ممکن ہے کہ رحمت کی بارش ہو جائے۔ ممکن ہے کہ ملائیشیا اور چین میں دو وکٹیں اور گر پڑیں۔ کھیل ابھی جاری ہے۔ پاکستانی معیشت میچ میں واپس آ گئی ہے۔ ایک بڑی وکٹ کپتان نے گرا دی ہے۔ تیز رفتار بائولر ممکن ہے اب فارم میں آ جائے۔ حکم لگانے کا وقت ابھی نہیں آیا۔
جولائی میں بجٹ کا خسارہ دو بلین ڈالر تھا۔ اگست میں چھ سو ملین ڈالر اور ستمبر میں ایک ارب۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گرم انجن ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ کپتان کی اقتصادی ٹیم ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی۔ علی زیدی نے پیش گوئی کی تھی کہ ڈالر 140 روپے کو جا پہنچے گا۔ خیال یہ تھا کہ آئی ایم ایف کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔ محاورہ یہ ہے کہ ناکامی یتیم ہوتی ہے اور کامیابی کے سو باپ۔ ناکام ہونے والے کسی بھی فرد‘ قبیلے اور قوم پہ بہت سے دانا مسلّط ہو جاتے ہیں۔ اس دانش کے باوجود‘ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے بعد نگران حکومت کی عنایات کے باوجود‘ عمران حکومت کا فیصلہ آخری تجزیے میں درست ثابت ہوا۔ جی ہاں قسمت نے یاوری کی مگر جیسا کہ محاورہ ہے کہ مقدر انہی پہ مہربان ہوتا ہے‘ جو تہیہ کر لیں۔
بارہ نہیں سعودی عرب کی امداد چھ بلین ڈالر ہے‘ جیسا کہ کل اس کالم میں عرض کیا تھا۔ پہلے سال تین ارب ڈالر پاکستانی بینکوں میں رکھنے کو ملیں گے‘ اور تین بلین ڈالر کا پٹرول ادھار۔ اگلے سال سے کچھ نہ کچھ ادائیگی کرنا ہو گی۔ کیا مہاتیر محمد اس ''نوجوان‘‘ کی کچھ مدد کر سکتے ہیں‘ جسے وہ ایک شفیق باپ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ پاکستان کھانے کا تیل ملائیشیا سے درآمد کرتا ہے‘ مبلغ چار ملین ڈالر کا۔ یہ ناممکن نہیں کہ مختصر عرصے کے لیے ایک ڈیڑھ بلین ڈالر کا ادھار مل جائے۔
گزشتہ ہفتے چین جانے والے پاکستانیوں کی ملاقات اہم ترین لیڈروں سے نہیں تھی۔ اس کے باوجود یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہ ہوئی چین کا رویّہ بے حد مثبت ہے۔ چین پاکستان کا دوست نہیں‘ تزویراتی شریکِ کار ہے۔ دنیا کے اس اہم خطّے میں امریکہ کا کھیل یہ ہے کہ چین کو محدود کیا جائے۔ بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنایا جائے۔ دوسرے عوامل کے علاوہ افغانستان میں دہلی کو ایک کردار سونپنے کی امریکی حکمت عملی کی بنا یہی ہے۔ بہت پہلے چینیوں نے بحیرہ عرب تک رسائی کا فیصلہ کیا تھا۔ 1996ء میں نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد نے کہا تھا کہ 2012ء میں پاکستان ختم ہو سکتا ہے۔ یہ خود ترسی سے پھوٹنے والا وہم نہ تھا بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کی نشاندہی۔ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سِکس نے خاکہ بنا رکھا تھا۔ بھارتی کارندے الطاف حسین کے عزائم پورے ہو سکیں تو گوادر سے کراچی تک کی پٹّی کاٹ کے الگ کر دی جائے۔ بے گناہ بینظیر بھٹو کے قتل پر سندھ کے ریلوے سٹیشنوں سمیت‘ بہت سی سرکاری عمارتوں کی آتشزدگی میں برطانوی ایجنسی کے کارندے ملوّث تھے۔ پونا سے ممبئی تک پھیلے کیمپوں میں ایم کیو ایم لندن کے کارندے بعد میں پہنچے۔ اوّل اوّل یہ سندھی قوم پرست تھے‘ دادو کی پہاڑیوں میں جنہوں نے الطاف حسین کے مجوزہ قاتلوں کو تربیت دی۔ پاکستان کی این جی اوز پر مغربی سرمایہ کاری بے سبب نہیں۔ لبرل دانشوروں کی طرف سے قائد اعظم کے مقابلے میں گاندھی اور نہرو کی قصیدہ نگاری بھی بے سبب نہیں۔
وہ دن کہ اسلام آباد میں مایوسی کے سائے بہت گہرے تھے۔ جون 1995ء میں ایوانِ وزیر اعظم میں صدر فاروق لغاری ‘ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور سپہ سالار جنرل عبدالوحید کاکڑ نے کراچی پہ تبادلۂِ خیال کیا۔ اس کے فوراً بعد ڈاکٹر شعیب سڈل کو طلب کیا گیا۔ جو پہلا جملہ صدر لغاری نے ان سے کہا وہ یہ تھا ''بہتری کی امید تو کوئی نہیں مگر ہم ایک کوشش کرنا چاہتے ہیں‘‘ میدان میں ڈاکٹر سڈل تھے۔ ان کی پشت پر بے خوف نصیراللہ بابر کھڑے تھے اور آئی بی کے افسروں کی ٹیم‘ شجاعت اللہ خان اور فواد جن میں نمایاں تھے۔ آخر آخر آئی بی اس کمال کو پہنچی کہ بچوں کی ایک بس کو بم سے اڑانے کا منصوبہ بناتے‘ ایم کیو ایم کے دہشت گرد پکڑ لئے گئے۔ ٹھیک اس وقت جب وہ ٹیلیفون پر باہم مشورے میں تھے۔
بعد کے برسوں میں ان خطوط پر چین نے سوچنا شروع کیا کہ خدانخواستہ پاکستان ٹوٹ جائے تو افغانستان کے راستے بلوچستان پہنچا جائے۔ پاکستان کی تزویراتی اہمیت اللہ کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے۔ یہ الگ بات کہ ناشکروں کے لیے انعام بھی عذاب ہو جاتے ہیں۔
گورا رنگ تے شربتی اکھّیاں
سارا پنڈ ویری ہو گیا
چین کے لیے پاکستان سمندر کا راستہ ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ اور بھی کچھ چیزیں اہم ہیں... اور ہر بات کالم میں سما نہیں سکتی۔ پچھلے ایک سال کے دوران چار بلین ڈالر چین نے پاکستان کو دیئے ہیں۔ اس کا زیادہ چرچا وہ نہیں چاہتے۔ پچانوے بلین ڈالر کے پاکستانی قرضے میں چودہ بلین ڈالر چین کے ہیں۔ اب بھی کچھ امداد متوقع ہے۔ قابل اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ دو بلین ڈالر۔
گزشتہ چند ایّام کے دوران سٹاک ایکسچینج میں تین ہزار پوائنٹ کی بہتری آئی۔ اب کوئی چیخ کر کہے گا کہ زوال تو سترہ ہزار پوائنٹ کا تھا۔ بیماری یکایک آتی ہے اور تیزی سے توڑ کے رکھ دیتی ہے‘ بحالی اسی طرح ہوتی ہے‘ رفتہ رفتہ بتدریج۔
معاشی ماہرین کی طرف سے‘ کپتان اور ان کے وزیرِ خزانہ کی بہت مذمت کی گئی۔ کسی حد تک وہ مستحق بھی تھے کہ تیاری نہ تھی۔ اب تھوڑی سی تعریف بھی کرنی چاہئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ایک سے ایک بڑا نالائق کپتان نے دربار میں جمع کر رکھا ہے۔ نکمے سرکاری افسر اور ایسے مشیر جو حکمرانوں کو لے ڈوبتے ہیں۔ یہ تو مگر ماننا ہو گا کہ آئی ایم ایف سے فوری طور پر رجوع نہ کرنے کا فیصلہ آخر کار درست ثابت ہوا۔ پاکستانی سیاست اور صحافت میں تقسیم اتنی گہری ہے‘ جتنی مخاصمت پر تلے میاں بیوی میں ہوتی ہے ''آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہو‘‘۔
بہت بے دردی کے ساتھ آصف علی زرداری اور نواز شریف نے قومی وسائل برباد کیے ہیں۔ لاہور کی اورنج ٹرین پر چینیوں نے شہباز شریف کو سراہا۔ انہیں ''پنجاب سپیڈ‘‘ کا تمغہ دیا۔ پورے وثوق سے عرض کیا جا سکتا ہے کہ چین میں ہوتے تو برطرف ہو جاتے بلکہ شاید ضائع ہی۔
بے تحاشہ قرضے اور سفاکی سے ان کا استعمال۔ پانچ سال کسان روتے رہے۔ زراعت برباد ہو گئی۔ گنّے کے کاشت کار تو بالکل ہی برباد۔ پاکستانی زراعت کا ذرا سا فہم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ پانچ اقدامات سے پانچ سال میں پاکستانی معیشت دو گنا کی جا سکتی ہے۔ ہموار زمین‘ اچھّا بیج‘ کھاد کی بروقت فراہمی‘ فوّاروں سے آبپاشی‘ ملاوٹ کے بغیر کرم کش ادویات اور غیر سودی قرضے۔ سب جانتے ہیں کہ جدید معیشت صنعت کاری پہ استوار ہوتی ہے۔ اورنج ٹرینوں اور میٹرو بسوں پر پانچ سو ارب روپے لٹا دیئے گئے۔ حکومتی کاروباری ادارے ہر سال بارہ سو ارب روپے ضائع کرتے ہیں۔ غضب خدا کا ہر سال دس بلین ڈالر یعنی تیرہ سو ارب روپے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے کون سا مسئلہ نواز شریف اور زرداری نے حل کرنے کی کوشش کی۔ متحدہ محاذ بنانا اپوزیشن کا حق ہے۔ ایک مضبوط اپوزیشن جمہوریت کا اتنا ہی بڑا ستون ہے جتنی کہ ایک اچھی حکومت۔ لیکن اگر یہ اپوزیشن نئی حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو جائے تو شاد کون ہو گا۔ جی نہیں‘ صرف آصف علی زرداری‘ نواز شریف اور حضرت مولانا مدّظلہ العالی نہیں بلکہ پاکستان کے بیرونی دشمن بھی۔ اس لیے کہ عدم استحکام پاکستانی عوام نہیں بھارت‘ افغانستان اور امریکہ کو سازگار ہے۔
بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ معیشت موضوع ہی ایسا ہے۔ فارسی کے شاعر نے کہا تھا:
کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد
ہر چہ گیرید مختصر گیرید
ممکن ہے کہ رحمت کی بارش ہو جائے۔ ممکن ہے کہ ملائیشیا اور چین میں دو وکٹیں اور گر پڑیں۔ کھیل ابھی جاری ہے۔ حکم لگانے کا وقت ابھی نہیں آیا۔