رسول اکرمﷺ کے وصال نے سب کچھ زیر و زبر کر دیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ مدینہ کی زمین پر کوئی آسمان ہی نہیں۔ اس پر بھی سیدنا صدیق اکبر ؓ نے کہا: زکوٰۃ کی ایک رسّی روکنے والے کو بھی میں معاف نہیں کروں گا۔ اسی کا نام حکمرانی ہے۔
سیر کرنے کے لیے ابرہام لنکن دریا کے پار اترا تو کھیتوں میں مصروفِ عمل کالوں نے اس پر ہجوم کیا۔ اس کی طرف لوگ کھنچے چلے آتے کہ وہ ایک بہت ہی نرم خو آدمی تھا۔ لنکن نے ان کی طرف دیکھا مگر سیدھا چلتا رہا۔ ''آپ لوگوں کو اپنا فرض ادا کرنا ہو گا‘‘ اس نے کہا ''ڈسپلن سیکھنا اور اپنی آزادی سے استفادہ کرنا چاہئے‘‘۔
لنکن کے سوانح نگاروں میں سے ایک نے لکھا ہے: اس کے سب سے زیادہ تنبیہہ آمیز حکم کا متن‘ اس خط میں تھا‘ جو ایک جنرل کے نام لکھا گیا: بہانے نہ بنائو‘ غیر ضروری مطالبات نہ کرو اور اپنا فرض ڈھنگ سے انجام دو۔ یہ خط موت کے بعد‘ اس کی دراز سے برآمد ہوا۔ مورخ کا خیال ہے: لکھ چکنے کے بعد لنکن نے شاید یہ سوچا ہو‘ میدان جنگ میں‘ اس کی ٹھنڈ اور تاریکی میں‘ معلوم نہیں‘ وہ کس ذہنی کیفیت سے دوچار ہو۔ ایوانِ صدر کے اس گرم کمرے کی راحت میں‘ میرے لیے زیبا نہیں کہ برا بھلا اسے کہوں۔
مگر دس لاکھ زندگیاں چاٹ لینے والی خانہ جنگی کے ہنگام‘ اسی شائستہ آدمی نے ایک بار امریکی جنرلوں پہ قہر کی نگاہ ڈالی‘ اور یہ کہا تھا: تمغوں والے جنرل نہیں مجھے وہ سپاہی درکار ہے‘ جو جنگ جیت کر دے۔
حکمران کو فیصلہ صادر کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت وہ سنار کی مانند ہوتا ہے‘ سونے کی خریداری کے وقت جو ایک ذرا سا کھوٹ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اس وقت وہ ایک شہسوار کی مانند ہوتا ہے‘ جو کم نسل گھوڑا گوارا نہیں کرتا۔ اس وقت وہ ایک سچے سکالر کی طرح ہوتا ہے‘ رائے دیتے ہوئے‘ اپنے تعصبات جو دفن کر ڈالتا ہے۔ ایک ذرا سی رعایت بھی نہیں دیتا۔ خود کو نہ دوسروں کو۔
کیا ہمارا نیا وزیر اعظم ایک اچھا منتظم ثابت ہو گا۔ اس سے پہلے بھی ایک سوال ہے کہ کیا ریاست کی رٹ قائم کئے بغیر‘ اس دلدل سے ہم نکل کیسے سکتے ہیں‘ کئی عشروں سے جس میں ہم براجمان ہیں۔ براجمان ہیں اور حقیقی کاوش کے بغیر‘ اس دلدل کو گلستان میں بدل ڈالنے کا سپنا دیکھتے ہیں۔
حسرتیں دل کی مجسّم نہیں ہونے پاتیں
خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے
کیا ایک بار پھر ہمارا خواب بکھر جائے گا؟ جنرل پرویز مشرف گئے تو جمہوریت بحال ہو گئی۔ جمہوریت تو بحال ہو گئی مگر آصف علی زرداری نام کا ایک آدمی ہم پر مسلّط ہو گیا۔ قوم روئی پیٹی تو آصف علی زرداری گئے‘ اب نواز شریف آن براجے۔ ان سے نجات ملی تو عمران خان سریر آرائے سلطنت ہیں۔ اگر وہ بھی ناکام ہو گئے؟ اِس وقت بھی ایک طرح کا نرم مارشل لأ نافذ ہے‘ قوم نے جس سے سمجھوتہ کر رکھا ہے کہ زیادہ نہیں چبھتا۔ کم از کم کرپشن سے نالاں اکثریت کو نہیں چبھتا جو زرداری اور نواز شریف سے ناراض ہے۔
ریاست کی رٹ کہاں ہے؟ کراچی میں کھربوں روپے مالیت کے دس ہزار مارٹن کوارٹرز پہ سابق سرکاری ملازمین قابض ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کی بہترین کوشش کے باوجود‘ خالی نہیں کرائے جا سکے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے حکم پر عدلیہ نے پرسوں جو کارروائی کی‘ وہ ناکام رہی؛ چنانچہ تین ماہ کی مہلت دینا پڑی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ سندھ حکومت منی لانڈرنگ ایسے سنگین جرم میں سپریم کورٹ سے تعاون نہیں کرتی۔ اس میں کیا کرے گی‘ جبکہ ذمہ داری بھی ایم کیو ایم پہ پڑنے والی ہے۔ رہی ایم کیو ایم تو جنرل مشرف کے عہد میں‘ اس سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر نے 200 ارب روپے کی سرکاری جائیداد قابضوں کے حوالے کر دی تھی۔ لیز کے نام پر مسلّط‘ نادہندگان کو مالکانہ حقوق دے دیئے تھے۔ ایک ایسی ریاست کیونکر ایسی شاہ بخشیوں کی تاب لا سکتی ہے‘ عشروں سے جو کشکول اٹھائے پھرتی ہے۔ کبھی عربوں اور کبھی چینیوں سے بھیک مانگتی ہے۔
امیر تیمور نے سمرقند کو دنیا کا سب سے خوبصورت شہر بنانے کا ارادہ کیا۔ ماہرین تعمیرات ایران اور ہندوستان سے آئے۔ درجنوں نئی عمارتوں کی نیو اٹھائی گئی۔ اڑچن اس بازار کی وجہ سے آن پڑی‘ برساتی کھمبیوں کی طرح جو اُگ آیا کرتے ہیں۔ کاشت کاروں سے کم مگر تاجر بھی ٹھکانہ بدلنے پہ آسانی سے آمادہ نہیں ہوا کرتے۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ تاریخ نے امیر کو ایک سفّاک فاتح کی حیثیت سے یاد رکھا ہے۔ رعایا کے باب میں مگر وہ نا مہربان نہ تھا۔ فاتحِ عالم نے فیصلہ کیا کہ ادائیگی اصل قیمت سے زیادہ کر دی جائے۔ اب بھی تاجروں نے انکار کر دیا۔ پھر اس نے وہ فیصلہ کیا‘ جو ایسے میں حکمران کو کرنا چاہئے۔ زائد نہیں بلکہ اصل قیمت ادا کی جائے گی اور بازار ڈھا دیا جائے گا۔ فوراً ہی تاجر سپر انداز ہو گئے۔ جس آدمی نے ترکی کے بایزید کو چند دنوں میں چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ جس نے سارے وسطی ایشیا‘ مشرق وسطیٰ اور ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی‘ ایک بازار کا انہدام ‘ اس کے لیے چیونٹی مسل دینے کے مترادف ہی تو تھا۔
وزیر اعظم کہتے ہیں کہ افسر شاہی تعاون نہیں کرتی۔ انگریزوں سے کیوں کرتی تھی۔ فوجی افسروں سمیت جن کی کل تعداد کبھی پچاس ہزار سے زائد نہ تھی۔ اس لیے کہ کارِ حکمرانی سے وہ واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ افسر شاہی گھوڑے کی طرح ہوتی ہے۔ سوار سلیقہ مند ہو تو جہاں چاہے لے جائے۔
جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا
سوار اناڑی ہو تو گھوڑا پٹخ دیتا ہے۔ سرکاری ملازمین سے استدعا نہیں کی جاتی۔ قانون کے دائرے میں آزادیٔ عمل عطا کی جاتی ہے‘ پھر ان کی نگرانی‘ پھر جزا و سزا۔ زیادہ نرمی نہ زائد سختی۔ کتاب میں لکھّا ہے: ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب۔ زندگی قصاص میں ہوتی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں طلبا نے لڑکی اور لڑکے کو پیٹ ڈالا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ میاں بیوی ہیں مگر انہوں نے پیٹ ڈالا۔ ممکن ہے وہ جھوٹ بول رہے ہوں۔ مگر اس کا فیصلہ یونیورسٹی انتظامیہ کو کرنا تھا‘ طلبا کو کس نے حاکم کیا؟
1993ء کے انتخابات سے پہلے نواز کھوکھر کی سفارش پر‘ میاں محمد نواز شریف نے جی سِکس اسلام آباد کے مارٹن کوارٹرز سے کہیں زیادہ قیمتی کوارٹر مکینوں کو بخش دیئے تھے۔ وہ تو خیر گزری کہ فرمانِ شاہی پہ عمل نہ ہو سکا۔ ٹرین لاہور شہر کی حدود میں داخل ہو تو کئی کلومیٹر تک سرکاری اراضی پہ ذاتی مکانات۔ شیخ رشید احمد اور غلام احمد بلور کی وزارت میں‘ اس بارے میں کبھی سوچا تک نہ گیا۔ سعد رفیق نے کچھ نہ کچھ کر دکھایا۔ خیر سے شیخ صاحب اب پھر وزیر ہیں۔ میرے ایک محترم دوست نے‘ کپتان کو مشورہ دیا تھا کہ شیخ صاحب سے التجا کریں۔ اپنی پارٹی میں انہیں شامل کر لیں۔ عطاء اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری نہ سہی لیکن خطیب تو ہیں۔ اس کے باوجود خان صاحب نے ریلوے کی وسیع سلطنت شیخ رشید کے حوالے کر دی کہ اپنی ذات گرامی کے سوا‘ زندگی بھر انہوں نے کبھی کسی دوسری چیز کی پروا نہیں کی۔ ان کی تین ترجیحات ہیں۔ 1۔ شیخ رشید 2۔ شیخ رشید 3۔ شیخ رشید۔
پنجاب میں چار وزرائِ اعلیٰ ہیں۔ عثمان بزدار‘ چودھری سرور‘ علیم خان اور چودھری پرویز الٰہی۔ تاریخ ساز حاکم عمر فاروق اعظم نے کہا تھا ایک اونٹ کی ناک میں دو نکیلیں نہیں پہنائی جاتیں۔ خان صاحب نے چار پہنا دی ہیں۔ اس پہ اصرار یہ بھی ہے کہ بزدار وزیر اعلیٰ ہیں اور وہی رہیں گے۔ نہیں رہ سکتے اور اگر رہے تو مسلسل اور متواتر ملک قیمت چکائے گا۔ لگ بھگ پندرہ یونیورسٹیوں میں قائم مقام وائس چانسلر ہیں۔ نئے وائس چانسلروں کا تقرر وزیر اعلیٰ کا اختیار ہے۔ کیا عثمان بزدار تجویز کردہ تین امیدواروں میں سے ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ یہ کام گورنر کو سونپنا چاہئے۔
رسول اکرمﷺ کے وصال نے سب کچھ زیر و زبر کر دیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ مدینہ کی زمین پر کوئی آسمان ہی نہیں۔ اس پر بھی سیدنا صدیق اکبر ؓ نے کہا: زکوٰۃ کی ایک رسّی روکنے والے کو بھی میں معاف نہیں کروں گا۔ اسی کا نام حکمرانی ہے۔