"HRC" (space) message & send to 7575

یہ عبرت کی جا ہے ، تماشا نہیں ہے

طاقت کے نشے میں کچھ لوگ کبھی خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں ۔ پھرانجام کا آغاز ہو جاتا ہے، عبرتناک انجام کا!ع 
یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے 
ایک نہیں ، دو نہیں ، دفتر میں ، کئی ساتھیوں نے مبارک باد دی۔ ایک رفیق کار نے یہ بھی کہا : مٹھائی منگوائیے، آپ کے لئے تو یہ ایک یومِ مسرت ہے۔ ان میں سے ہر ایک سے عرض کیا کہ ایسے مواقع پہ جشن کی آرزو کرنا تھڑ دلوں کا کام ہے ۔ شادمانی کا نہیں، یہ عبرت کا مقام ہے ۔
پانامہ پر مقدمے کا آغاز ہوا تو عرض کیا تھا کہ تاریخی قوّتیں ایک بار بے لگام ہو جائیں تو حالات کسی کے بس میں بھی نہیں رہتے۔ ایک شخص ، خاندان یا گروہ نہیں، بتدریج بہت سے لوگ اس کی زد میں آیا کرتے ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں بار بار گزارش کی ہے کہ جو لوگ ''السید‘‘ آصف علی زرداری کو صدرِ پاکستان کے منصب پر براجمان کرنے کا سپنا دیکھ رہے ہیں، معاف کیجئے گا ، وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔ 
سپنا دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا۔ زرداری صاحب تمنّا پا لیں یا ان کے ممکنہ سیاسی حلیف، عملی طور پہ یہ بہت مشکل ہوگا۔ اوّل تو یہ معرکہ سر نہ ہوسکے گا۔ ہو گیا تو ایسا طوفان اٹھے گا کہ زرداری صاحب ہی نہیں، ان کے حامیوں کو بھی بہالے جائے گا۔ بے تاب ہو کر خلق خدا اٹھے گی اور اہلِ حکم سے سوال کرے گی کہ جس جرم پہ وزیراعظم کو گھسیٹا گیا، اسی کے ارتکاب پر ، دوسرے کی تاجپوشی کیوں ہے ؟
سندھ کے صوبے میں صورت حال بتدریج اس قدر خراب ہوئی ۔پولیس اتنی بے بس اور ناکام ہوگئی کہ رینجرز کو قانون نافذ کرنے کے اختیارات دینا پڑے۔ دیہی سندھ کے حالات سے ذرا سی آگہی رکھنے والا، کوئی بھی شخص جانتا ہے کہ جمہوریت نہیں، سندھ میں ایک شخص کی بادشاہت قائم ہے اور اس آدمی کا نام آصف علی زرداری ہے۔ کہنے کو ایک صوبائی اسمبلی قائم تھی، کابینہ اور سول سروس بھی ۔ مگر اختیارات کا منبع انہی کی ذات ِگرامی رہی۔ ان کی ہمشیرہ محترمہ اگر احکامات صادر کرتیں تو انہی کے ایما پر ۔ آپ کے فرزنِد ارجمند خاموش ہو رہے تو انہی کی آرزو پر ۔ کبھی بروئے کار آتے تو آنجناب ہی کی اجازت سے ۔ ہر سطح کے سرکاری افسروں کا تقرر عالی جناب کے اشارۂ ابروپہ ہوتا ، تقرر ہی نہیں، تبادلے بھی۔ 
یہ کوئی راز نہیں کہ سندھ ،بالخصوص دیہی سندھ کے تھانوں میں ، ایک ایس ایچ او زیادہ سے زیادہ تین چار ماہ قرار پاتا ہے۔ قدرے بلند سطح کے افسروں کا عالم بھی یہی ہے۔ اگر کوئی ڈی ایس پی ، ایس پی ، ایس ایس پی یا ڈی پی او ، پیپلز پارٹی کے ایم این اے یا ایم پی اے کا حکم ماننے سے انکار کردے تو چند دن بھی اپنے دفتر میں بتا نہیں سکتا، بعض اوقات تو چند گھنٹے بھی نہیں۔ 
چند برس ہوتے ہیں، کراچی میں تعینات ایک اعلیٰ فوجی افسر نے بھنّا کر کہا : تین برس کی مدّت سے پہلے سب سے چھوٹے ، سب سے کم تجربہ کار جونیئر کپتان کا تبادلہ بھی میںنہیں کرسکتا، جی ایچ کیو کی اجازت درکار ہوگی۔ سندھ کا بے تاج بادشاہ اگر چاہے تو ہر ہفتے ، ایک پولیس افسر کو گھر بھیج دے۔ 
اگر اس ملک میں ڈھنگ کی کوئی سیاسی جماعت ہوتی۔ اگر اس ملک کا میڈیا ، صحافتی آداب کی پاسداری میں مغربی معاشروں ایسے تجربے اور انہماک کا حامل ہوتا، تو کیسی کیسی کہانیاں آئے دن ، اخبارات اور ٹیلی ویژن کی زینت بنا کرتیں۔
گنے کے کاشتکار ہی کو لیجئے۔ پنجاب اور پختون خوا میں بھی اس کا حال ابتر ہے۔ چند ایک مستثنیات کے سوا ، جہانگیر ترین جن میں شامل ہیں، شاید ہی کوئی ایسا ہے، ان بے کس لوگوں پر جو ترس کھاتا ہو۔ غضب خدا کا، کئی کئی دن تک گنیّ کی ٹرالیاں شوگر ملز کے باہر کھڑی رہتی ہیں، جیسے کوئی بے بس غریب سوالی پولیس سٹیشن کے باہر۔ بعض اوقات میلوں تک طویل قطاریں بن جاتی ہیں۔ گنّا سوکھتا رہتا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وزن کم ہوتا چلا جاتا ہے مگر اس میں شکر کی سطح وہی رہتی ہے۔ اس اثناء میں کاشتکار ٹرالیوں یا فرشِ خاک پہ پڑے رہتے ہیں۔ خدا خدا کرکے مرکزی دروازے تک رسائی ہوتی ہے تو فصل تولنے والے بے رحم آدمی سے واسطہ پڑتا ہے۔ 
اکثر کارخانے سب سے زیادہ سخت گیر بلکہ پتھر دل کارندے کو یہ ذمہ داری سونپتے۔ ظاہر ہے کہ ہر کہیں اور ہر کوئی ایسا نہیں ہوتا۔ تھوڑے سے احساس اور مروّت والے بھی ہوتے ہیں۔ خال خال اللہ کے بندے بھی ، جنہیں یاد رہتا ہے کہ ایک دن پروردگار کی خدمت میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب انہیں دینا ہے، بیشتر مگر سنگ دل ہی ۔گنا تولنے کا عمل راتوں کو جاگ جاگ کر فصل سینچنے اور برداشت کرنے والے کسان کے لئے بدترین ایذاکا لمحہ ہوا کرتا ہے۔ بعض کارخانے ایسے ہیں کہ فروخت کنندہ کو وزن کرنے والی مشین پہ نگاہ ڈالنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔جہاں اجازت مرحمت ہوتی ہے وہاں بعض اوقات اسے بتایا جاتا ہے کہ تین یا پانچ کلو فی 40 کلو کٹوتی ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں سات سے بارہ فیصد۔اس کرہّ خاک پہ پھیلے لاکھوں، کروڑوں کارخانوںاورمارکیٹوں میں ایسی بے حیائی کی شاید ہی کوئی دوسری نظیر تلاش کی جاسکے۔
یہ پنجاب اور پختون خوا میں ہوتا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ ہر کارخانے میں نہیں۔ سندھ میں جو سلوک خدا کی اس مخلوق سے روا رکھا جاتا ہے، دونوں صوبے ، مقابلتاً '' جنت نظیر‘‘لگتے ہیں۔ پنجاب اور پختون خوا میں زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس ...نقصان کاشتکار کا ہوا کرتا ہے مگر سندھ میں ؟
اول تو اس کا اختیار ہی نہیں کہ اپنی مرضی سے خریدار کا انتخاب کر سکے ۔ پولیس کی مدد سے ہانک کر اسے لے جایا جاتا ہے اور خریدار اپنی مرضی سے نرخ کا تعین کرتا ہے ۔ 180 روپے '' من ‘‘ کی بجائے ، 120 ، 130 یازیادہ سے زیادہ 140 ۔ ممکن ہے کہ کسی صبح شوگر ملوں کے بادشاہ کا موڈ خراب ہو۔ اگر ایسا ہو تو کچھ مزید مہربانی ۔ سب جانتے ہیں کہ سندھ کے آئی جی اے ڈی خواجہ سے ناراضی کا آغاز اس وقت ہوا ، جب انہوں نے بادشاہ سلامت کے کارندے کو ، اس کار خیر میں ، مقامی پولیس کو جھونکنے سے روکا۔ 
دو برس ہونے کو آئے کہ یہ سلسلہ جاری ہے۔ بظاہراب بھی وہ آئی جی کے منصب پر فائز ہیں ۔ عدالت ہر بار ان کی مدد کو آتی ہے۔ مگر کیا واقعی وہ انسپکٹر جنرل ہیں؟ سندھ کے ایک غیرت مند سپوت،ایف آئی اے کے موجودہ سربراہ بشیر میمن نے بادشاہ سلامت کے اشاروں پر ناچنے سے انکار کر دیا تو برسوں ابتلا کا شکار رہے۔ ابھی تک ان کا تعاقب جاری ہے۔ الیکشن کمیشن سے سرکاری طور پر پیپلز پارٹی پاکستان نے استدعا کی کہ ان کا تبادلہ کر دیا جائے۔ سپریم کورٹ رکاوٹ نہ ہوتی تو ایک بار پھر وہ بوریا بستر باندھ رہے ہوتے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کو گندگی کا ڈھیر قرار دینے والے اعتزاز احسن ، اگر پسند کریں تو کسی روز اس مرد ِشریف کی داستاں انہیں سنائی جائے۔خلق خدا کیسے یہ گوارا کرے گی کہ شریف خاندان کا احتساب ہو اوریہ لوگ خلقِ خدا کا خون چوسنے کے لئے یکسرآزاد ہوں؟
خالقِ ارض و سما نے کتابیں ہی نازل نہیں کیں۔ فقط پیغمبر ہی مبعوث نہ فرمائے، ترازو بھی اسی نے اتاری ہے۔ اس کی حفاظت فرمانے والا بھی وہی ہے۔ 
طاقت کے نشے میں کچھ لوگ کبھی خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں ۔ پھر انجام کا آغاز ہو جاتا ہے، عبرتناک انجام کا! ع
یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں