آپ کی مہلت ختم ہوئی میاں صاحب! آپ کا وقت آ پہنچا۔ سبھی کی مہلت تمام ہوتی ہے ۔ آخرش سبھی کو بھگتنا ہوتا ہے۔ روتے کیوں ہیں میاں صاحب ؟ کم از کم ملائیشیا کے نجیب رزاق جتنی ہمت ہی دکھائیے۔
اے شمع تیری عمرِ طبعی ہے ایک رات
رو کر گزار یا ہنس کر گزار دے
اقبالؔکہتے ہیں : جبریلِ امین ؑ سے ابلیس نے کہا: سجدہ میری قسمت میں تھا ہی نہیں ۔ فرشتہ اس پر سوال کرتا ہے : ع کب کھلا تجھ پہ یہ راز ، انکار سے پہلے کہ بعد ۔ پھر کہا :
پستیٔ فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے
کہتا ہے تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود
دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام
ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دود
بے شک جہاز کو ڈوبتا دیکھ کر پرندے اڑتے جا رہے ہیں۔ کنول نعمان‘ شہباز شریف کو چھوڑ گئیں۔ مردوں کے کنول نعمان ، گوجر خان کے شوکت بھٹی کو سپریم کورٹ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نا اہل کر دیا ۔ ڈیرہ غازی خان میں لغاری زمیں بوس ہو گئے۔ پھر بھی نون لیگ بڑی پارٹی ہے ۔ خم ٹھونک کر ، اس کے حامی ہر صبح میدان میں اترتے ہیں ۔ افواجِ پاکستان ، چیف جسٹس ، عمران خان ، پیپلز پارٹی اور اخبار نویسوں کو گالیاں دیتے ہیں ، تنقید کی جو جسارت کریں ۔ نون نواز گیلپ کے مطابق نواز شریف اب بھی مقبول ترین لیڈر ہیں مگر چیف جسٹس اور جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ۔ گیلپ کا سروے نہیں دیکھا ۔ یوں ہم جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف سر بکف فوجی جوانوں کی تائید 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ یعنی دولتی اگر نہ جھاڑی ہوتی تو نون لیگ آئندہ الیکشن بھی جیت سکتی ۔ بیس پچیس لاکھ افراد ایسے ہیں ، کسی نہ کسی طرح شریف اقتدار کا جو پھل کھاتے ہیں ۔ بے شمار افسر اور اخبار نویس ، جن میں سے اعلیٰ نسل والے 27 سرکاری کمپنیوں کا حصہ ہیں ۔
ہر صوبائی اور مرکزی حلقے میں سینکڑوں ، ہزاروں افراد ۔ پراپرٹی ڈیلر ، قبضہ گروپ ، ان کے حاضر باش اور فیکا پکوڑے فروش سے لے کر میاں محمد منشا تک بیشتر کاروباری ۔ گوالمنڈی میں فیکا سموسے اور پکوڑے بیچتا ہے ۔ جس نکڑ پر براجمان ہے ، کوئی خوانچہ فروش یا ٹھیلے والا اس میں داخل ہونے کی جرات نہیں کر سکتا۔ شریف خاندان سے اس کا پیمان ہے ۔ لبرل دانشوروں کی طرح ، کانگرسی ملا ئوں کی طرح۔
نون لیگ کا بازوئے شمشیر زن کاروباری طبقہ ہے۔ میاں صاحب کو بھی سب سے زیادہ محبوب وہی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد ٹیکس دو مگر الیکشن کے ہنگام چندہ جی بھر کے ۔ مجموعی طور پر بیس سالہ اقتدار میں لاکھوں نوکریاں نیاز مندوں کو بخشی ہیں ۔ بے شمار پٹواری اور تھانیدار ۔ کون دیہاتی ہے ، پٹواری کی بارگاہ میں جو پیش نہیں ہوتا۔ کون شہری ہے ، کبھی نہ کبھی تھانیدار کی جسے ضرورت نہ پڑتی ہو۔ کسان باردانے کا محتاج ہے ۔ رانا تنویر یا کسی اور شریف رکنِ اسمبلی سے رہ و رسم کے بغیر شیخو پورے کا کون سا کسان گندم کے لیے بوری حاصل کر سکتا ہے ۔
پھر میڈیا گروپ ہیں ۔ برسوں سے جو شریف خاندان کا کھیل کھیلتے آئے ہیں ۔ کم از کم دو اب بھی کھیل رہے ہیں ۔ فقط اس لیے نہیں کہ داد نقد ملتی ہے بلکہ اس لیے بھی کہ کابل، دبئی ، دہلی ، لندن اور واشنگٹن میں کچھ مرغزار اہلِ وفا کے ہیں ۔
یہ 2013ء کا اوائل تھا۔ ایف بی آر نے لاہور کے مشہور اخبار نویس کو ایک نوٹس بھیجا۔ واشنگٹن میں اس کے ایک فلیٹ کا انکشاف ہوا تھا ۔ پاکستانی کرنسی میں اس کی قیمت دس کروڑ روپے سے زیادہ تھی ۔ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے ٹیکس ادا کرنے کو کہا گیا ۔ جواب میں وفاقی ٹیکس محتسب کی کردار کشی جو اس نوٹس کے محرک (Initiator) تھے ۔ بعد میں یہ صاحب نگران حکومت میں ایک اعلیٰ منصب پر فائز ہو گئے ۔ پھر کرکٹ بورڈ کو اعزاز بخشا مگر اس سے پہلے ہی عصرِ رواں کے آدم سمتھ جنابِ اسحٰق ڈار وزارتِ خزانہ کے دفتر میں داخل ہو چکے تھے ۔ اب تو خیر سے جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ان صاحب کے مداح ہیں کہ کرکٹ میں غیر معمولی کارنامے آپ نے سر انجام دئیے۔ آئندہ نگران حکومت پہ بحث چھڑی تو زبانِ حال سے عالی جناب نے کہا :
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی
ایسے لوگوں کی موجودگی میں ، بھارتی ، برطانوی اور امریکی میڈیا کی موجودگی میں ، 2018ء کا الیکشن کون میاں صاحب سے چھین سکتا ۔ صاحبزادی نے ٹھیک کہا تھا ''روک سکتے ہو تو روک لو ‘‘۔ ایسے ایسے دلاور ان کے ساتھ کھڑے تھے کہ اپنا اخبار ، اپنا چینل بلکہ اپنا مستقبل تک ان مقاصد پہ قربان کر دیتے ، میاں صاحب جس کا مظہر ہیں۔
ہمیں خبر ہے کہ بڑے حلم و آبرو والے
ترا مقام کسی اور کو نصیب کہاں
نون لیگ نے پھر دولتی کیوں جھاڑی ۔ دوسرے کیا، خود میاں محمد شہباز شریف بھی اب تک سمجھ نہیں سکے ۔ محترمہ نون لیگ خود ہی بتائیں ‘ وزارتِ عظمیٰ جن سے ایک بالشت یا چند ماہ کے فاصلے پر پڑی تھی ۔ دولتی بھی شاید چھینک کی طرح ہوتی ہے ، روکے نہیں رکتی۔
محوِ تبلیغ ہیں تو اللہ انہیں سرخرو کرے۔ شہادت پا گئے تو ان کے درجات بلند ہوں ۔ جنرل شاہد عزیز نے کتاب لکھی ، خون روئے تو یہ چھ سات سو صفحات ناچیز نے بھی پڑھ ڈالے ۔ ان کی بے بسی اور بے چارگی ، اظہارِ صداقت کے لیے ان کی بے تابی سے قاری متاثر ہوا۔ سینۂ شمشیر سے باہر تھا دم شمشیر کا ۔ انہی دنوں ایک سابق سپہ سالار سے ملاقات ہوئی تو عرض کیا ''کچھ سچائی تو ہے اس کتاب میں ‘‘... ''یقینا ہے‘‘ انہوں نے کہا ''لیکن ہر سچائی کے اظہار کا ایک وقت ہوتا ہے۔‘‘ ہاں ! چڑیاں جب کھیت چگ جائیں ، موسم جب بیت چکے ، رات جب چھا جائے ، انہونی جب ہو چکے ۔
آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبحِ دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
کربلا میں حسینؓ کی شہادت کے بعد، حق اور حسین ؓ کی حمایت یعنی کیا؟
کارگل کے ہنگام جنرلوں سے میاں صاحب نے پوچھا : سری نگر پہ پاکستانی پرچم کب لہرائے گا؟ جنگ بیت چکی۔ کہر اور دھوپ کے کئی موسم بیت چکے تو انہیں یاد آیا کہ پاکستان نے بھارت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا ۔ عمران خان کا دھرنا 14 اگست 2014ء کو شروع ہوا۔ اس ناچیز سمیت ہر آزاد اخبار نویس نے اس کی مخالفت کی ۔ بچے بچے کو پتہ تھا کہ اسباب کیا ہیں ، پشت پناہ کون ہے اور یہ بھی کہ سپہ سالار شامل نہیں ۔ میاں صاحب اب کیوں چیخ رہے ہیں ؟ مار پچھلے منگل کو پڑی تھی ، بچہ آج کیوں ٹسوے بہا رہا ہے ، جب الماری سے چاکلیٹ چراتے پکڑا گیا۔ ایک ایک لفظ موصوف کا مان لیجیے ، سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ انہیں پاناما کے بعد ، نا اہل ہونے کے بعد کیوں یاد آیا ۔ جنرلوں کے کرتوت اپنی جگہ ، عدالت پوچھتی ہے ، لندن کے محلات کیسے خریدے ؟ صدیق الفاروق، چوہدری نثار علی خان اور بیگم صاحبہ مانتی ہیں کہ 1993ء میں لیے۔ آپ فرماتے ہیں ، 2006ء میں اور معلوم نہیں ، کس کی مِلک ہیں ۔ دستاویزات کہتی ہیں کہ کالا دھن سفید کیا ۔ خود آپ مانتے ہیں کہ خاندان نے اربوں روپے ایک دوسرے کو منتقل کیے ۔ آخر کیوں ؟ آخرکس لیے ؟
آپ کی مہلت ختم ہوئی میاں صاحب! آپ کا وقت آ پہنچا۔ سبھی کی مہلت تمام ہوتی ہے ۔ آخرش سبھی کو بھگتنا ہوتا ہے۔ روتے کیوں ہیں میاں صاحب ؟ کم از کم ملائیشیا کے نجیب رزاق جتنی ہمت ہی دکھائیے۔
اے شمع تیری عمرِ طبعی ہے ایک رات
رو کر گزار یا ہنس کر گزار دے