"HRC" (space) message & send to 7575

سونے کے ڈھیر

ہوا اپنا سب سے سہانا گیت گیہوں کے کھیتوں کے لیے گاتی ہے مگر سنہری وہ سرما کی دھوپ سے ہوتا ہے‘ رفتہ رفتہ ‘ دھیرے دھیرے‘ بتدریج۔ کھلیانوں میں پھر سونے کے ڈھیر پڑے ہوتے ہیں۔
ٹی وی کی خاتون میزبان نے لکھا: اس حقیر (Tiny) اقلیت کو اپنا احتجاج رجسٹر کرانا چاہئے‘ جو اعلیٰ اخلاقی اقدار کی علم بردار ہے۔ معزز اور معتبر۔ یہ صرف مذہبی لوگ نہیں جو زعم تقویٰ اور خبطِ عظمت کا شکار ہوتے ہیں۔ اشتراکی‘ سیکولر اور لبرل طبقات بھی۔
مذہبی انتہا پسندی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ جب اور جہاں کہیں کوئی معاشرہ اس کا شکار ہوا‘ تباہی آتی ہے۔ ہم پاکستانیوں سے زیادہ ‘ کسی کو اس کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ ساٹھ ہزار پا کستانی شہری‘ اس کی نذر ہوئے اور چھ ہزار سے زیادہ فوجی افسر اور جوان۔ اجتماع کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ اپنی ابتلا کو بھول جانے کی کوشش کرتا ہے۔ 
ابھی کل کی بات ہے کہ ہر ہفتے ملک میں تین سے پانچ بڑے دھماکے ہوا کرتے ۔ پولیس اور ایف آئی اے کے دفاتر محفوظ تھے اور نہ آئی ایس آئی کے۔ انتہا یہ ہے کہ جی ایچ کیو پر حملہ ہوا۔ ہدف سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کو یرغمال بنانا تھا۔ بہشتِ بریں کا آرزو مند‘ محافظوں کو قتل کرتا ہوا‘ جنونیوں کا ٹولہ جب اندر داخل ہوا تو ایک فوجی سے جنرل کے دفتر کا راستہ پوچھا۔ جان کا خطرہ مول لے کر اس نے گریز کیا‘ ورنہ اللہ جانے کیا ہوتا۔
اس کے باوجود کہ سول ادارے ان سے نمٹنے کے قابل نہ تھے۔ اس کے باوجود کہ کراچی کی حد تک‘ خود عسکری قیادت نے غیر معمولی احتیاط کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی‘ خوف سے جس کی حدود جا ملتی تھیں۔ اس کے باوجود کہ زرداری اور شریف حکومتیں‘ اس جنون سے لڑنے پہ آمادہ نہ تھیں‘ بالآخر یہ جنگ جیت لی گئی۔ پاکستان‘ لیبیا اور شام بننے سے محفوظ رہا۔ ہرگز رتے دن کے ساتھ‘ دہشت گردی تحلیل ہوتی گئی۔ حقیقی امن مگر قانون کی کامل بالا دستی ہی سے ممکن ہے۔ اس کے لیے طاقتور اور تربیت یافتہ‘ سول ادارے درکار ہیں۔ یہ جنگ افواج کے بل پر جیتی گئی جو احساسِ ذمہ داری سے لبریز ہیں۔
کوئی دن میں ایک اعلیٰ فوجی افسر کے فرزند کی شادی ہے۔ ان کے دفتر سے فون آیا: گھر کا پتا لکھوا دیجئے۔ لکھوا دیا۔ آج کسی نے فون کیا کہ گھر کی تلاش میں دشواری ہے۔ عرض کیا: دشواری ہے تو چھوڑ دیجئے‘ ایسا بھی کیا ضروری ہے۔ کوئی دیر میں ایک افسر کا فون آیا۔ اس نے معذرت کی۔ اس نے پتا نہ پوچھا۔ ظاہر ہے کہ اس اثنا میں ڈھونڈ نکالا تھا۔ عرض کیا: معذرت کرنے کی ضرورت نہیں۔ ناراضی کا سبب یہ ہے کہ اس معمولی کام کے لیے بار بار فون آپ کو نہیں کرنا چاہئے۔ پولیس اور سول سروس نالائقی کا مظاہرہ کرے تو تعجّب کیا۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔
ہر چیز ہم نے فوج پہ ڈال دی ہے۔ یہ مضحکہ خیز اور احمقانہ ہے۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے۔ بھارت‘ افغانستان اور ایران کے پڑوس میں یہ بجائے خود بہت بڑی ذمہ داری ہے؛ چہ جائیکہ سول معاملات بھی اسی کے سپرد کر دیئے جائیں۔ ایران سے کوئی خطرہ نہیں مگر بلوچستان کے ویرانے جب عالمی طاقتیں برتنے کی کوشش کریں تو احتیاط واجب ہے۔ رہا افغانستان اور اس سے ملحق قبائلی پٹی تو وہ عالمی خفیہ ایجنسیوں کی آماج گاہ ہیں۔ پاکستان کی تزویراتی اہمیت ہی میں اس کا امتحان بھی پوشیدہ ہے۔ بھارت ہمارا پڑوسی ہے۔ اس کی اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان کو ختم نہیں کیا جا سکتا؛ تو غیر مستحکم ضرور رکھّا جائے۔ وزیرستان کی سرحد پہ کھڑے ہو کر‘ گاندھی جی نے کہا تھا: بھارت کی حدود بامیان تک ہیں۔ غلبے کی وہی جبلّت۔ صدیوں محکوم رہنے والی اقوام میں یہ اور زیادہ شدّت سے پھوٹتی ہے۔ سرب وحشیوں کے ہاتھوں‘ بوسنیا کے قتلِ عام میں ترکوں کے اقتدار کا دخل بھی تھا‘ جو مدتوں قائم رہا۔ 
ماضی کو ہم بدل نہیں سکتے مگر اس کا بوجھ گاہے اٹھانا پڑتا ہے۔ نفرت کوئی اثاثہ نہیں۔ افراد کی طرح اقوام کی راہ بھی کھوٹی کرتا ہے مگر اس سے چوکنّا رہنا چاہئے۔ اس کا ہدف بننے سے بچنا چاہئے۔
پاکستان اب بھی ایک منظم قوم کا وطن نہیں‘ ملّا اور ملحد نے اس کی مخالفت کی تھی کہ عنان معتدل مزاج مسلمان لیڈروں کے ہاتھ میں تھی۔ ملحد کے علاوہ وہ کھوکھلے ترقی پسند بھی‘ جن کے نزدیک زندگی میں عقیدے کا عمل دخل ہرگز نہ ہونا چاہئے۔ پانچ چھ عشروں تک بائیں بازو کے زیر اثر‘ ذہنی غسل سے گزرے لوگ‘ قائدِ اعظمؒ اور اقبالؒ کو گالی بکتے ہیں۔ ارتقا کے سفر میں اقوام کو ایسے گروہ گوارا کرنا ہوتے ہیں۔ ان کا مداوا جوابی تشدد نہیں‘ بلکہ صبر و تحمل اور تعلیم ہے۔
نئی نسل مختلف ہے اور آنے والی نسلیں اور بھی مختلف ہوں گی۔ پرانی‘ تقریباً معدوم ہو چکی نسل کے لیے‘ اچھا یا بُرا‘ پاکستان ایک حادثہ تھا۔ نئی کے لئے اٹل حقیقت ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک کے فرزند نے ان سے کہا: اس نظری بحث کی میرے لیے کوئی زیادہ اہمیت نہیں کہ پاکستان بننا چاہئے تھا یا نہیں۔ میرے لیے یہ میرا وطن ہے... اور بس۔ زیادہ موزوں الفاظ میں شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ بحث شادی سے پہلے ہوتی ہے‘ بچّے پیدا ہونے کے بعد نہیں۔ سید عطاء اللہ بخاری نے کہا: مسجد کی تعمیر سے پہلے مباحثہ ممکن ہے‘ بعد میں نہیں۔
چار پانچ عشرے تک سوویت یونین اور پھر بھارت کے زیر اثر‘ امریکہ جس کا تزویراتی حلیف ہے‘ ایسے گروہ اب بھی پھل پھول رہے ہیں‘ دبے الفاظ میں جو پاکستان سے کراہت کا اظہار کرتے ہیں۔ دبے الفاظ میں کہ رائے عامہ سے ڈرتے ہیں۔ نئی اقوام میں بلوغت کا عمل اسی طرح انجام پاتا ہے۔ کبھی یہ لوگ اشتراکی تھے‘ کبھی سیکولر اور اب لبرل کہلاتے ہیں۔ خوش لباسی کی آرزو مند خواتین کی طرح‘ دانش کا بھی ہر زمانے کا ایک الگ فیشن ہوتا ہے۔ اپنی آنکھ سے زندگی کو دیکھنے والے کم ہوتے ہیں۔
1946ء کے انتخابات ہو چکے‘ جس میں 75.6 فیصد ووٹروں نے پاکستان کے حق میں رائے دی‘ تو قائدِ اعظم کے ایک دوست نے ان سے پوچھا: Do you really believe, it will become a nation. It will take fifty years.۔ جواب میں اس دانائے راز نے کہا "A hundred year" جی نہیں‘ ایک سو سال۔ تاریخی شعور کے حامل اس آدمی نے دیکھا تھا کہ 1776ء میں آزادی کے 89 برس بعد امریکہ میں خانہ جنگی پھوٹ پڑی تھی۔ امریکہ بہادر کے مقابلے میں‘ پاکستان نے بلوغت کا سفر زیادہ تیزی سے طے کیا ہے۔ 242 برس گزر جانے کے باوجود امریکہ کے جنوب میں ابرہام لنکن کو اب بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ وہ اس قوم کی تاریخ میں اخلاقی عظمت کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ پاکستان کے بعض قبائلی علاقوں میں‘ قدامت پسند علماء کے زیرِ اثر ناخواندہ لوگ‘ بابائے قوم کو ہیرو نہیں سمجھتے تو اس میں تعجّب کیا۔ یہ تعلیم سے ہو گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہو گا۔ اس سے بھی زیادہ نظامِ عدل کے قیام سے۔ اس سے بھی زیادہ تحفظ کے ایک سچّے احساس سے۔ مٹّی سے نہیں‘ انسانوں کو ماحول سے محبت ہوتی ہے۔
تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ عسکری غلبے کی بجائے جو آج بھی کار فرما ہے‘ اس مقصد کے لیے سول اداروں کی بالاتری درکار ہے۔ بہت شاندار منصوبہ بندی سے‘ قومی اتفاقِ رائے کے عمل کو شاید زیادہ بہتر انداز میں انجام دیا جا سکے‘ تیز تر نہیں کیا جا سکتا۔ اس اثنا میں ایک کے بعد احمقوں کا دوسرا گروہ پھوٹتا رہتا ہے۔ خود کو وہ انقلابی کہا کرتے ہیں۔
ہوا اپنا سب سے سہانا گیت گیہوں کے کھیتوں کے لیے گاتی ہے مگر سنہری وہ سرما کی دھوپ سے ہوتا ہے‘ رفتہ رفتہ‘ دھیرے دھیرے‘ بتدریج۔ کھلیانوں میں پھر سونے کے ڈھیر پڑے ہوتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں