور بنایا اور ایٹمی پروگرام کی بنا رکھی۔ اس آئین پہ لیکن خود عمل کیا اور نہ ان کے بعد آنے والوں نے۔
اسکندر مرزا اور فوراً بعد فیلڈ مارشل ایوب خاں کی مدّاحی سے آغاز کیا اور آخرکار خود اپنے آپ پہ فدا ہوگئے۔ اس نادرِ روزگار نثرنگار ابوالکلام آزاد کے بارے میں کسی نے کہا تھا: ان کا بس نہیں چلتا‘ ورنہ اپنی ہی تصویر کو سجدہ کریں۔ بھٹو کا حال ان سے بھی بدتر تھا کہ ابوالکلام میں شائستگی بہرحال تھی۔
1977ء کے الیکشن کا مرحلہ آیا تو اخبارات کو ان کی ایک تصویر جاری کی گئی۔ خریداری کا کاروبار شریف خاندان نے شروع کیا۔ بھٹو کے عہد میں خوف کا ہتھیار برتا جاتا۔ خوبصورت آدمی تھے‘ ان کی ایک خوبصورت تصویر اخبارات کے لئے جاری کی گئی کہ آٹھ انچ‘ تین کالمی چھاپی جائے۔ ''فخر ایشیا‘ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بلامقابلہ جو لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے۔‘‘ ان کے حریف جماعت اسلامی کے مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کرلیا گیا تھا۔ بھٹو کے چاروں وزراء اعلیٰ نے بھی ان کی پیروی کی اور الیکشن لڑے بغیر‘ اسمبلیوں کے ممبر بن گئے۔ باقی تاریخ ہے۔
میاں محمد نوازشریف کے آئیڈیل بھی ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ انہی کی طرح آمروں کی گود میں پرورش پائی اور انہی کی طرح نرگسیت کے مریض۔ بدھ کو چیف جسٹس کے بارے میں جو جملہ انہوں نے ارشاد کیا‘ ان کے اندازِ فکر کا بہترین غماز ہے‘ چیف جسٹس کو وہ نہیں کرنا چاہئے‘ جو وہ کہہ رہے ہیں‘ بلکہ وہ کرنا چاہئے‘ جو میں نے کہا۔
عدالت سے نکلے تو ارشاد کیا کہ واجد ضیاء کی گواہی کے بعد مکمل طور پر وہ معصوم ثابت ہوگئے۔ اس نے کہہ دیا کہ کسی دستاویز سے ایون فیلڈز کے فلیٹ نوازشریف کی ملکیت ثابت نہیں ہوتے۔ حضور! انہوں نے پہلے کب کہا تھا؟ اوّل دن سے آشکار تھا کہ یہ جائیداد محترمہ مریم نواز کے نام پہ ہے۔ وہی مریم نواز‘ جنہوں نے کہا تھا کہ انگلینڈ تو کیا‘ پاکستان میں بھی ان کی کوئی جائیداد نہیں۔ وہ اپنے والد کے ساتھ رہتی ہیں۔ محترمہ کا کوئی کاروبار ہے نہ کارخانہ۔ بعد میں پتا چلا کہ تھوڑی سی زرعی زمین ہے۔ اتنی آمدن اس سے کیونکر حاصل ہوگئی کہ اربوں روپے کے قیمتی مکان خرید لیے۔ ان کی آمدن کا واحد قابلِ ذکر ذریعہ وہ رقوم ہیں‘ جو بیٹوں نے باپ کو عطیہ کیں۔ والد گرامی نے صاحبزادی کو سونپ دیں اور صاحبزادی نے بعدازاں والد صاحب کو واپس کردیں۔
سمندرپار صاحبزادوں نے کاروبار کا آغاز کیا تو طالب علم تھے۔ ہرگز کوئی ذرائع آمدن نہ تھے۔ ظاہر ہے کہ جو کچھ انہیں ملا‘ والد سے ملا۔ سوال یہ ہے کہ والد گرامی نے یہ سب کچھ کہاں سے حاصل کیا؟ 1994‘ 1995 اور 1996 میں انہوں نے پانچ‘پانچ سو روپے انکم ٹیکس جمع کرایا۔ مالی حالات اس قدر خراب تھے تو یکایک زر و جواہر کی بارش کیسے ہوگئی؟ کہا جاتا ہے کہ یہ موٹروے اور نجکاری سے حاصل ہونے والی نیک کمائی تھی۔ جو شخص اپنی آمدن کا ذریعہ نہ بتا سکے‘ وہ مشکلات اور ادبار میں گھری ایک قوم کی رہنمائی فرمانے کا دعویٰ کیسے فرما سکتا ہے؟ صرف یہ دعویٰ ہی نہیں بلکہ شہبازشریف کے مطابق‘ قائداعظم کے بعد سب سے بڑا لیڈر۔
قائداعظم سے ان کا کیا موازنہ‘ عمر بھر جنہوں نے کبھی جھوٹ نہ بولا‘ ایک بھی وعدہ کبھی نہ توڑا‘ دشمنوں تک نے کبھی ان پر خیانت کا الزام کبھی عائد نہ کیا۔ مخالفین کی کردارکشی کا تو خیر سوال ہی کیا‘ جو غیبت کا ارتکاب بھی نہ کرتے تھے۔ ماں کے دودھ کی طرح اجلے آدمی... اور یہ شریف خاندان ہے‘ اپنے حریفوں کو گالم گلوچ کے لئے‘ جس نے دو سو ملازمین بھرتی کر رکھے ہیں۔ دو میڈیا گروپ‘ اس کے سوا ہیں۔ اور ان دونوں کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ سی آئی اے کے ساتھ رہ و رسم رکھتے ہیں۔ چہ نسبت خاک رابہ عالمِ پاک!
نون لیگ ژولیدہ فکری اور مخمصے کا شکار ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ منگل کی شام وزیراعظم اور چیف جسٹس کے درمیان کیا گفتگو رہی۔ باایں ہمہ سارا تماشا 36 گھنٹے میں ختم ہوگیا۔ چیف جسٹس نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ایک فریادی کی حیثیت سے آئے تھے۔ یہ اشارہ بھی دیا کہ کہنے کو ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ اتفاق سے‘ یہی لفظ اس کالم میں برتا گیا۔ ''کوئی کتنا ہی قہرمان ہو‘ عدالت کے سامنے سائل ہی ہوا کرتا ہے‘‘ اب نوازشریف برہم ہیں کہ وزیراعظم‘ چیف جسٹس سے وضاحت طلب کریں‘ کیسی وضاحت؟ عدالتوں کے پاس استدعا لے کر ہی جاتے ہیں۔ درخواست کا جواز ہو تو قبول کرلی جاتی ہے‘ ورنہ مسترد۔
شریف خاندان کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ سجاد علی شاہ کے دور کی طرح‘ ججوں کو خریدنے کا خواب دیکھا مگر متشکّل نہ ہو سکا۔ نیب پر دبائو ڈالنے اور بعدازاں ترغیب دینے کی کوشش کی گئی‘ مگر وہ کیوں سنتے؟ کس لئے سنتے؟
نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج!
تڑپ کر جس طرف چاہے نکل جا
عدالت کے خلاف مہم چلائی گئی۔ دانیال عزیز‘ طلال چوہدری‘ سعد رفیق اور پرویز رشید میدان میں اتارے گئے‘ حتیٰ کہ نہال ہاشمی کی گالیاں‘ کردارکشی اور تباہ کرنے کی دھمکیاں۔ اب وہ سب کے سب خوف زدہ ہیں۔ شریف خاندان اب ہاتھ پھیلائے‘ دنیا بھر میں سرپرستی کی بھیک مانگ رہا ہے۔ شہبازشریف لندن میں پڑے ہیں‘ مغرب سے مدد کے طلبگار۔ مغرب ان کی کیا مدد کر سکتا ہے؟ واجد ضیاء اور ساتھیوں کے بہی کھاتے کھنگالے گئے ‘کچھ برآمد نہ ہو سکا۔ آخرکار تین بار وزیراعظم رہنے والے آدمی نے‘ ایف آئی اے کے چھوٹے سے افسر پہ جملہ چست کیا: وہ جنرل مشرف کے دروازے پہ منتظر کھڑے رہتے۔ جو بات نوازشریف نہیں جانتے‘ وہ یہ ہے کہ واجد ضیائ‘ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے اور استغفار کرنے والے آدمی ہیں۔ ایک مسکین سا آدمی۔ سیدنا امام حسینؓ نے ایک بار کہا تھا: اس شخص سے کبھی نہ لڑو‘ اللہ کے سوا‘ جس کا کوئی نہ ہو۔ ایسے آدمی کا صبر‘ اللہ کا قہر بن کے ٹوٹتا ہے۔ وہ ایک خاموش آدمی ہے اور اندازہ ہے کہ خاموش ہی رہے گا۔شریف خاندان کوشاید بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے۔
کبھی پیلی ٹیکسی ‘کبھی سستی روٹی ‘ کبھی مردار میٹرو اور اب اورنج ٹرین ۔دو لاکھ مسافروں کے لیے سبسڈی اور قرض کی واپسی پر 48 ارب روپے سالانہ ۔تاریخ کا ایک باب ختم اور دوسرا شروع ہونے والا ہے۔ استحکام کا امکان اب بھی نہیں۔ اس لئے کہ کوئی منزل ہے اور نہ لائحہ عمل‘ محض شخصیت پرستی‘ اقتدار کی اندھی خواہش اور حریفوں کو تباہ کر دینے کی تمنا۔سیاست میں معاشرے کا کوڑا کرکٹ بھرا ہے۔
اقبالؔ نے کہا تھا: اس کی مراد کبھی بر نہ آئے گی‘ جس کے سینے میں دل تو ہے مگر کوئی محبوب نہیں۔