خوش خوراکی ایک چیز ہے اور ہوس دوسری ۔ کھانے کا لطف بھوک سے ہوتاہے۔ فراوانی اسے برباد کر تی ہے ۔بہترین کھانے والا وہ ہے ‘ جو دوسروں کو شریک کرے ‘ بالخصوص حاجت مندوں کو ۔ یہ پیغمبروںؑ کی سنت ہے اور اولیا کا شعار ۔
میاں محمد نواز شریف تین بار منتخب ہی نہیں ‘تین بار برطرف بھی ہوئے ۔ 1993ء میں جب پہلی بار نکالے گئے ‘تو معین قریشی نگران وزیراعظم بنے ۔ پہلے دن عملے نے پوچھاکہ دوپہر میں وہ کیا کھانا پسند کریں گے ؟ اپنی جیب سے پانچ سو روپے کا ایک نوٹ نکالا اور کہا : میریٹ ہوٹل سے ایک کلب سینڈوچ ۔ دنیا بھر میں یہی دستورہے ۔ دوپہر کو ہلکا کھانا ۔ اہتمام مقصود ہو تو عشائیے پر یا ضیافتوں میں ۔
ایوانِ اقتدار میں باورچیوں کی ایک کھیپ موجود رہتی ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا کے برعکس ۔جنرل محمد ضیاء الحق نے اس فن میں کچھ ایجادات کی تھیں ۔ وہ مہمان نوازی کے بہت شائق تھے ۔انہوں نے کباب اور سموسے کا سائز چھوٹا کر دیا تھا۔ غیر ملکی مہمانوں کو پاکستانی کھانے بھی پیش کرتے ‘ مثلاً: پلائو اور بریانی ۔ امراہی نہیں ‘ ایوانِ صدر میں عام ملاقاتیوں کو بھی کھانا پیش کیا جاتا ۔
ایک شام کرکٹ بورڈ کے چیئرمین جنرل زاہدعلی اکبر اور کرکٹ ٹیم کے کپتان عمران خان کو انہوںنے مدعو کیا ۔جنرل چاہتا تھا کہ وہ کھیل سے وابستگی جاری رکھے ۔ صحن کی طرف گئے کہ کسی غیر ملکی کے لیے عشائیے کا اہتمام تھا۔ زاہد علی اکبر کا مشورہ یہ تھا کہ فوری طور پر آمادگی کا اظہار نہیں‘ تاکہ کچھ شرائط منوا ئی جا سکیں ۔ مشورے کا نتیجہ الٹ نکلا ۔ جیسے ہی جنرل واپس آیا ‘ عمران خاں نے اثبات میں جواب دیا ۔ برسوں بعد ایک بار کپتان نے مجھے بتایا کہ جنرل زاہد علی اکبر کا مشورہ اسے اچھا نہ لگا ۔ کھیلنا ہے تو بس کھیلنا ہے ‘ شرائط کا کیا سوال ؟
جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایوانِ صدر کے بیشتر عملے کو کھانا مہیا کیا جاتا ۔ مہمانوں کو آمدرفت ہی نہیں ‘بلکہ دارالحکومت میں قیام تک سرکاری گاڑی استعمال کرنے کی پیشکش کی جاتی ۔ اگست1988ء میںجب غلام اسحٰق خان صدر بنے‘ تو یہ سلسلہ یک قلم موقوف کر دیا گیا ۔ تواضع پر ایک لاکھ روپے روزانہ اٹھتے تھے ۔ سرکاری فائل پر خان صاحب نے لکھا: "Not more than one thousand rupees a day" ۔جنرل حمید گل بھی تواضع کے ایسے خوگر تھے کہ مہمانوں کو ہرن کا گوشت تک کھلایا کرتے۔ جنرل اختر عبد الرحمن سعودی عرب کے انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی کو انار کا جوس پلاتے ‘ کریلا اور قیمے کا سالن کھلایا کرتے ۔جنرل حمید گل نے شہزادے کو چیکو کا پودا تحفے میں دیا ‘مگر یہ بتانا بھول گئے کہ اس کا پھل کھایا جاتاہے ۔ چیکو کو شہزادہ برسوں ایک آرائشی درخت ہی سمجھتا رہا۔
اپنے مہمانوں کوغلام اسحٰق خان چائے کی ایک پیالی ‘ ایک چھوٹا سموسہ اور ایک گلاب جامن پیش کرتے ۔ واپڈا کے وہ خالق تھے اور چیئرمین بھی ۔ لاہور میں واپڈا ہائوس کے صدر باورچی نے کھانے کے بارے میں پوچھا تو جواب یہ تھا : دوپہر کو بڑے گوشت کا قیمہ پکا لیجیے گا ۔ رات کو وہی بچا ہوا سالن کام آئے گا ۔
عجیب بات یہ ہے کہ اپنے گھر میں مہمانوں کے لیے وہ غیر معمولی اہتمام کرتے ۔ پشاور میں ان کے دولت کدے پر بارہا شریکِ طعام ہونے کا موقعہ ملا ‘ سینیٹر طارق چوہدری کی معیت میں۔ دو تین سالن‘ میٹھا ‘ گرمیوں میں چھاچھ کا ایک گلاس ‘ رائتہ سلاد اور گرم چپاتی ۔ کھانے کے بعد گاہے امرود بھی۔ہر بار طارق چوہدری سے وہ شکوہ کرتے : ہمیشہ آخری وقت پہ آپ مطلع کرتے ہیں ‘ورنہ ایک خاص ریسٹورنٹ سے چپل کباب منگواتا ۔ ایک بار رخصت ہوتے ہوئے ‘میں نے کہا : اسی لیے آپ کو نہیں بتاتے ۔ خان صاحب نے مسکرانے سے انکار کر دیا۔ بات کھل کر کرتے ‘مگر بے تکلفی کے قائل نہیں تھے ۔ کتاب پڑھتے ‘ اپنے جمع کیے ہوئے نوادرات بالخصوص گندھارا کی ہزاروں برس پرانی مورتیوں سے آنکھیں ٹھنڈی کرتے ۔ اردو ‘ انگریزی ‘ فارسی اور پشتو شاعری سے دل بہلاتے۔ کبھی دیر تک ٹھمری سے حظ اٹھاتے ۔ وہ ضابطہ پسندی اور امانت و دیانت کے آدمی تھے ۔ 80برس کی عمر میں جوانوں کی سی رغبت سے کھانا کھاتے ۔ بھوک سے دو چار لقمے زیادہ ہی۔
ایوانِ وزیراعظم میں پہلے دن کلب سینڈوچ سے شغل فرماتے‘ معین قریشی کو ابھی کچھ چیزوں کا علم ہونا تھا ۔ ان کے پیش رو منتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے باورچی خانے کو بہت وسعت بخشی تھی ۔ چالیس کلو گوشت ہر روز لایا جاتا ‘ ایک سے ایک اچھا باورچی ڈھونڈا جاتا اور طرح طرح کے طعام استوار کیے جاتے ۔ لاہور اور کراچی سے بھی منگوائے جاتے ۔ ایک بار افطاری میں ہریسہ پیش کرنے کے لیے خاص طور پر ہیلی کاپٹر لاہور بھیجا گیا ۔ محوِ سفر ہوتے تو جہاز یا ہیلی کاپٹر میں ایک بڑے ٹفن کیرئیر کے علاوہ طرح طرح کے پھل دھرے ہوتے۔
2008ء سے 2013ء تک جب کسی منصب پہ وہ فائز نہ تھے ‘ پنجاب حکومت ان کے طعام کا بندوبست کرتی ۔ جاتی امرامیں ان کے گھر کو چیف منسٹر ہائوس قرار دے دیا گیا تھا ۔گوالمنڈی کا مکین پائے اور لسّی کا شوقین بھی تھا۔ پائے کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے ایک دفعہ کوئٹہ میں ناشتے سے گریز کیا تھا۔ کراچی میں ایک بار حلوائی کی دکان پر دہی کے بہت سے کونڈوں کا جائزہ لینے کے بعد ایک خاص کونڈا پسند کیا ۔ لسّی میں دودھ ڈالتے اور پیڑے بھی ۔ ایک بار لاہو رکے ایک مدیر کے ہاں مدعو کیے گئے‘ تو واپس جاتے ہوئے‘ ایک باورچی ساتھ لے گئے ۔جہاں تک یاد پڑتا ہے ‘ ایک باورچی غالباً آصف علی زرداری نے بھی انہیں پیش کیا تھا‘ جو مسور کی دال بنانے کا ماہر تھا ۔ بے نظیر بھنڈی کھایا کرتیں ۔ زرداری اور ان کی بہن دال سے شغل فرماتے ہیں۔ عادات ہوتی ہیں اور مزاج بھی ۔ جناب عمر بن عبد العزیزؒ کے پیش رو سلمان بن عبد العزیز ایسا پر خور تھا کہ تفصیلات پڑھنے والا ششدہ رہ جاتا ہے ۔ عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے اعزاز میں‘ ان کے وزیراعظم یحییٰ برمکی نے ضیافت کا اہتمام کیا‘ تو کالے تیتروں کی زبانیں پکائی گئیں ۔ متلون مزاج ہارون کو ناگوار ہوا اور اس نے چپاتی پر اکتفا کیا۔ایک عباسی خلیفہ کے لیے کمخواب کی تھیلیوں میں کبوتروں کے ذریعے ہر روز انگور بھیجے جاتے ۔ہارورن الرشید کبھی کبھار کالے تیتر کی فرمائش کرتا۔جب اسے پتہ چلا کہ اس کے لیے تازہ شکار کا مستقل بندوبست ہے ‘ تو امام ابو یوسف سے پوچھا: کیا یہ اسراف تھا ؟ جواب دیتے ہوئے امام ابو یوسف نے پوچھا : کیا اس سے محل کا عملہ فیض یاب ہوا؟شہادت سے چند دن پہلے سیدنا عثمان ؓ نے اپنے مہمان سے پوچھا: کھانا کیسا ہے ؟ کہا : بہت اچھا۔ فرمایا:عمر بھر اچھا لباس پہنا اور اچھا کھانا کھایاہے۔ اب صرف دو بکریاں بچ رہی ہیں ۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سوکھی روٹی کھا لیا کرتے ۔ عمر فاروقِ اعظمؓ جو کی روٹی پر زیتون کا تیل چپڑ لیتے اور کبھی ستّو بھی۔ گوشت رغبت سے کھاتے ‘مگر ہمیشہ نہیں ۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے :اپنے معدوں کو جانوروں کا قبرستان نہ بنائو ۔ دعویٰ یہ ہے کہ ایوانِ وزیر اعظم میاں صاحب خود برداشت کیا کرتے ۔ اگر ایسا ہے‘ تو جاتی امرا میں برسوں پنجاب حکومت کیوں ان کے اخراجات کا بوجھ اٹھاتی رہی؟
دنیا میں کچھ لوگ مہمان بننا پسند کرتے ہیں ‘ کچھ میزبان ۔ چوہدری منیر ‘ میاں عامر محمود اور میجر عامر مستقل میزبان ہیں‘ لیکن سب سے بڑھ کر پروفیسر احمد رفیق اختر ۔ رئوف کلاسرا بھی کبھی کھانا کھلایا کرتا تھا ۔ اب اس کا مشغلہ ہوا میں اڑنا ہے ۔
خوش خوراکی ایک چیز ہے اور ہوس دوسری ۔ کھانے کا لطف بھوک سے ہوتا ہے۔ فراوانی اسے برباد کر تی ہے ۔بہترین کھانے والا وہ ہے ‘ جو دوسروں کو شریک کرے ‘ بالخصوص حاجت مندوں کو ۔ یہ پیغمبروںؑ کی سنت ہے اور اولیا کا شعار ۔