کہنے کو علمائے کرام بھی کہتے ہیں‘ دہراتے رہتے ہیں۔ مگر دبلا پتلا آہنی عزم کا وہ آدمی خوب جانتا تھا کہ مایوسی کفر ہے۔ واقعی کفر ہے‘اس کا مرتکب منہ کے بل گرتا ہے اور گرا ہی رہتا ہے۔
حیران کن نہیں‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ ناقابلِ یقین ہے۔ ظاہر ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ کے معزز جج صاحبان کی نیت پر شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ قابلِ فہم یہ ہے کہ الیکشن کا بروقت انعقاد ان کی ترجیح اوّل ہے۔ ہونی بھی چاہیے۔
مؤدبانہ طور پر سوال کرنے کی اگر اجازت ہو تو کیا جسارت کی جا سکتی ہے کہ ایسے الیکشن کا فائدہ کیا؟چور اچکوں کا‘ جس میں راستہ نہ روکا جا سکے۔ ایک امیدوار سے یہ سوال اگر نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے ذرائع آمدن کیا ہیں۔ کتنے غیرملکی سفر اس نے کیے اور کیا کبھی کسی جرم میں ملوث رہا ہے‘ تو چھان بین کیا اور نگرانی کیا...چھان بین اور نگرانی اگر نہیں تو الیکشن سے حاصل کیا؟ پھر جمہوریت سے مراد کیا فقط یہ ہے کہ ریوڑ ووٹ ڈالیں اور اپنا چرواہا چن لے۔
معزز جج صاحبان کی شان میں گستاخی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ناچیز ان میں سے ایک ہے‘ ہرحال میں‘ اس روش سے جس نے گریز کیا ہے۔ سیاستدانوں اور ان کے کارندوں کو یہ شعار مبارک ہو۔ قانون کی عمل داری پر یقین رکھنے والے شہریوں کو ہر حال میں اس سے گریز کرنا چاہیے۔ پاکستانی عوام کی امید اب افواج پاکستان سے وابستہ ہے۔ سیاست دانوں کا حال تو یہ ہے کہ دھڑلّے سے قانون شکنی کے مرتکب ہوتے اور ڈھٹائی سے جواز پیش کرتے ہیں۔ افسر شاہوں کا حال یہ ہے کہ سیاست دانوں کے کارندے بن گئے۔ نام نہاد سول سوسائٹی کا عالم یہ کہ پہل کاری (INITIATIVE) اس نے این جی اوز کو سونپ دیا ہے... اور یہ سب جانتے ہیں کہ این جی اوز کے رہنمائی فرمانے والے کون ہیں۔ میڈیا الاّ ماشاء اللہ کنفیوژن کا شکار ہے یا اس مرض کا‘ پورے کا پورا معاشرہ جس میں مبتلا ہے۔ اخبار نویس ہیں‘ توازن برقرار رکھنے کا مرض جنہیں لاحق ہے۔ ایک بات شریف خاندان‘ دوسری عمران خان اور تیسری بلوچ سردار آصف علی زرداری مدظلہ العالی کی حمایت میں۔
مقصود اگر الیکشن کا بر وقت انعقاد ہے تو چشمِ ما روشن دل ما شاد ۔ کون اس کا آرزو مند نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ فارم کی تبدیلی سے‘ 2013ء کا فارم بحال کر دینے سے الیکشن ملتوی کیسے ہو سکتے ہیں۔ ارکانِ اسمبلی کے کوائف ‘ عام آدمی کو معلوم ہونے چاہئیں یا نہیں ۔ اگر اپنے سمندر پار سفر‘ ماضی کے مقدمات اور دیگر معلومات وہ فراہم نہیں کرے گا تو کیسے پتہ چلے گا کہ کس کردار کا وہ حامل ہے۔
2013ء کے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم ‘ بوڑھے آدمی تھے ۔ پورے پاکستان نے ان کا خیر مقدم کیا تھا۔ میٹھا بول بولتے تھے اور دلوں پہ راج کرتے ۔ ڈھنگ کا ایک ہی کام جنابِ فخرالدین جی ابراہیم نے اس ہنگام کیا تھا... قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے فارم کی تبدیلی۔ اس مقصد کے لیے وفاقی ٹیکس محتسب سے انہوں نے رابطہ کیا اور یہ کہا: مالی اور ٹیکس معاملات سے اچھی طرح آپ واقف ہیں ؛ لہٰذا ایسا ایک فارم مرتب کر دیجئے ‘ تمام کے تمام کوائف جس میں سما جائیں۔ فیصلہ کرنے میں الیکشن کمیشن کو آسانی رہے کہ امیدوار امانت اور دیانت کے کم از کم معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔
یہ ایک بہترین دماغ کی ریاضت کا ثمر تھا۔ ایک بیٹھے بٹھائے قومی اسمبلی کے معزز ایوان نے جس پہ پانی پھیر دیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ ایک دوسرے کی حریف ہیں ۔ ایک بہت بڑے ڈرامے کے دو وسیع عریض کرداروں کی طرح دشمنوں کا روپ دونوں نے دھار رکھا ہے۔ بظاہر ایک دوسرے کے خلاف تلوار سونتے کھڑی رہتی ہیں ۔ اندر خانہ روابط مگر مضبوط ہیں۔ پیپلز پارٹی مجبور ہے وگرنہ جیسا میثاقِ جمہوریت میں طے ہوا تھا ‘ بھرپور وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ نون لیگ تو اب بھی اس پر آمادہ ہے ۔ پیپلز پارٹی کا کارکن مگر مانتا نہیں۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ اس طرح شریف خاندان کی وہ بی ٹیم نظر آئے گا۔ ساری کی ساری سیاست اس کی دفن ہو جائے گی ۔ پہلے ہی پارٹی کا حال پتلا ہے ۔ بچا کھچا بھی برباد ہو جائے گا۔ اس سے بھی بڑی مجبوری یہ ہے کہ جنابِ آصف علی زرداری سمیت ‘ اکثر پارٹی لیڈروں کے ہاتھ اور جیب و داماں آلودہ ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق حضرتِ آصف علی زرداری نے 22 بلین ڈالر سمیٹ رکھے ہیں۔ یہ شریف خاندان کی کل متاع سے کم از کم تین چار گنا زیادہ ہیں۔ نون لیگ سے دکھاوے کی محاذ آرائی مجبوری ہے ۔ ایک دوسرے کے وہ ورنہ ہمدرد اور فطری حلیف ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ امیدواروں کے نئے فارم کی منظوری ‘ پلک جھپکتے میں حاصل کر لی گئی۔ عدالتِ عظمیٰ کا حکم امتناعی سر آنکھوں پر ۔ نیا فارم جج صاحبان برقرار رکھیں تو صمیمِ قلب سے اس ممکنہ فیصلے کو بھی قبول کرنا ہو گا۔ مؤدبانہ التماس صرف یہ ہے کہ آئین کی رو سے ایسے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ‘ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہیں ‘ کوئی جن پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ آئین کی دفعہ 25 اس پہ اصرار کرتی ہے۔ 62 اور 63 بھی۔
''صادق اور امین‘‘ تو خیر نا موزوں ‘ اس لیے کہ پوری انسانی تاریخ میں ختم المرسلین رسول اکرمﷺ کے سوا یہ الفاظ کبھی کسی کے برتے نہ گئے۔ ان سے پہلے نہ ان کے بعد‘ کبھی اللہ کی مخلوق نے کسی کو ''صادق اور امین‘‘ کہا اور نہ خالقِ ارض و سما نے ۔ پہلا موقعہ ملتے ہی ان الفاظ کو بدل دینا چاہیے۔ روح مگر برقرار رہنی چاہیے تا کہ ٹھگوں ‘ چوروں اور ڈاکوئوں کو سینیٹ اور اسمبلیوں میں داخل ہونے سے روکا جائے ۔ اخلاقی طور پر تباہ حال معاشرے میں یہ مقصد پوری طرح تو شاید کبھی حاصل نہ کیا جا سکے۔ لیکن کوشش ترک کیسے کی جا سکتی ہے۔ یہ تو پتوار ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ ہوائیں کتنی ہی مخالف اور پانی کتنے ہی مواج ہوں‘ پتوار کیسے ڈالے جا سکتے ہیں؟ افراد یا اقوام‘ شکست اور ناکامی سے نہیں ‘ زندگی مایوسی کی زد میں کھنڈر ہوتی ہے۔ جب تک سانس تب تک آس ۔ آخری تجزیے میں کامیابی اور ناکامی کوئی چیز نہیں۔ لڑتے رہنا ہی زندگی ہے ۔
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
اول اول تو پیمبر ناکام نظر آتے ہیں ‘ حتیٰ کہ کوئی سعید روح متوجہ ہوتی ہے۔ ایک چراغ جلتا ہے ‘ پھر دوسرا اور تیسرا تا آنکہ چراغاں ہو جاتا ہے۔ مشکلات اور موانع کو ناقابلِ تسخیر سمجھ لیا جائے تو بڑی کیا زندگی میں چھوٹی کامیابی کا حصول بھی ممکن نہیں ہوتا۔ خود پاکستان اس کی ایک مثال ہے ۔ جواہر لعل نہرو ‘ ابو الکلام آزاد اور کرم چند موہن داس گاندھی کی آل انڈیا کانگرس ‘ قائد اعظم محمد علی جناح کی آل انڈیا مسلم لیگ سے سو گنا بڑی تھی۔ مالی وسائل میں شاید ہزار گنا زیادہ۔ تحریکِ خلافت کی ناکامی نے مسلم برصغیر کو ادھ موا کر ڈالا تھا۔ قوم پرست مسلمانوں‘ بالخصوص علمائے کرام گاندھی سے اس قدر مرعوب تھے کہ ہندوئوں کی طرح انہیں ''باپو‘‘ کہتے۔
اللہ تعالیٰ کو کسی ہجوم کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ قادر مطلق اور حیّ و قیوم ہے۔ وہ ایک آدمی کا انتظار کرتا ہے ۔ خالص ‘ سچے اور کھرے آدمی کا جو اس کا بندہ ہو۔ جسے زمانے اور اس کے تیوروں کے نہیں صداقت اور منزلِ مقصود کی پروا ہو۔ وہ جو اللہ کے سوا کسی پہ بھروسہ نہ کرے ۔ صداقت شعار‘ امانت دار اور پیمان کی پابندی کرنے والا۔ باتیں نہیں سنتا انسانوں کا خالق نیت کا جانتا ہے ۔ وہ قلب و دماغ کے دھندلکوں میں پلنے اور پروان چڑھنے والے خیالات سے خوب واقف ہوتا ہے۔ خون اور گوشت نہیں اسے ارادہ پہنچتا ہے۔ آدمی اعمال پہ جاتے ہیں اور ان کا خالق خلوص پر۔ محمد علی جناح ایسے ہی ایک آدمی تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ابدالآباد تک عظمت ان پر ٹوٹ ٹوٹ کے برستی رہے گی۔ اس لیے کہ تین برس تک نہایت انہماک سے قرآن مجید انہوں نے پڑھا اور اس کی روح کو پا لیا تھا۔ کہنے کو علمائے کرام بھی کہتے ہیں‘ دہراتے رہتے ہیں۔ مگر دبلا پتلا آہنی عزم کا وہ آدمی خوب جانتا تھا کہ مایوسی کفر ہے۔ واقعی کفر ہے‘ اس کا مرتکب منہ کے بل گرتا ہے اور گرا ہی رہتا ہے۔